Translate

11--Work examines the history of man۔ انسانی کام کی تاریخ کا جائزہ





11۔ انسانی کام کی تاریخ کا جائزہ

اب یہاں تک پہنچ کر ہم انسان پہ ہو رہے  مختلف ادوار کے  کاموں  کا تفصیلی و تنقیدی جائزہ لے  آئے  ہیں  جس سے  یہ بات کھل کر سامنے  آ گئی ہے  کہ اگرچہ انسانی موضوع پر روح، نفس جسم، ارتقاء، کے  حوالے  سے  صدیوں  بہت کام ہوا اور ہو رہا ہے  لیکن انسان کے  تمام تر موضوعات پہ برسوں  کی تحقیق و تجربات اور تمام تر کام کا نتیجہ یہ ہے  کہ تمام ادوار کے  لوگ انسان سے  متعلق انتہائی ابتدائی علم رکھتے  تھے  جو کہ محض مفروضوں  پر مشتمل تھا۔ کبھی مجموعی انسان کا مکمل علم انسان کو حاصل نہیں  ہوا  اس لیے  کہ انسان ظاہر مادی جسم کے  علاوہ ایک وسیع و عریض باطن بھی رکھتا ہے اور انسان آج تک اپنے  اس جہان باطن سے  ناواقف رہا ہے  نہ صرف ناواقف رہا ہے  بلکہ اس ناواقفیت پے  اصرار بھی کرتا رہا ہے۔ لہذا اگر کبھی کسی نے  اس جہان باطن میں  جھانک کر اسے  بیان کرنے  کی کوشش کی تو مادہ پرست انسانوں  نے  انہیں  وہم پرست قرار دے  کر ان کی اطلاعات کو توہمات قرار دے  دیا۔ اگر انسان ان اطلاعات پر کان دھرتا اور اپنے  اندر جھانک کر اپنے  اندر آباد دنیا کا کھوج لگانے  کی کوشش کرتا تو یقیناً آج تک انسان کی تعریف سامنے  آ چکی ہوتی آج انسان خود سے  واقف ہوتا۔ انسان نے  ہمیشہ اپنے  آپ (اپنی روح اپنے  نفس )کو واہمہ قرار دے  کر ہمیشہ خود سے  صرفِ نظر کیا جس کے  نتائج ہمارے  سامنے  ہیں کہ ہزاروں  برس کا انسان آج خود سے  ناواقف ہے۔
اگرچہ آج جدید تحقیقات کے  نتیجے  میں  سائنسدانوں  نے  انسان کے  اندر اس وسیع جہان کا سراغ لگا لیا ہے  لیکن اپنے  آپ سے  لاعلمی کے  سبب ابھی تک وہ اسے  شناخت نہیں  کر پا رہا الجھ رہا ہے  اس سے  یہ معمہ سلجھ نہیں  رہا۔ اور اب بھی یہ تعین نہیں  ہو سکا کہ آخر انسان کیسے  کیسے  اجسام یا اجزاء کا کیسا مجموعہ ہے۔
یونانیوں  نے  پہلی مرتبہ انسان کو روح و جسم کا مجموعہ قرار دے  کر اسے  اس مجموعی حیثیت میں  علمی دنیا میں  متعارف کروایا۔ ورنہ اس سے  پہلے  تو فقط چند روحانی پیشواء روح سے  واقف تھے۔ اور مادہ پرست مادی جسم کو ہی آخری حقیقت سمجھے  ہوئے  تھے  وہ روح کے  تصور تک سے  آگاہ نہیں  تھے۔
انسان کے  جسم میں  کوئی روح بھی ہے  جو اس مادی جسم کی حرکت و زندگی کا سبب ہے۔ یہ یونانیوں  کی فکری پیش قدمی تھی یہ فکر شاید انہوں  نے  اپنے  مذہبی عقائد سے  مستعار لی ہو۔ اس فکری پیشقدمی کے  علاوہ افلاطون کی تحریروں  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ کسی نہ کسی حد تک روحانی تجربات و مشاہدات بھی رکھتے  تھے۔ یعنی انسانی علم کی ابتداء یونانی دور میں  ہو چکی تھی۔
