Translate

26--Fixed Destiny aur Absolute Free- نظریۂ جبرو قدر




149۔ نظریۂ جبرو قدر


تقدیر کے  حوالے  سے  عیسائیوں  نے  نظریۂ جبر(Fixed Destiny)پیش کیا
نظریۂ جبر کے  مطابق انسان محض مجبور ہے۔ جو کچھ اس کے  ساتھ ہوتا ہے  وہ محض اس کی تقدیر اور پہلے  سے  ہی طے  شدہ ہے اور ہو کر ہی رہے  گا۔
سیکیولر تہذیب نے  تقدیر کے  اس نظریۂ جبر کو رد کر دیا اور اس کی جگہ انسان کے  غیر محدود اختیار(Absolute Free)کا نظریہ لائے۔ اس نظریے  کے  مطابق انسان غیر محدود اختیار کا مالک ہے  اور با اختیار ہے  لہذا جو چاہے  کر سکتا ہے۔ اس نظریے  کے  مطابق فرد کے  ذاتی اعمال یا قومی واقعات محض مادی وجوہات کا نتیجہ ہیں  جن پر قابو پا کر انہیں  معرضِ وجود میں  آنے  سے  روکا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں  نے  بھی بلاوجہ اس فلسفے  کو اختیار کیا حالانکہ ان کے  پاس اس فضول بحث کا کوئی جواز نہیں  تھا پھر بھی دو فرقے  جبریہ اور قدریہ وجود میں  آئے۔ جبریہ انسان کی مجبوری کے  قائل تھے  تو قدریہ انسان کو اپنی قسمت کا مالک سمجھتے  تھے۔ جب کہ حضرت علی اس بحث سے  بہت پہلے  سادہ الفاظ میں  اس مسئلے  کا حل پیش کر چکے  تھے۔ جب حضرت علی سے  سوال کیا گیا کہ انسان کتنا با اختیار ہے اور کتنا مجبور ہے  تو انہوں  نے  سوال کرنے  والے  سے  جواباً کہا کہ ایک ٹانگ پر کھڑے  ہو جاؤ، جب وہ یہ کر چکا تو کہا اب دوسری ٹانگ بھی اُٹھا لو۔ اس پر وہ بول اُٹھا یہ میں  کیسے  کر سکتا ہوں۔ حضرت علی نے  کہا تیرے  سوال کا یہی جواب ہے، تم ایک حد تک آزاد ہو اور ایک حد تک مجبور۔
آج جدید سائنسی تحقیقات نے  سیکیولر تہذیب کے  نمائندہ سائنسدانوں  کو اپنے  اختیار(Free Will)کے  نظریے  پر نظرِ ثانی پر مجبور کر دیا ہے۔ لہذا جدید تحقیقات کی روشنی میں  سائنسدانوں  کو کہنا پڑ رہا ہے  کہ انسانی جینز کے  اندر آدمی کی سوچ، صحت اور تقدیر بند ہے۔ ہمارے  جینز کے  اندر پروگرام شدہ ٹائم کلاک ہیں  جن کے  مطابق ہماری نشو و نما ہوتی ہے، ہم جو کچھ بھی ہیں ہماری عادات، ذہن، صحت، جسم کی شکل، سوچ اور ہماری زندگی کے  حالات کا زیادہ تر انحصار ہمارے  جینز کی بناوٹ پر ہے، یعنی انسانی تقدیر اور نہ جانے  کون کونسی تفصیل اس خورد بینی جرثومے  پہ پہلے  سے  لکھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ آج کا انسان جدید تحقیقات کے  نتیجے  میں اپنے  جینز پہ لکھی تقدیر کا مطالعہ تو کر رہا ہے  لیکن جینز سے  متعلق ان دریافتوں  نے  سائنسدانوں  کو حیران کر دیا ہے۔ انسان جدید تحقیقات کے  نتیجے  میں اپنے  جینز پہ لکھی تقدیر کا مطالعہ تو کر رہا ہے  لیکن یہ نہیں  سمجھ پا رہا کہ وہ اپنے  اندر لکھی اپنی تقدیر کا غلام ہے  یا آزاد ہے۔
ابھی تک تو سائنسدانوں  نے  اتنا ہی دریافت کیا ہے  کہ انسان جو کچھ کر رہا ہے  یا اسے  جو کچھ کرنا ہے  وہ سب کچھ تو اس کی تقدیر میں  پہلے  سے  لکھا ہوا ہے۔
اس دریافت نے  سائنسدانوں  کو حیران اور پریشان کر دیا ہے  انسان جو کچھ کر رہا ہے  یا اسے  جو کچھ کرنا ہے  اگر وہ سب کچھ  انسان کی تقدیر میں  پہلے  سے  لکھا ہو ا ہے  تو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اپنی تقدیر کا غلام ہے ، تو کیا انسان عمل کے  لئے  تقدیر کا پابند ہے۔؟ تو کیا انسان آزاد ارادے  کا مالک نہیں ہے۔؟یہ دریافتیں  در حقیقت سائنسدانوں  کو پھر اسی صدیوں  پُرانے  جبر و قدر کے  دورا ہے  پر لے  آئیں  ہیں، یہ وہی برسوں  پُرانے  سوالات ہیں  جن پہ جبریہ و قدریہ فرقے  صدیوں  اُلجھے  تو رہے  لیکن کوئی جواب نہ دے  سکے، کوئی حل نہ ڈھونڈ سکے۔ آج جدید تحقیقات کے  نتائج کے  طور پر پھر وہی برسوں  پُرانے  سوال سائنسدانوں  کے  سامنے  سوالیہ نشان بنے  کھڑے  ہیں۔ یعنی
