Translate

29--Theory of Evolution)نظریہ ارتقا




152۔ نظریہ ارتقا  (Theory of Evolution)


ہم پچھلے  صفحات میں   "انسان کی ابتدائی تعریف" کے  عنوان سے  یہ بحث کر آئے  ہیں  کہ نظریۂ ارتقا محض ایک غیر سائنسی مفروضہ ہے۔ اب ہم یہ جاننا چاہتے  ہیں  کہ اس باطل نظریے  کی بنیاد کیا ہے۔ اور اس باطل مفروضے  نے  عقیدے اور پھر سائنسی نظریے  کی صورت کیسے  اختیار کی۔ آیئے  جائزہ لیتے  ہیں۔
ایک برطانوی یہودی چارلس رابرٹ ڈارون نے  اپنی کتاب (The Origin of Species by means of Natural Selection)   یعنی فطری انتخاب کے  ذریعے  انواع کا ظہور۔
میں  ان نظریات کا اظہار کیا کہ ' انسان کی تخلیق نہیں  ہوئی بلکہ حیوانی سطح سے  ارتقاء ہوا ہے  جس پہ ماحول کے  اثرات ہیں۔ اربوں  سال پہلے  غیر متوازن ماحول میں  یک خلوی جرثومے  (Unicellular Organism)   سے  حیات پانی میں  شروع ہوئی۔ وہیں  نمود کی فطری خواہش کی وجہ سے  ترقی کرتی رہی۔ وہیں  سے  مینڈکوں  کی ایک نسل خشکی پر آ گئی۔ جن مینڈکوں  کو درختوں  پر چڑھنے  کا شوق ہوا وہ بالا آخر اڑنے  والے  جانور بن گئے۔ انہی میں  سے  کچھ خشکی پر خوراک و حفاظت کی تلاش میں  مختلف اشکال میں  بٹ گئے۔ جن میں  سے  کچھ بندر بن گئے۔ بقاء کی یہ جنگ کروڑوں  سالوں  سے  جاری ہے  جس کے  نتیجے  میں  کمزور ناپید ہوتے  گئے اور طاقتور بقاء کے  لئے  موزوں  ثابت ہوئے۔
یوں  بندروں  سے  ترقی کر کے  ایک نسل آدمیوں  کی وجود میں  آ گئی۔ یعنی ڈارون کے  مطابق انسان موجودہ صورت میں  بندر (APE)سے  پروان  چڑھا ہے۔ مزید یہ کہ فطری انتخاب کے  ذریعے  ایک سے  دوسری انواع وجود میں  آتی ہیں  یعنی کسی بھی ایک نوع کی اصل (Origin)  کوئی دوسری نوع ہے۔
ڈارون سے  پہلے  ہزاروں  برس قبل کے  قدیم یونانی فلسفیوں  انکسا مندر اور ابندرقلیس نے  بھی یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ  انسان کی موجودہ شکل ہمیشہ سے  نہیں  ہے  بلکہ انسان نے  رفتہ رفتہ حیوانی حالت سے  ارتقاء کی ہے۔ اس کے  بعد بھی اکثر فلسفیوں  نے  انسان کو حیوان کی ترقی یافتہ شکل ہی قرار دیا کسی نے  اسے  سیاسی حیوان کہا تو کسی نے  معاشرتی کسی نے  ہتھیار بنانے  والا حیوان کہا تو کسی نے  حیوانِ ناطق۔
اگرچہ نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution)   کو انیسویں  صدی کے  وسط میں  سائنسی نظریے  کی حیثیت سے  متعارف کروایا گیا لیکن اسے  سائنسی نظریہ ثابت کرنے  کی کوششیں  کوئی ڈیڑھ سو سال سے  جاری ہیں  جب کہ یہ نظریہ محض ڈیڑھ سو سال پرانا بھی نہیں۔
درحقیقت ہزاروں  برس قبل قدیم یونانیوں  نے  یہ نظریہ علمی دنیا میں  متعارف کروایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے  کہ نظریہ ارتقاء ڈارونزم نہیں  بلکہ یونانزم ہے 
