Translate

14۔۔۔۔۔نفس۔۔۔۔۔۔ AURA



باب نمبر۳: نفس AURA


کل نفس ذائقتہ الموت
(ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے  ) 
                     

17۔ نفس


پچھلے  صفحات میں  ہم جائزہ لے  آئے  ہیں  کہ ماضی کے  ہر دور میں  نفس کا تذکرہ ہوا ہے  آج بھی نفس، نفسیات پر بے  تحاشا مواد کتابیں، علوم موجود ہیں اور اب تو نفسیاتی تجربہ گاہیں  بھی قائم ہیں، نفسیات دان بھی بہت ہیں۔  
لیکن یہ خود نفس کیا ہے؟
ہزاروں  برس سے  آج تک نفس یا نفسیات کو مطالعہ ذہنی تصور کیا جاتا ہے  نفسیات میں انسان کا کردار، شخصیت، خیالات، احساسات، خواہشات موضوع بحث رہے  ہیں  نفسیاتی ماہرین انسان کے  بعض پیچیدہ نفسانی یا نفسیاتی مسائل پر مختلف حوالوں  سے  تجزیے اور جانچ پڑتال کرتے  رہے  ہیں اور نفسیات دانوں  کے  خیال میں  یہی ہے  نفسیات۔ اور نفسیات دانوں  کے  یہ خیالات سو فیصد غلط ہیں۔ درحقیقت آج تک نفس کو کوئی خیال کوئی خواہش تصور کیا جاتا رہا ہے ، خواہش بھی نفسانی خواہش، اور یہ نفس کی مفروضہ تعریف ہے۔
درحقیقت یہ تعریف نفس کی تعریف ہی نہیں یہ محض مفروضہ ہے  کہ نفس کوئی خیال کوئی احساس، کردار یا خواہش ہے ، ذہن بھی نفس نہیں۔ نفس کی آج تک تعریف کی ہی نہیں  گئی۔  اسی مفروضہ اور غلط تعریف پہ نفس اور نفس کے  علوم کی بنیاد ہے  یعنی نفس کے  موجودہ علوم مفروضہ علوم ہیں۔
اگر نفس ذہن، کردار  یا خواہش نہیں  تو پھر نفس کیا ہے؟


۔18نفس کیا ہے؟

سوال۔ نفس کیا ہے؟
آئیے  اس تاریخی سوال کا صحیح جواب دیتے  ہیں۔
نفس کا تصور ہر دور ہر عقیدے  میں  پایا جاتا ہے۔ ہر دور میں  نفس کی تعریف بھی کی گئی ہے اور ہر دور میں  ہمیشہ ہی نفس کی غلط تعریف کی گئی ہے  آج تک نفس کی شناخت نہیں  ہو پائی کہ آیا یہ نفس جس کا اتنا چرچا ہے۔ یہ ہے  کیا؟
دراصل نفس ایک مذہبی اطلاع ہے۔ جسے  کبھی بھی سمجھا نہیں  گیا۔ ہر دور کا انسان نفس سے  متعارف تو ہے  لیکن نفس سے  لاعلمی کے  سبب آج تک وہ نفس کی نفس کے  طور پر شناخت نہیں کر پایا۔ لہذا نفس سے  لاعلمی اور نفس کی شناخت نہ ہو سکنے  کی سبب آج ہم ایک ہی نفس سے  دو مختلف حیثیتوں  میں  متعارف ہیں۔
(1)۔  نفس
(2)۔  اصل نفس

(۱)۔  نفس
ہر دور کے  انسان نے  نفس کو خواہش قرار دیا ہے  خواہش بھی محض نفسانی خواہش۔ اور ہر دور کا انسان نفس سے  اسی حیثیت میں  متعارف رہا ہے۔ اور آج نفس کی اسی حیثیت میں  بے  تحاشا تعریف کی جاتی ہے ، بے  تحاشا کتابیں  لکھی جاتی ہیں، نفسیاتی علاج کئے  جاتے  ہیں، نفسیاتی معالجوں  کے  ڈھیر موجود ہیں اور آج نفس ایک نفسیاتی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن یہ نفس جس پر بے  تحاشا کام ہو رہا ہے  کتابیں  لکھی جا رہیں  ہیں  کیا یہ نفس محض مفروضہ خواہش ہے۔؟  جی نہیں۔
نفس کسی خواہش کا نام نہیں  ہے۔ ہاں  خواہش اور نفسانی خواہش نفس کی بے  تحاشا خصوصیات میں  سے  محض دو خصوصیات ہیں  نفس اپنی تمام تر خصوصیات سے  منفرد ایک  الگ شے  ہے۔ ہر دور کے  لوگوں  نے  نفس کی یہی مفروضہ تعریف کی ہے۔ لیکن یہ تعریف نفس کی تعریف نہیں ہے۔ آج نفس کے  تمام موجودہ علوم میں  نفس کا تذکرہ ہی موجود نہیں۔ یہ تمام علوم جو نفس کے  عنوان کے  ساتھ آج موجود ہیں  دراصل نفس کے  علوم نہیں  ہیں۔ ہم آج جس حیثیت میں  نفس سے  متعارف ہیں   وہ نفس ہے  ہی نہیں۔
  تو پھر اصل نفس کیا ہے؟