۱۔ کیا ہم اپنے  اندر پہلے  سے  تحریر تقدیر کے  غلام ہیں۔؟
۲۔ ہم اپنی جینز پر پہلے  سے  لکھی ہوئی اپنی تقدیر پر کتنا اختیار رکھتے  ہیں، کیا ہم اسے  بدل سکتے  ہیں۔؟
۳۔ فرد و اقوام کے  اعمال و واقعات کا تعین اگر پہلے  سے  تقدیر کے  پروگرام میں  طے  پا چکا ہے  تو کیا انسان ان واقعات کو معرضِ وجود میں  آنے  سے  روک سکتا ہے۔؟
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے  کہ جبریہ  (Fixed Destiny)ہوں  یا قدریہ  (Absolute Free)یا جدید سائنسدان تمام ہزاروں  برس سے  اس مسئلہ تقدیر یا مسئلہ جبر و قدر میں  اُلجھے  تو ہوئے  ہیں  لیکن یہ تمام آج تک اس مسئلے  کا کوئی حل ابھی تک ڈھونڈ نہیں  پائے  ہیں (اگرچہ وہ جدید سائنسی تحقیقات کے  ذریعے  اپنی تقدیر کا مطالعہ بھی کر رہے  ہیں )۔ یعنی صدیوں  میں  بھی ہر قسم کے  محقق، فلسفی اور سائنسدان مسلۂ جبرو قدر کو سلجھانے  میں  ناکام رہے  ہیں
جب کہ آج ہم نے  اس کتاب میں اس صدیوں  کے  مسئلے  (جبر (Fixed Destiny)و قدر(Absolute Free)کا حل پیش کر دیا ہے  جس کا خلاصہ کچھ یوں  ہے
ہم مادی جسم کی پیدائش کے  عنوان سے  بیان کر آئے  ہیں  کہ ماں  کے  رحم میں  جب بچہ نطفے  سے  آغاز کرتا ہے  تو آغاز سے
۱۔ پہلے  ۱۲۰ دن بچے  کی جسمانی تعمیر اس کے  والدین کی موروثی شخصیت کے  مطابق والدین کے  نطفے  سے  ہوتی ہے
۲۔ ۱۲۰ دن بعد بچے  کی جسمانی تعمیر کے  لئے  ذاتی پروگرام(تقدیر) مل جاتا ہے۔ لہذا اگلے   ۱۵۰  دن بچے  کی تعمیر  اس کے  ذاتی انفرادی پروگرام سے  انجام پاتی ہے، لہذا انسان
۳۔ انسان 44.44 فیصد موروثی شخصیت کا مالک ہے  اور
۴۔ انسان 55.56  فیصد  ذاتی انفرادی شخصیت کا مالک ہے۔
تقدیر کا مرتب پروگرام (جو مادرِ رحم میں  آغازِ پیدائش کے   ۱۲۰  دن بعد انسان کو مل جاتا ہے  )محض جسمانی ساخت کی ترتیب وتعمیر کا پروگرام نہیں  ہے  بلکہ انسان کی پوری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل اس کتابِ زندگی یعنی تقدیر میں   پہلے  سے  تحریر ہے۔
۵۔ انسان کی پوری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل اس کی کتابِ زندگی یعنی تقدیر میں   پہلے  سے  تحریر تو ہے  لیکن
۶۔ انسان اپنی اس مرتب تحریر(تقدیر) کا پابند نہیں  ہے۔ (انسان تقدیر کے  محض چند قوانین کا پابند بھی ہے  مثلاً زندگی موت وغیرہ  یہ پابندی بالکل ایسے  ہے  جیسے  ایک آزاد شہری ریاست کے  نظم و ضبط کے  لئے  کچھ ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے  )
لہذا کتابِ تقدیر میں  پہلے  سے  مرتب تحریر سے  ہر حرکت ہر عمل کی اطلاع آ جانے  کے  بعد
۷۔ انسان عمل اپنے  ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے۔ ایک عمل کیسے  واقع ہوتا ہے  اس کا تفصیلی بیان ہم عمل کے  عنوان سے  کر آئے  ہیں اور اس عمل کے  اس بیان میں  یہ وضاحت بھی ہو چکی ہے  کہ اعمال کا محرک محض مادی وجوہات نہیں  ہیں  بلکہ ہر حرکت ہر عمل روح و نفس، کائنات اور خالقِ کائنات سے  مربوط ہے  یعنی ہر حرکت ہر عمل جو انسان اپنی مرضی اپنے  ارادے  سے  سرانجام دے  رہا ہے   وہ طویل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔
ہمارے  ان جدید نظریات کی روشنی میں   جبر و قدر کا مسئلہ پورے  طور پر حل ہو گیا ہے اور اس مسئلے  کے  ہر سوال کا تسلی بخش جواب  بھی سامنے  آ گیا ہے   جسے  اب یہاں  ہم سوال و جواب کی صورت میں  دُہرا دیتے  ہیں۔
سوال نمبر ۱۔ کیا انسان  (نظریہ  جبرFixed Destinyاور جدید سائنسی تحقیقات کے  مطابق )اپنے  اندر تحریر تقدیر کا پابند ہے۔؟
جواب۔ انسان اپنے  اندر تحریر تقدیر کا پابند یا غلام نہیں  ہے۔ انسان کی تقدیر میں  انسان کی پوری زندگی کی محض تحریر(پروگرام) ہے  ہر حرکت ہر عمل کے  لئے  جب انسان کو اپنے  اندر کی تحریر سے  اطلاع مل جاتی ہے  تو اس اندر کی تحریری اطلاع پر عمل در آمد انسان اپنے  ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے۔ انسان اس تقدیر کی اطلاع میں  اپنے  ذاتی ارادے  سے  رد و بدل کر کے  ہر عمل اپنی مرضی سے  سر انجام دیتا ہے۔ لیکن
انسان تقدیر کے  محض چند قوانین کا پابند بھی ہے  مثلاً زندگی موت، جسمانی شخصیت کی تعمیر وغیرہ  یہ پابندی بالکل ایسے  ہے  جیسے  ایک آزاد شہری ریاست کے  نظم و ضبط کے  لئے  کچھ ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے۔
سوال نمبر ۲۔ کیا انسان غیر محدود اختیار( (Absolute Free)کا مالک ہے۔؟
جواب۔ انسان غیر محدود اختیار( (Absolute Free)کا مالک ہے  چاہے  تواپنی تقدیر کی تحریرپہ ہی عمل پیرا ہو جائے، چاہے  تو اس میں  رد و بدل کر کے  عمل کر لے  چاہے  تو عمل کی ہر قسم کی اطلاعات کو رد کر کے  اپنی مرضی سے  عمل کے  لئے  کوئی تیسرا راستہ اختیار کر لے۔  
سوال نمبر ۳۔ کیا فرد و اقوام کے  اعمال و واقعات کا محرک محض مادی وجوہات ہیں۔؟
جواب۔ فرد و اقوام کے  اعمال کا محرک محض مادی وجوہات نہیں  ہیں  بلکہ ہر حرکت ہر عمل روح و نفس، کائنات اور خالقِ کائنات سے  مربوط ہے  یعنی ہر حرکت ہر عمل طویل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔
سوال نمبر۴۔ کیا انسان اپنی مرضی سے  فرد و اقوام کے  اعمال و واقعات پر قابو پا کر واقعات کو معرضِ وجود میں  آنے  سے  روک سکتا ہے۔؟کیا انسان اپنی مرضی سے  اپنے اور قوم کے  حالات و واقعات کو بدل سکتا ہے۔؟
جواب۔ انسان اپنی مرضی سے  فرد و اقوام کے  اعمال و واقعات پر قابو پا کر واقعات کو معرضِ وجود میں  آنے  سے  روک سکتا ہے اور انسان اپنی مرضی سے  اپنے اور قوم کے  حالات و واقعات کو بدل بھی سکتا ہے۔
ہر عمل کے  لئے  آزاد ہونے  کے  ساتھ ہی انسان تقدیر کے  محض چند قوانین کا بحر حال پابند بھی ہے  جیسے  کہ ایک آزاد شہری چند ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے، اور یہ پابندی ریاست کے  نظم و ضبط کے  قیام کے  لئے  ہوتی ہے ، آزاد شہری کی پابندی کے  لئے  نہیں۔ لہذا عمل کی تمام تر آزادی کے  باوجود انسان ان چند حالات و واقعات کو بدلنے  کی طاقت نہیں  رکھتا جو اس پابندی کے  زُمرے  میں  آتے  ہیں۔
لہذا اب یہاں صدیوں  کا مسئلہ جبر و قدر بھی آج یہاں  ہم نے   حل کر دیا۔ جس کے  مطابق انسان ہر عمل کے  لئے  آزاد ہے اور اپنے  ہر اچھے  بُرے  عمل کا ذاتی طور پر ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ (مزید تفصیلات کے  لئے  پڑھیے   عنوان۔ پیدائش، عنوان۔ تقدیر، عنوان۔ عمل)

No comments:

Post a Comment