اس ہزاروں  برس قدیم نظریے  پر ہزاروں  برس سے  تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اور تحقیق و تجربات کی روشنی میں  ہزاروں  برس سے  اس نظریے  کی مسلسل نفی بھی ہو رہی ہے۔ آج جب کہ پورے  طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے  کہ یہ ارتقائی نظریات انسان کے  انسان ہونے ، اور تمام انواع کے  نوعی تسلسل کی نفی کرتے  ہیں  بلکہ ہر قسم کی مذہبی، تاریخی اور سائنسی شہادتوں  سے  بھی متصادم ہیں۔ آج جہاں  اس نظریے  کے  خلاف ہمارے  پاس سائنسی، تاریخی اور مذہبی ثبوت و شواہد کے  ڈھیر موجود ہیں  تو وہیں  نظریہ ارتقاء کے  اثبات میں  آج ہمارے  پاس ایک بھی شہادت ایک بھی دلیل نہیں۔ آج جب کہ ارتقائی نظریہ کے  فریب کا پردہ پورے  طور پر چاک ہو چکا ہے  اس کے  باوجود ارتقاء پرست اس کے  دفاع پر ڈٹے  ہوئے  ہیں  آخر کیوں؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے  کہ آخر ارتقاء پرست اتنا بڑا ارتقائی ڈھونگ رچاکر قوموں  کو گمراہ کر کے  علمی بحران پیدا کرنے  کی کوشش کیوں  کرتے  رہے  ہیں؟یہ جاننے  کے  لئے  ارتقائی نظریات کا پس منظر جاننا ضروری ہے اور پس منظر جاننے  کے  لئے  ارتقاء پرستوں  کا جاننا ضروری ہے۔
لہذا دو طبقات نے  اس نظریے  کو قبول کیا۔ (بلکہ اس نظریے  کو جنم دینے  والے  بھی یہی دو طبقے  ہیں )
(1)  لا مذہب حلقے۔
(2)  ارتقائی نظریے  کو مذہبی عقیدہ سمجھنے  والے۔

(1)  لامذہب حلقے
یہ نظریہ ہزاروں  برس قدیم نظریہ ہے اور لا مذہب حلقے  کی پیداوار ہے  جو ہمیشہ سے  خالق کائنات کے  انکاری رہے  ہیں اور کائنات کو اتفاقی حادثہ قرار دیتے  رہے  ہیں۔ لہذا آج بھی لا مذہب حلقوں  نے  اس کی خوب پذیرائی کی ہے۔ اور ان میں  یہ نظریہ مقبول عام ہے۔ اگرچہ ہر قسم کی سائنس۔  اتفاقات کی نفی کر رہی ہے۔ اور یہ پورے  طور پر ثابت ہو چکا ہے  کہ ایک خلیے  سے  لیکر انسان تک کائنات اور اس کی تمام تر موجودات میں  کہیں  بھی اتفاقات کا کوئی دخل نہیں۔ ہر تخلیق بڑی خاص ہے  سب کچھ بڑا منظم، مربوط اور ترتیب یافتہ ہے  کسی بڑے  ذہن کا بڑا مضبوط پلان۔ لا مذہب حلقے  آج اس سامنے  کی حقیقت کو جھٹلا بھی نہیں  سکتے  لیکن بڑی ڈھٹائی کے  ساتھ اسے  تسلیم کرنے  کو بھی تیار نہیں اسی لئے  ارتقاء کے    اتفاقی  نظریات ان کے  لئے  بڑے  خوش کن ہیں۔ اب یہ لوگ ثابت شدہ سامنے  کی حقیقت سے  نظریں  چرا کر ایک ثابت شدہ غیر سائنسی باطل مفروضے  کی آڑ لے  رہے  ہیں۔
امریکی فلکیات دان ہیوگ روس اس حقیقت کو یوں  بیان کرتے  ہیں۔ 