(2)  اصل نفس
اصل نفس سے  بھی ہر دور کا انسان متعارف رہا ہے۔ نفس کا یہ تعارف بہت ہی مخصوص اور محدود طبقہ تک محدود رہا ہے، یہی وجہ ہے  کہ ماضی میں  ہمیں  اصل نفس کا کوئی ایک آدھا ہی تبصرہ ملتا ہے۔ اس مخصوص اور محدود تعارف کے  باوجود انسان نفس سے  نہ صرف متعارف رہا ہے  بلکہ اسے  شناخت بھی کرتا رہا ہے  بلکہ اس کی خصوصیات سے  بھی کسی حد تک واقف رہا ہے۔ اور یہ واقفیت آج کا انسان بھی رکھتا ہے۔ لیکن ہر دور کا انسان اور آج کا انسان اصل نفس سے  واقفیت کے  باوجود اصل نفس کو نفس کے  طور پر شناخت نہیں  کرتا۔
ہر دور کے  انسان نے  اصل نفس کو ہمیشہ دیگر ناموں  سے  پکارا ہے  جب کہ نفس کی تعریف نفس کی شناخت نفس ہی کے  نام سے  ہونی ضروری ہے  تاکہ انسانی تعریف میں  موجود بے  تحاشا ابہام کا خاتمہ ہو۔ اور انسانی تعریف ممکن ہو سکے۔ جیسا کے  میں  نے  بتایا کہ نفس مذہبی آفاقی اطلاع ہے  جو ہر آسمانی مذہب نے  انسان کو دی ہے، اور ہر مذہب کی اس آسمانی اطلاع نفس کو ہر مذہب کے  انسانوں  نے  سمجھنے  میں  غلطی کی
مثلاً  ٹی وی پر ایک نامور عالم ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے  خطاب میں  کہہ رہے  تھے۔
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔  یہ کائناتی اطلاع ہے۔
 اس کا ترجمہ انہوں  نے  انگلش میں  یوں  کیا۔ (Every Soul Shall be died) یعنی ہر روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ ترجمہ غلط ہے۔  
نفس کا ترجمہ روح کیا گیا جب کہ نفس اور روح میں  امتیازی فرق موجود ہے اور ترجمہ کرنے  والے  عالم اور فاضل اس فرق کو ملحوظ نہیں  رکھتے۔
 ترجمہ یہ کیا جا رہا ہے  کہ ہر روح کو مرنا ہے  جب کہ روح نہیں  مرتی۔ یہ غلط ترجمہ ہے  صحیح عبارت یعنی نفس کا ترجمہ نفس ہی ہو گا تب یہ ترجمہ صحیح ہو گا
۔ لہذا اصل کائناتی عبارت یہ ہے  کہ نفس مر جاتے  ہیں۔
لہذا ایسی غلطیاں  موجود ہیں 
۱۔ آسمانی کتابوں  کے  تراجم میں  بھی
۲۔  روح و نفس کے  کاموں  میں  بھی
۳۔  عام روز مرہ زندگی میں  بھی
۴۔ اور ہر سطح پر یہ غلطیاں  کی جاتی ہیں  روح و نفس سے  لاعلمی کے  سبب لہذا
۵۔  نہ تو ہم  ان مذہبی اطلاعات  یعنی روح و نفس سے  واقف ہیں
۶۔  جو روح و نفس سے  واقف ہیں  وہ ان تمام میں  امتیاز نہیں  رکھتے
۷۔  جو کوئی ایک آدھا ماہر ان تمام میں  امتیاز برت سکتا ہے  وہ ان تمام کو امتیازی حیثیت میں  شناخت نہیں  کر سکتا لہذا
۹۔  جنہوں  نے  ایک آدھ بار انہیں  انفرادی حیثیت میں  شناخت کیا ہے  وہ ان روح و انفاس کی تعریف سے  معذوری کا اظہار کرتے  ہیں۔ لہذا
ہر دور میں  نفس کا تذکرہ تو موجود ہے  آج تک نفس پر بے  تحاشا کام ہوا ہے  بے  شمار کتابیں  بے  شمار مواد نفس پر موجود ہے  لیکن یہ تمام کام ردی ہے  خیالی پلاؤ اور محض مفروضے  ہیں  کیونکہ نفس کے  ان تمام علوم میں  کہیں  بھی نفس موجود نہیں۔ نفس کے  علوم میں  نفس کا ذکر ہی نہیں۔ آج نفس کے  نام سے  جو علوم مروج ہیں  وہ نفسی علوم ہی نہیں
ہاں  نفس کے  علوم کے  علاوہ کچھ خاص لوگ ہر دور میں  نفس سے  واقف رہے  ہیں  لیکن اصل نفس کو لوگ نفس کے  طور پر شناخت ہی نہیں  کرتے  اگرچہ جانتے اور پہچانتے  ہیں  لیکن بطور نفس نہیں  بلکہ وہ اسے  دیگر ناموں  سے  پکارتے  ہیں۔ یہ غلطی صدیوں  سے  ہر دور میں  کی جا رہی ہے  اس کی وجہ یہ ہے  کہ نفس مفروضہ حیثیت میں  تو موجود ہے  لیکن اصل نفس کو آج تک بحیثیت نفس انفرادی حیثیت میں  شناخت ہی نہیں  کیا گیا لہذا ہزاروں  برس سے  نفس پہ کام ہونے  کے  باوجود نتائج صفر ہیں۔
جب آج آپ نفس سے  واقف نہیں  اسے  شناخت نہیں  کر پائے  تو پھر نفس اور نفسیات کے  بے  تحاشا علوم کا کیا جواز ہے۔ آج نفس کے  تمام موجودہ علوم بے  بنیاد اور مفروضہ علوم ہیں
تمام ادوار کے  ہر قسم کے  کام کے  باوجود ابھی تک ہم نفس سے  ناواقف ہیں اور آج بھی یہ سوال جوں  کا توں  ہمارے  سامنے  موجود ہے  کہ نفس کیا ہے ؟
نتیجہ کیا نکلا؟
۱۔ نفس کا تصور ہر دور ہر عقیدے  میں  پایا جاتا ہے۔
۲۔ نفس کو خواہش یا نفسانی خواہش تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ نفس محض خواہش نہیں۔
۳۔ نفس کے  تمام موجودہ علوم میں  نفس کا تذکرہ ہی نہیں
۴۔ لہذا نفس کے  موجودہ علوم مفروضہ علوم ہیں
۵۔ اصل نفس سے  بھی ہر دور کے  لوگ واقف رہے  ہیں  لیکن بطور نفس نہیں۔
۶۔ نفس کو دیگر ناموں  سے  شناخت کیا جاتا ہے
 ۷۔ نفس کو آج تک انفرادی حیثیت میں  شناخت نہیں  کیا گیا۔
 ۹۔ نفس کے  بعض اجزاء کو روح کے  حصے  تصور کیا جاتا ہے۔
۱۰۔ نفس مذہبی اصطلاح ہے  جسے  سمجھنے  میں  غلطی کی گئی۔
۱۱۔ مفروضہ نفس آج علمی حیثیت میں  موجود ہے  جب کہ اصل نفس بھی دیگر ناموں  کے  ساتھ علمی حیثت رکھتا ہے۔
۱۲۔ یعنی ایک ہی شے  (نفس) کے  آج ہمارے  پاس دو مختلف اور متضاد علوم موجود ہیں۔
 یہ بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے  کہ آج تک نفس مفروضہ تعریفوں  کے  ساتھ تو موجود ہے  لیکن نفس کی اصل شناخت نہیں  ہو سکی۔ آئیے  آج نفس کو مفروضہ قیاس آرائیوں  سے  مبرا کر کے  نفس کو دیگر ناموں  کے  بجائے  اس کے  اصل نام سے  پکاریں  اس کی اصل شناخت قائم کریں تاکہ علوم میں  موجود بے  تحاشا ابہام کا خاتمہ ہو۔ اب ہم نفس کی انفرادی شناخت قائم کریں  گے اور نفس کو بطور نفس متعارف کروائیں  گے  اس کی تعریف و خصوصیات بیان کریں  گے اور مادی جسم سے  اس کا ربط قائم کریں  گے۔ نفس کی بطور نفس شناخت ہو گی تو انسانی علوم میں  موجودہ ابہام کا خاتمہ ہو گا۔