یونانی فلسفیوں  نے  انسان کے  حوالے  سے  روح، ذہن، نفس، ذات وغیرہ کا ذکر تو کیا لیکن وہ نہ تو نفس، ذہن یا روح کی انفرادی تعریف کر پائے  نہ ہی مجموعی انسان کا معمہ حل کر پائے  یعنی ان کے  دور میں  یہ انسانی کام اپنی انتہائی ابتدائی حالت میں  نمودار ہوا اگرچہ وہ انسان کی تعریف نہیں  کر پائے  لیکن انہوں  نے  یہ کوشش ضرور کی اور انسان کی روح اس کے  باطن کا تذکرہ کر کے  آگے  آنے  والے  محققوں  کے  لئے  تحقیق کے  در وا کر دئیے اور ان کی صحیح سمت کی طرف رہنمائی کی جسے  بری طرح رد کر دیا گیا ان کے  بعد آنے  والے  سائنسدانوں  نے  روح کو غیر مرئی قرار دے  کر علم کی حدود سے  خارج کر دیا اور فقط مادی جسم کو انسان قرار دے  کر صدیوں  اس پر کام کرتے  رہے۔ اس طرز عمل سے  انسان پر صدیوں  کی گرد چڑھ گئی اور ابھی تو انسان کے  علم کی ابتداء ہوئی ہی تھی کہ اسے  وہیں  ختم کر دیا گیا۔
مسلمانوں  نے  بھی جسم کے  علاوہ روح و نفس کا تذکرہ کیا اور مجموعی انسان کی بھی تعریف کی لیکن یہ کام بھی بہت ہی ابتدائی نوعیت کا کام رہا جس سے  مجموعی انسان کی تعریف ممکن نہیں  ہو سکی۔ نہ ہی یہ کام علمی حیثیت میں  سامنے  آ سکا۔
تمام ادوار میں  انسان اس کی روح اس کے  نفس کی اتنی تعریفیں اور اتنی متضاد تعریفیں  ہیں  جنہیں  پڑھ کر انسان کچھ سمجھ ہی نہیں  سکتا ہاں  الجھ ضرور جاتا ہے۔ اب اگر ہم اپنے  علم کی بنیاد پر کہیں  کے  ان صدیوں  برسوں  کی بے  تحاشا اور متضاد تعریفوں  میں  سے  انسان سے  متعلق ایک آدھ تعریف ٹھیک تعریف بھی ہے۔ تو پھر اتنی اور متضاد تعریفوں  میں  سے  اس ایک تعریف کو شناخت کرنا محال ہے۔ اور اگر کر بھی لیں  تو یہ تعریفیں اتنی ابتدائی تعریفیں  ہیں  کہ جو تعریف کے  معیار پر بھی پوری نہیں اترتیں۔
درحقیقت پچھلے  تمام ادوار میں  انسان پہ اتنے  متضاد موضوعات پہ کام ہوئے  ہیں  کہ یہ جاننا محال ہے  کہ انسان آخر ہے  کیا؟ جو روح پے  کام کرتے  ہیں  وہ کہ دیتے  ہیں  کہ اصل انسان تو روح ہی ہے۔ جو جسم پہ کام کرتے  ہیں  وہ آج تک یہی کہتے  آئے  ہیں  کہ جسم ہی آخری حقیقت ہے۔ AURA   کی دریافت کے  بعد بھی کچھ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے  پر رضامند نہیں  ہوتے اور اپنے  قدیم نظریات پر اڑے  رہنے  کو ترجیح دیتے  ہیں۔ بحر حال ابھی تک نہ تو روح کی شناخت ہوئی ہے  نہ نفس کی اور اب تو سائنسدان انسان کے  اندر مزید AURA  چکراز، سبٹل باڈیز کا مشاہدہ کر رہے  ہیں  لیکن الجھ رہے  ہیں۔ ابھی تک ان تمام کی انفرادی تعریف ہی ممکن نہیں  ہو سکی۔ یعنی اگر ہم یہ کہیں  کہ انسان ان تمام باطنی لطیف اجسام کا مجموعہ ہے۔ تو نہ تو ابھی تک ان تمام اجسام کی شناخت ہو پائی ہے  نہ ہی تعریف یا تعارف موجود ہے  لہذا ان تمام کو مجتمع کر کے  سادہ سے  انسان کی مجموعی تعریف کرنا فی الحال محال ہے۔ یعنی ہزاروں  برس سے  انسان کا علم آج تک اپنی ابتدائی حالت میں  ہی ہے۔
ہاں  جب یونانیوں  نے  انسان کے  باطن کی طرف اشارہ کیا تھا اگر اسی وقت ان کے  بتائے  ہوئے  راستے  کی طرف قدم اٹھائے  جاتے  اس صحیح سمت میں  پیش قدمی ہوتی سیر حاصل تحقیق ہوتی تو نتائج یقیناً اچھے  نکلتے  آج انسان خود سے  اپنے  باطن سے  یقیناً آگاہ ہوتا اور شاید مجموعی انسان کی حیثیت کا بھی تعین ہو جاتا۔
لیکن جب نہ سہی آج ہی سہی آج ہی اپنے  آپ کو واہمہ کہنا چھوڑ دیجئے۔ آج بھی روح کا تذکرہ کیا جائے  تو لوگ مذاق اڑاتے  ہیں  کہ یہ کیسی انہونی بات کرنے  کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج بھی انسان کے  موضوع کو سنجیدگی سے  لے  لیجئے  اور اپنے  آپ کو سمجھنے  کی کوشش کیجئے  تعصبات کو بالائے  طاق رکھ کر خود کو دیکھیئے  پہچانیے۔ اگر آج بھی انسان کی سمجھ میں  یہ بات آ گئی کہ اسے  کم از کم اپنے  بارے  میں  تو علم ہوا سے  خود کو تو جاننا ہی چاہئے۔ تب یہ علم اپنی ابتدائی حالت سے  نکل آئے  گا اور ہم خود کو شناخت کر لیں  گے  کہ آخر ہم کیا ہیں۔ آخر انسان کیا ہے ؟  لیکن ابھی تک انسان خود کو شناخت نہیں  کر پایا ہے  اور یہ انسان کا ابتدائی علم جس کا یہاں  ہم نے  تذکرہ کیا ہے  یہ بھی محض چند لوگوں  کے  پاس ہے  ورنہ انسانوں  کی زیادہ تعداد اپنے  بارے  میں  جانتی ہی نہیں۔ ابتدائی علم بھی نہیں  رکھتی۔ اب یہاں  جو ہم نے  انسان پر ہو رہے  تمام ادوار کے  مختلف کاموں  کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس جائزے  سے  درج ذیل نتائج اخذ کئیے  ہیں۔
تمام ادوار کے  انسانی کاموں  کے  نتائج درجِ ذیل ہیں۔
 ۱۔ تمام ادوار کے  محققین، فلسفی، سائنسدان، انسان کی مجموعی تعریف کرنے  میں  ناکام رہے  ہیں۔
۲۔ تمام ادوار کا کام انتہائی ابتدائی کام رہا ہے۔
۳۔ اور یہ تمام کام بے  نتیجہ ہیں۔
۴۔ تمام ادوار میں  مجموعی انسان کے  اجزاء (روح یا، نفس یا، جسم )پہ انفرادی کام ہوا ہے۔
۵۔ ہر انفرادی کام( یعنی روح کا کام یا نفس کا کام یا جسم کا کام)ایک دوسرے  سے  غیر متعلق رہا ہے۔
۶۔ تمام ادوار میں  کبھی مجموعی انسان(روح، نفس، جسم) پہ کام نہیں  ہوا۔ اسلئے  کہ آج تک کوئی انسان کی مجموعی حیثیت کو جان ہی نہیں  سکا۔