"الحاد (Theism)   ڈارونزم اور اٹھارویں  صدی سے  لے  کر بیسویں  صدی تک کے  فلسفوں  سے  وجود میں  آنے  والے  تقریباً تمام ازموں  کی بنیاد اس غلط مفروضے  پر ہے  کہ کائنات لامحدود (Infinite)   ہے۔ وحدانیت (Singularity)  ہمیں  کائنات اور جو کچھ اس کائنات میں  ہے اور جس میں  زندگی بھی شامل ہے  اس کے  قبل، ماوراء، پس و پشت موجود اصل سبب (God)  کے  آمنے  سامنے  لے  آئی ہے۔

(2)  مذہبی عقیدہ
اگرچہ ارتقائی نظریے  کی بنیاد رکھنے  والے  لا مذہب حلقے  ہیں۔ لیکن اس نظریے  پہ سب سے  زیادہ کام جدید دور میں  ہوا ہے اور آج جدید دور میں  ارتقاء کا نظریہ دوبارہ پیش کرنے  والے  مذہبی لوگ ہیں اور اس کی حمایت کرنے  والوں  کی ایک بڑی تعداد اسے  ایک مذہبی عقیدہ تصور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ نظریہ ارتقاء کے  خلاف مسلسل سائنسی شہادتیں  میسر آنے  کے  بعد بھی کچھ لوگ اس کا دفاع کرنے  میں  مصروف ہیں۔ وہ اسے  مذہبی عقیدہ تصور کر کے  ہر ممکن طریقے  سے  ثابت کرنے  کے  درپے  ہیں اور ان کی انہیں  کوششوں  سے  ارتقاء کی نفی ہو رہی ہے۔
جب کہ حقیقت حال سے  واقفیت کے  بعد آج کچھ ماہرین بہادری کا مظاہرہ کرتے  ہوئے  اس ارتقائی فریب سے  نکلنے  کی کوشش بھی کر رہے  ہیں۔ جیسا کہ برٹش میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے  سینئر رکازیات داں   "کولن پیٹرسن"  نے  اعتراف کرتے  ہوئے  کہا۔
"کیا آپ مجھے  کوئی ایسی بات بتا سکتے  ہیں  جو ارتقاء کے  بارے  میں  ہو، کوئی ایسی بات جو سچ ہو؟
میں  نے  یہ سوال  "فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری، کے  ارضیاتی عملے  سے  کیا۔ اور جو واحد جواب مجھے  ملا وہ خاموشی تھی۔ پھر میں  بیدار ہو گیا اور مجھے  احساس ہو گیا کہ میر ی ساری زندگی ارتقاء کو کسی نہ کسی طرح ایک الہامی حقیقت سمجھتے  رہنے  کے  فریب میں  ضائع ہو گئی ہے۔ "
درحقیقت ارتقاء نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے  نہ ہی کوئی سائنسی نظریہ ہاں  ایک غلط مفروضہ ہے  جسے  بعض وجوہات کی بنا پر الہامی حقیقت تصور کر کے  کچھ لوگ اسے  ہر ممکن طریقے  سے  ثابت کرنے  پر تلے  ہوئے  ہیں۔
یہ تو ثابت ہو چکا ہے  کہ ارتقاء محض باطل مفروضہ ہے  جس کی کوئی سائنسی حیثیت نہیں  ہے  لیکن اب ہم یہ جاننا چاہتے  ہیں  کہ لامذہبوں  کے  اس باطل مفروضے  نے  مذہبی عقیدے  کے  صورت کیسے  اختیار کی۔ درحقیقت
۱۔ جدید ارتقائی نظریات د ر اصل مذہبی اطلاعات سے  اخذ شدہ نظریات  ہیں۔
 ۲۔ مذہبی اطلاعات غلط نہیں  تھیں  بلکہ مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  میں  غلطی کی گئی۔
۳۔ اسی غلطی سے  غلط نظریات اخذ کئے  گئے۔
۴۔ اور آج انہی غلط نظریات کو ارتقاء پرست مذہبی اطلاعات تصور کرتے  ہیں۔
آئے  جائزہ لیتے  ہیں  کہ وہ مذہبی اطلاعات کیا تھیں  جن سے  یہ ارتقائی مفروضہ اخذ کیا گیا۔

۳۔ مذہبی اطلاعات:
یہ جدید ارتقائی نظریہ ایک برطانوی یہودی چارلس رابرٹ ڈارون نے  پیش کیا۔ چارلس سائنسدان نہیں  تھا بلکہ ایک شوقیہ حیاتیات دان (Amateur Biologist)   تھا۔ جس نے  اپنی کتاب The Origin of Species by Means of Natural Selection   (یعنی فطری انتخاب کے  ذریعے  انواع کا ظہور) میں  ارتقائی نظریات کی تجدید نو کی۔
ڈارون کے  ان ارتقائی نظریات کی بنیاد دو نظریات ہیں۔
(1)  اربوں  سال پہلے  غیر متوازن ماحول میں  یک خلوی جرثومے  (Unicellular Organism)   سے  حیات پانی میں  اتفاقاً شروع ہوئی۔
(2)  تخلیق نہیں  ہوئی بلکہ ارتقاء ہوا ہے۔
یہ دونوں  نکات مذہبی اطلاعات سے  مستعار لئے  گئے  ہیں۔ وہ مذہبی اطلاعات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)  ابتدائی ماحول غیر متوازن تھا۔
(2)  حیات کا مادہ پانی ہے۔
(3)  تمام اشیاء نفس واحدہ سے  وجود میں  آئی ہیں۔
(4)  ماضی میں  ایک ناخلف یہودی قوم پر آسمانی عذاب اترا جس کے  نتیجے  میں  وہ بندر بنا دیئے  گئے۔
یہ آسمانی مذہبی اطلاعات غلط نہیں  تھیں۔ یہ اطلاعات درست ہیں۔ لیکن ان اطلاعات کو سمجھنے  میں  غلطی کی گئی اسی غلطی سے  غلط نظریات اخذ کئے  گئے۔
(i  پہلی غلطی  (جد امجد)
ڈارون نے  پہلی اور بنیادی غلطی یہ کی کہ بندر کو انسان کا جد امجد قرار دے  دیا۔ اس نے  یہ غلطی کیوں  کی؟
اس نے  یہ غلطی مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  میں  کی۔ مذہبی اطلاع کیا تھی؟
"سبت کا قانون توڑنے  کی پاداش میں  شہر  "ایلا"  کے  ستر (70) ہزار یہودی بندر بنا دئیے  گئے  تھے۔ "
اس طلاع سے  اگر یہ اخذ کر لیا جائے  کہ آج کی موجودہ نسل انہی بندر بن جانے  والوں  کی نسل ہے  تو یہ سراسر غلطی ہے۔
دوبارہ جائزہ لیجئے۔
(1)  تمام دنیا کے  نہیں  فقط شہر ایلا کے  ستر ہزار یہودی بندر بنائے  گئے  تھے۔
(2)  دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے  کہ یہ بندر بنا دیئے  جانے  والے  پیدائشی طور پر تو انسان ہی تھے  یعنی انسانوں  کی جنس میں  غیر معمولی اچانک تبدیلی کی گئی تھی اور ایک نوع سے  دوسری نوع میں  جینیاتی تبدل کے  بعد نوعی تسلسل قائم نہیں  رہ سکتا۔ لہذا ان بندر بن جانے  والوں  کی اولاد نہیں  ہو سکتی تھی۔
(3)  تیسرے  وہ تمام بندر بن جانے  والے  اپنی یہ حالتِ عذاب دیکھ کر تین دن کے  اندر اندر مر گئے  تھے۔ لہذا ان میں  نوعی تسلسل قائم نہیں  ہوا تھا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے  کہ یہ انسان سے  بندر بنائے  جانے  والے  وہیں  مٹ گئے  بے  نام و نشان ہو گئے۔