۷۔ تمام ادوار میں  روح کا تذکرہ موجود ہے۔
۸۔ روح کی خصوصیات کو روح کی تعریف کے  طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
۹۔ روح کی تعریفوں  میں  روح کی تعریف ہی نہیں  ہے۔
۱۰۔ تمام ادوار روح کی تعریف اور انفرادی شناخت کرنے  میں  ناکام رہے۔
۱۱۔ تمام ادوار میں  روح کو حصوں  میں  تقسیم کیا جاتا تھا۔
۱۲۔ روح اور  رب کو ایک ہی تصور کیا جاتا ہے۔
۱۳۔ تمام ادوار میں ارواح کی پوجا کا رواج رہا ہے۔
۱۴۔ ہر دور میں  نفس کا ذکر موجود ہے۔
۱۵۔ نفس کی مروجہ تعریف غلط ہے۔ ہر دور میں  نفس کی غلط تعریف کی گئی۔
۱۶۔ تمام ادوار نفس کی تعریف اور انفرادی شناخت کرنے  میں  ناکام رہے۔
۱۷۔ تمام ادوار میں  اصل نفس کو روح یا روح کے  حصے  کے  طور پر متعارف کروایا جاتا رہا۔
۱۸۔ مذاہب نے  روح و نفس کی تعریف کی ہے۔
۱۹۔ مذاہب میں  ترمیم و اضافے  سے  روح و نفس کی تعریفیں  متاثر ہوئی ہیں۔
۲۰۔ روح و نفس کی مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  میں  غلطی کی گئی ہے  جس سے  مختلف عقیدوں  (ارتقاء آواگون )نے  جنم لیا ہے۔
۲۱۔ قرآن نے  نہ صرف روح و نفس، جسم کی انفرادی تعریف کی ہے  بلکہ ان کی تخلیقی و فنائی ترتیب کو بھی بیان کیا ہے  لیکن اسے  آج تک سمجھا نہیں  گیا یا اس علمی ذخیرے  سے  استفادے  کی کوشش نہیں  کی گئی۔
۲۲۔ تمام ادوار میں  انسان کے  باطنی وجودAuraکا ذکر موجود ہے۔
۲۳۔ تمام ادوار کی روحانی مشقوں اور تجربات میں  سو فیصد مماثلت ہے۔
۲۴۔ یونانی ذہن، روح، نفس، جسم سے   ابتدائی حیثیت میں متعارف تھے۔
۲۵۔ لیکن وہ ذہن، روح، نفس کی انفرادی شناخت نہیں  رکھتے  تھے۔
۲۶۔ یونانی فلسفیوں  نے  مادی جسم کے  علاوہ انسان سے  متعلق روح، ذہن و نفس کو پہلی مرتبہ علمی میدان میں  متعارف کروایا۔ اس سے  پہلے  یہ علم مذہبی روحانی پیشواؤں  تک محدود تھا۔
۲۷۔ ارتقائی نظریہ ہزاروں  برس قدیم یونانی نظریہ ہے  یعنی یہ ڈارونزم نہیں  بلکہ یونانزم ہے 
۲۸۔ ہر دور میں روح کے  دوبارہ جانور کی شکل میں  نمودار ہونے  یا کرما اور آواگون جیسے  مختلف النوع (متضاد) نظریات موجود رہے  ہیں۔
۲۹۔ آواگون  یا  کرما  کے  غلط نظریے  نے  بنیادی عقیدے  کی شکل اختیار کر لی ہے  جب کہ اس غلط نظریے  نے  مذاہب کی صحیح اطلاعات کو سمجھنے  کی غلطی سے  جنم  لیا۔ ثابت ہو گیا کہ ارتقاء کے  حامی خود فریبی کا شکار اسے  ایک مذہبی عقیدہ تصور کر کے  اندھا دھند اس کے  دفاع میں  مصروف ہیں  جب کہ نہ تو یہ مذہبی عقیدہ ہے  نہ سائنسی نظریہ، یہ محض مفروضہ ہے  جس کی بلاوجہ جھوٹی تائید کی جا رہی ہے۔