لہذا کوئی آج کا انسان ان بندروں  کی نسل یا اولاد نہیں  ہے۔
لہذا اس واقعے  کو لے  کر بلاوجہ انسان کو بندر کی اولاد قرار دینا نہ صرف مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  میں  غلطی ہے  بلکہ سائنس بھی آج اس کی نفی کرتی ہے  جدید تحقیقات سے  ثابت ہو چکا ہے  کہ ایسا ارتقاء ہوا ہی نہیں  کسی حیوانی نسل کا تعلق انسانی نسل سے  نہیں  تمام انسان ایک ماں  کی اولاد ہیں اور ارتقاء نہیں  تخلیق ہوئی ہے۔

(ii  دوسری غلطی  (پانی میں )
جب ڈارون نے  یہ کہا کہ انسان موجودہ صورت میں  بوزنے  (APE)   سے  پروان چڑھا ہے  تو پھر اسے  یہ بھی بتانا تھا کہ بوزنہ کیسے  بوزنہ بنا ہے۔ لہذا اسے  ابتداء سے  آغاز کرنا پڑا یعنی زمین پر پہلی زندگی سے۔ لہذا اس نے  کہا۔
اربوں  سال پہلے  غیر متوازن ماحول میں  یک خلوی جرثومے  سے  حیات پانی میں  شروع ہوئی۔ وہیں  نمود کی فطری خواہش کی وجہ سے  ترقی کرتی رہی۔ وہیں  سے  مینڈکوں  کی ایک نسل خشکی پر آ گئی۔ جن مینڈکوں  کو درختوں  پر چڑھنے  کا شوق ہواوہ بالا آخر اڑنے  والے  جانور بن گئے۔ انہی میں  سے  کچھ خشکی پر خوراک اور حفاظت کی تلاش میں  مختلف اشکال میں  بٹ گئے  جن میں  سے  کچھ بندر بن گئے۔ بقاء کی یہ جنگ کروڑوں  سالوں  سے  جاری ہے  جس کے  نتیجے  میں  کمزور ناپید ہوتے  گئے۔ اور طاقتور بقاء کے  لئے  موزوں  ثابت ہوئے۔
پچھلے  ابواب میں  (انسان کی ابتدائی تعریف ) میں  ہم اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرائے  ہیں  کہ ڈارون کا یہ مفروضہ ارتقاء نہیں  ہوا بلکہ اچانک تخلیق ہوئی ہے۔ ڈارون نے  یہ مفروضہ نظریات درجِ ذیل مذہبی اطلاعات سے  قائم کیئے
 ۱۔ ماحول غیر متوازن تھا
۲۔ تمام اشیاء نفسِ واحدہ سے  بنی ہیں
۳۔ آغاز پانی سے  ہوا
 اصل میں  ڈارون کائناتی یا مذہبی اطلاع کہ غیر متوازن ماحول میں   تمام اشیاء نفس واحدہ سے  بنی ہیں اور تمام کاآغازپانی سے  ہوا ان مذہبی اطلاعات کی تشریح ان الفاظ میں  کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ نفس واحدہ یا یک خلوی جرثومہ جس سے  تمام اشیاء بنی ہیں  وہ پانی میں  نمودار ہوا یعنی پہلی زندگی ڈارون کے  مطابق یک خلوی جرثومے  کی پیدائش پانی میں  ہوئی۔ مذہبی اطلاعات کے  بارے  میں  ڈارون کے  تمام اندازے  غلط تھے  یا یوں  کہنا درست ہو گا کہ ڈارون نے  صحیح کائناتی اطلاعات سے  غلط نتائج اخذ کیے۔ مثلاً
کائناتی  مذہبی اطلاعات کچھ یوں  ہیں  کہ  ہر چیز پانی سے  پیدا کی گئی یا حیات کا مادہ پانی ہے۔ اس اطلاع سے  ڈارون نے  یہ نتیجہ نکالا کہ حیات کا آغاز پانی میں  ہوا جب کہ حیات پانی میں  شروع نہیں  ہوئی بلکہ کائناتی اطلاع یہ ہے  کہ حیات  پانی میں  نہیں  بلکہ حیات پانی سے  شروع ہوئی۔
ڈارون کے  نظریات کے  برعکس یہ حیات پانی سے  کیسے  شروع ہوئی اس کا ذکر ہم تخلیق کے  عنوان سے  کر آئے  ہیں  کہ پانی ایک حیاتی عنصر یا تخلیق کا ایک مرحلہ یا جز ہے  یعنی سادہ الفاظ میں  انسان کی تخلیق میں  پانی کا استعمال بھی ہوا۔
لہذا حیات ڈارونی نظریات کے  مطابق پانی میں  شروع نہیں  ہوئی بلکہ
حیات پانی سے  شروع ہوئی۔ پانی حیات کا ایک مر حلہ ہے  حیات کا مادہ ہے
 جب کہ تمام اشیاء نفس واحدہ سے  وجود میں  آئیں۔

(iii)۔ تیسری غلطی (نفسِ واحدہ)
سوال یہ ہے  کہ نفس واحدہ سے  کیا مراد ہے۔ ڈارون نے  نفس واحدہ سے  مراد یک خلوی جرثومہ لی تھی اور یہی اس کی بنیادی غلطی تھی۔ تمام اشیاء نفس واحدہ سے  وجود میں  آئیں۔ یہ اطلاع مذاہب
 نے  ہمیں  دی ہے  اور یہ اطلاع صحیح اطلاع ہے  لیکن اس اطلاع کو سمجھنے  میں  ہمیشہ غلطی کی گئی ہے۔
(1)  پہلی غلطی یہ ہے  کہ نفس واحدہ کو یک خلوی جرثومہ تصور کر لیا گیا ہے۔
(2)  یہ تصور کر لیا گیا کہ محض جاندار نفس واحد ہ سے  وجود میں  آئے۔
نفس واحدہ ہرگز کوئی جرثومہ نہیں  ہے۔ جرثومہ چاہے  یک خلوی ہو مادہ ہے۔ جب کہ نفس مادہ نہیں  ہے۔
آج سب جانتے  ہیں  کہ بعض آسمانی کتابیں  اپنی اصلی حالت میں  نہیں  ہیں  بلکہ وہ تراجم ہیں۔ جب کہ آسمانی کتابوں  کے  الفاظ مخصوص مواد کے  مخصوص الفاظ ہیں  جن سے  نتائج اخذ کرنے  کے  لئے  ان کا اصلی حالت میں  موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر ان الفاظ میں  رد و بدل کر دیا جائے  تو ہم ان کے  معنی و مفہوم کو کھو دیتے  ہیں ان الفاظ کا فی زمانہ ترجمہ بھی ان کا نعم البدل نہیں  ہے۔ الفاظ کی ترتیب میں  غلطی نے  بہت سی غلط فہمیوں  کو جنم دیا ہے۔ لہذا اگر ہم آسمانی کتابوں  سے  کچھ نتائج اخذ کرنا چاہتے  ہیں  تو ان کے  تراجم سے  ہم اصل حقیقت کا کھوج نہیں  لگا سکتے  ہمیں  اصل آسمانی الفاظ ہی اصل حقیقت تک پہنچا سکتے  ہیں۔
نفس واحدہ بھی ایسی ہی اطلاع ہے  جس کا غلط ترجمہ یک خلوی جرثومہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ کے  طور پر یک خلوی جرثومہ کو نفس واحدہ تصور کر لینا محض غلطی ہے اور اس یک خلوی جرثومے  کو مذہبی اطلاع سمجھ لینا اور بڑی غلطی ہے۔ جب کہ انہی غلطیوں  کو آسمانی اطلاعات سمجھ کر سائنسدان تک ارتقائی نظریات کو مذہبی عقیدہ تصور کرتے  رہے  ہیں۔
یہ تصور بھی عام ہے  کہ محض جاندار اشیاء نفس واحدہ سے  وجود میں  آئیں۔ جب کہ نفس واحدہ سے  زندگی کا آغاز ہوا اس سے  مراد مخصوص جاندار نہیں  ہیں  بلکہ اس سے  مراد یہ ہے  کہ  نفس واحدہ سے  کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کا آغاز ہوا