۳۰۔ ارتقاء سے  متعلق رکازی ریکارڈ من گھڑت، افسانے  جھوٹے، دلیلیں  بے  ثبات اور تمام مواد  ردی ہے۔ جعل سازی سے  مرکب اس رکازی ریکارڈ یا کباڑ کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔
۳۱۔ جب کہ جدید رکازات یا اصل رکازی ریکارڈ سے  ثابت ہو گیا کہ تمام انواع اپنی موجودہ حالت میں  لاکھوں  برس پہلے  بھی موجود تھیں۔
۳۲۔ جدید تحقیقات سے  ثابت ہو گیا کہ ارتقاء نہیں  ہوا تھا۔ (جینیاتی تغیر نہیں  نوعی تسلسل حقیقت ہے )۔
۳۳۔ جدید دریافتوں  سے  یہ بھی ثابت ہو گیا کہ رفتہ رفتہ نہیں  اچانک تخلیق ہوئی تھی۔
۳۴۔ جدید تحقیقات سے  یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کسی حیوانی نسل کا تعلق انسانی نسل سے  نہیں۔
۳۵۔ ماضی کا انسان (نہ صرف پورا انسان تھا حیوان نہیں  تھا)بلکہ آج کے  انسان سے  زیادہ  روحانی، ذہنی و جسمانی اعتبار سے  مضبوط انسان تھا۔
   وہ محض مادی ترقی ہی نہیں  بلکہ روحانیت میں  بھی درجہ کمال کو پہنچا ہو تھا۔
۳۶۔ جدید تحقیقات سے  یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام انسان ایک ہی ماں  کی اولاد ہیں۔
۳۷۔ مسلمانوں  نے  پہلی مرتبہ مجموعی انسان کی تعریف کی ہے۔ (لیکن یہ محض انتہائی ابتدائی تعریف ہے  یہ کوئی انسانی علم نہیں، ہاں  یوں  ہے  کہ انسان سے  متعلق یہ انتہائی ابتدائی تعریف بھی پوری انسانی کام کی تاریخ میں  ایک ہی ہے اور یہ ایک تعریف بھی صرف مسلمانوں  کے  ہاں  موجود ہے )
۳۸۔ صرف مسلمانوں  نے  انسان کو تین نظاموں  (روح، نفس، جسم) کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ ان سے  پہلے اور ان کے  بعد سب محققوں  نے  دو نظاموں  کا ذکر کیا ہے۔ یعنی روح و جسم
۳۹۔ مسلمانوں  نے  صدیوں  پہلے  غیر سائنسی دور میں  انسان (روح، نفس، جسم) کی جدید سائنسی تعریف کی ہے۔
۴۰۔ مسلمانوں  نے  پہلی مرتبہ ہر  روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی۔ مسلمانوں  نے  ہر  روح، نفس، جسم کی خصوصیات کا بھی ذکر کیا۔
۴۱۔ مسلمان روح یا جسم کی تخلیق یا فنائی ترتیب کے  کچھ ٹکڑوں  سے  سرسری واقفیت تو رکھتے  تھے  لیکن وہ مجموعی ترتیب کو سمجھنے  سے  قاصر رہے  لہذا وہ مجموعی انسان کی تخلیقی اور فنائی ترتیب کو ترتیب دینے  میں  کامیاب نہیں  ہو سکے۔
۴۳۔ جدید محققین بھی سائنسی دریافتوں  کی بدولت انسان کے  باطن کو تو دریافت کر بیٹھے  ہیں  لیکن اسے  کوئی حتمی نام نہیں  دے  پا رہے۔
۴۴۔ وہ لطیف اجسام کا مادی جسم سے  ربط نہیں  جوڑ پائے۔
۴۵۔ وہ ان تمام کا مقصد عمل اور خصوصیات نہیں  جانتے  اگرچہ کسی نہ کسی حد تک ان کے  مادی جسم پر اثرات کا جائزہ لیتے  رہتے  ہیں۔