(1)  یہ نفس واحدہ کیا ہے؟
(2) اور اس نفس واحدہ سے  زندگی  (کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کا آغاز کیسے  ہوا؟
اس کے  جوابات ہم اپنے  نئے  نظریات میں  پیش کر آئے  ہیں۔ لہذا ان نئے  نظریات کی روشنی میں  ہم نے  یہ ثابت کیا ہے  کہ
۱۔ نفسِ واحدہ یک خلوی جرثومہ (Unicellular Organism)نہیں  ہے
۲۔ نفسِ واحدہ کا مطلب ہے  ایک جان اور اس ایک جان سے  دو حقیقتیں  مراد ہیں۔
۳۔ ۱۔ پہلا واحد انسان، ۲۔ واحد انرجی
لہذا مذاہب میں   پہلے  انسان اور کائنات کے  واحد تخلیقی مادے  یعنی واحد انرجی کو نفس واحدہ کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے  کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان ایک ہی واحد انرجی کے  مختلف روپ ہیں، لہذا سب کچھ واحد انرجی سے  بنا ہے، پہلا انسان بھی۔
اور اسی پہلے  انسان(نفسِ واحدہ یا ایک جان) کی نسل ہے  تمام نوعِ انسانی۔ لہذا نفسِ واحدہ کا مطلب یہ ہے  کہ
تمام انسان ایک پہلے  انسان یعنی فقط ایک جان (نفسِ واحدہ)سے  پیدا ہوئے
اور پہلے  انسان سمیت کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان ایک ہی واحد انرجی سے  بنے  ہیں۔

(iv)چوتھی غلطی(ارتقا)
جب یہ سوال اُٹھا کہ حیات کا آغاز کیسے  ہوا تو ہمیشہ ہی اس حیات کے  آغاز کو یا تو جنیاتی تغیر نوعی تغیر سے  جوڑا گیا اسے  جانوروں  کی نسل بتایا گیا یا اس آغاز کو کائناتی تخلیقی تسلسل سے  جوڑ دیا  گیا حالانکہ یہ محض غلط فہمیاں  ہیں ، انسان کا کسی تخلیقی تسلسل سے  کوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں۔ چاہے  وہ کوئی نوع ہو یا کائنات ہو انسان ہر نوع اور کائنات کے  ہر وجود سے  منفرد انفرادی تخلیق ہے۔ لہذا جب بھی کسی نوع سے  یا کائنات سے  انسان کی تخلیق کو منسوب کر کے  انسان کی تخلیق کا راز جاننے  کی کوشش کی گئی تو یہی غلط کوشش انسانی تخلیق کو بے  نقاب کرنے  میں رکاوٹ بنی۔ ظاہر ہے  غلط کوششوں  سے  صحیح نتائج بر آمد نہیں  ہو سکتے۔ (انسان کی انفرادی تخلیق کا تفصیلی تذکرہ میں  تخلیق کے  عنوان سے  پچھلے  صفحات میں  کر آئی ہوں۔ )

نتائج:
نظریہ ارتقاء سے  متعلق اس باب میں  ہم نے  ارتقاء کا بیک گراؤنڈ جاننے  کی کوشش کی ہے۔

اس سے  پہلے   (انسان کی ابتدائی تعریف)کے  عنوان سے  پہلے  ابواب میں   یہ سیر حاصل بحث کی جا چکی ہے  کہ ارتقاء محض غیر سائنسی مفروضہ ہے  جو بعض غلط فہمیوں  کا نتیجہ ہے۔
اس باب میں  ہم نے  یہ جاننے  کی کوشش کی ہے  کہ اس غلط مفروضے  نے  کیسے  جنم لیا۔
(1)۔  یہ قدیم نظریہ دراصل لامذہبوں  کی پیداوار ہے۔
(2)۔ اور آج ارتقاء کو نظریہ ماننے  والے  دو مخصوص طبقات ہیں۔  (i  لامذہب حلقے، (ii  اسے  مذہبی عقیدہ سمجھنے  والے۔
(3)۔  ارتقاء کو مذہبی عقیدہ تصور کرنے  والوں  نے  اسے  سائنسی نظریہ ثابت کرنے  کی اندھا دھند کوششیں  کیں  جو بے  سود رہیں۔ ارتقاء کو مذہبی عقیدہ کیوں  سمجھا جاتا ہے ؟
(4)۔  دراصل یہ جدید ارتقائی نظریات مذہبی اطلاعات سے  اخذ کیئے  گئے  تھے۔
(5)۔  یہ مذہبی اطلاعات تو ٹھیک تھیں۔
(6)۔  لیکن ان مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  میں  غلطی کی گئی۔
(7)۔ اور اس غلطی سے  غلط ارتقائی نظریات نے  جنم لیا۔
(8)۔ اور ارتقاء پرست ان غلط نظریات کو صحیح آسمانی اطلاعات تصور کر کے  ان کی اندھا دھند تقلید کرتے  رہے۔
(9)۔  نتیجہ یہ نکلا کہ غلط فہمی کی بنا پر جنم لینے  والے  غلط نظریات آج ہر میدان میں  بری طرح پٹ گئے  ہیں۔ ہر قسم کی سائنس نے  ان ارتقائی نظریات کی نفی کر دی ہے۔  جس سے  یہ ثابت ہو چکا ہے  کہ یہ نظریات دراصل آفاقی اطلاعات نہیں  بلکہ محض ان اطلاعات سے  اخذ شدہ مفروضے  ہیں۔ جب کہ صحیح آفاقی اطلاعات کے  نتائج ہمیشہ درست نکلتے  ہیں اگر یہ نظریات آفاقی اطلاعات ہوتے  تو ہر قسم کی سائنس ان کی گواہی دیتی جب کہ ایسا نہیں  ہوا۔ یہی وجہ ہے  کہ۔ اسے  عقیدہ تصور کرنے  والے  اب اپنے  اس تصور سے  دستبردار ہو رہے  ہیں۔
خلاصہ یہ ہے 
نئے  نظریات میں یہاں  ہم نے  وضاحت کر دی ہے  کہ
 انسان منفرد طور پر تخلیق ہوا ہے  وہ کائناتی یا کسی بھی تخلیقی تسلسل کا حصہ نہیں  ہے
لہذا انسان کا تعلق کسی حیوانی نسل سے  نہیں ہے۔
لہذا پہلے  انسان کی نفسِ واحدہ(واحد انرجی) سے  تخلیق ہوئی پھر اسکا جوڑا بنا پھر اس پہلے  جوڑے  سے  پیدائش کا آغاز ہوا اور نوعی تسلسل قائم ہوا اور آج کی تمام نوعِ انسانی اسی واحد جوڑے  کی نسل ہیں۔ ا س کتاب میں  ہم نے  فقط ارتقائی مفروضے  کی نفی ہی نہیں  کی بلکہ یہ ثابت کیا ہے  کہ ارتقائی مفروضہ نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے  نہ ہی اس کی کوئی سائنسی حیثیت ہے  انسان کا ارتقاء نہیں  ہوا بلکہ تخلیق ہوئی ہے  اور ہم انسان کی تخلیق کی بھی وضاحت کر آئے  ہیں۔ لہذا اس تفصیلی بیان کے  بعد اب یہاں  یہ صدیوں  کا ارتقائی مسئلہ بھی حل ہوا۔

1 comment:

  1. ایک عمدہ اور لاجواب بحث اور دلاٸل سے مصنف نے نظریہ ارتقا کو رد کردیا ہے۔۔۔ اللٰہ تعالیٰ ان کے علم اور عقل سلیم میں مزید اضافہ فرماۓ۔۔۔ میں اس تحریر سے سو فیصد متفق ہوں۔۔۔ میرا رابطہ نمبر ہے ۔۔03153533437.....
    والسلام ۔۔۔۔غلام محمد وامِق ۔۔۔(جی ایم وامِق ) محراب پور سندھ

    ReplyDelete