۴۶۔ وہ ان تمام (AURA، چکراز، سبٹل باڈیز یا لطیف اجسام) کی انفرادی شناخت نہیں  کر پائے۔ اگرچہ انہوں  نے  انہیں  مختلف نام دے  رکھے  ہیں۔
۴۷۔ جدید محققین لطیف اجسام کے  مشاہدے  کے  بعد آواگون جیسے  نظریات کو درست سمجھنے  لگے  ہیں  حالانکہ یہ محض ان کی غلط فہمی ہے  
۴۸۔ تمام ادوار کی طرح جدید محققین بھی انسان کے  باطن کے  مشاہدے  کے  بعد بری طرح الجھ گئے  ہیں۔ اور سمجھ نہیں  پا رہے  کہ یہ   "انسان "  کیسا راز ہے  یعنی تمام ادوار کا کام بے  نتیجہ رہا۔
۴۹۔ یعنی ہزاروں  برس بعد آج بھی یہ معمہ  "انسان"  ابھی تک معمہ ہی ہے۔
۵۰۔ لیکن اب آگے  ہم ان تمام الجھنوں اور غلط فہمیوں  کو دور کر کے  انسان کی تعریف پیش کریں  گے۔ اور یہ تمام تر تعریف نئے  نظریات  پہ مشتمل ہو گی۔
ان تاریخی غلطیوں  سے  مندرجہ ذیل سوال سامنے  آ رہے  ہیں  یہ سوالات اگرچہ ہر دور میں  کھڑے  ہوئے  ہیں اور ہر دور کے  محقق، سائنسدان، فلسفی، صوفی ان سوالات پر کام کرتے  رہے  ہیں لیکن ہزاروں  برس کی تمام تر تحقیق و جستجو کے  بعد آج بھی یہ تمام سوال جوں  کے  توں  تشنہ ہیں۔
وہ سوال مندرجہ ذیل ہیں :۔
12۔ تاریخی سوال
۱۔ آخر مجموعی انسان کی کیا تعریف ہے؟
۲۔ انسان آخر کن کن اجسام کا کیسا مجموعہ ہے ؟ 
 ۳۔ روح کیا ہے؟   ہزاروں  برس میں  روح کی انفرادی شناخت بھی نہیں  ہو پائی کیوں ؟
 ۴۔ کیا روح کے  حصے  بھی ہیں ؟
۵۔ کیا روح اور رب ایک ہیں ؟
۶۔ نفس کیا ہے ؟   اس کی انفرادی شناخت کیا ہے؟
۷۔ آواگون کے  نظریے  کی حقیقت کیا ہے ؟   یہ مذہبی عقیدہ کیسے  بن گیا؟
۸۔ ارتقاء جیسے  جھوٹے  مفروضے  نے  مذہبی عقیدے اور سائنسی نظریے  کی صورت کیسے  اختیار کی؟
۷۔ انسان کی تخلیق ہوئی یا ارتقاء۔؟
۸۔ انسان کی تخلیق کیسے  ہوئی؟  
۹۔ فنائی مراحل کیا ہیں۔؟
۱۰۔ کیا انسان مر کر فنا کے  گھاٹ اتر جاتا ہے۔؟
 ۱۲۔ یا آخرت کے  سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔؟ 
؂ ۱۳۔ یا وہ بار بار جنم لیتا ہے۔؟
۱۴۔ )  (AURA، چکراز کیا ہیں۔؟
۱۵۔ نظریۂ جبر و قدر کی کیا حقیقت ہے۔؟
۱۶۔ نظریۂ ہبوطِ آدم کیا ہے۔؟
 ۱۷۔ انسانی تعریف میں  ناکامی کے  کیا اسباب ہیں؟
۱۸۔ کیا انسان کی تعریف ممکن ہے۔؟
یہ علم انسان سے  متعلق وہ سوالات ہیں  جن میں  صدیوں  سے  سائنسدان، فلسفی، محققین الجھے  تو ہوئے  ہیں لیکن انہیں  کبھی سلجھا نہیں  سکے۔ آئیے  ان ہزاروں  برس کی الجھنوں  کو سلجھا کراس کتاب میں  ان تشنہ سوالوں  کے  جوابات دیتے  ہیں۔



Work examines the history of man

Rubina Nazli

No comments:

Post a Comment