19۔ نفس کی تعریف:


نظریہ نمبر:۔ ﴿2﴾   
﴿نفس سے  مراد اجسام ہیں۔ مادی جسم  +  لطیف باطنی اجسام  =  نفس﴾
انسانی شخصیت کا ہر پیمانہ نفس ہے۔ یہ ہے  نفس کی صحیح تعریف جو آج کی جا رہی ہے۔
اجسام انسانی شخصیت کا اظہار اس کے  لباس ہیں۔ لہذ ا انسان کا ہر وہ جسم جس میں  انسان موجود ہے  نفس ہے۔ یعنی ہم جدید تحقیقات کی بدولت آج  ایک انسان کے  جتنے  بھی اجسام(اورا، چکراز، سبٹل باڈیز وغیرہ وغیرہ) سے  واقف ہیں اور وہ اجسام بھی جن سے  ابھی ہم واقف نہیں  ہو پائے  وہ سب نفس ہیں۔ ان تمام اجسام کا اصل آفاقی نام نفس ہے۔
  لہذا نفس سے  مراد کوئی خواہش، یا ذہن یا کوئی پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ نہیں  بلکہ مادی جسم اور لطیف اجسام کے  مجموعے  کو نفس کہتے  ہیں۔  مادی جسم سمیت ہر جسم نفس ہی کہلائے  گا۔ یعنی ہر قسم کا جسم چاہے  مادی ہو یا لطیف وہ نفس ہے۔ یہ ہے  نفس کی اصل آفاقی تعریف۔ جب کہ روح ان تمام طرح کے  اجسام سے  الگ شے  ہے۔
نفس کی مروجہ مفروضہ تعریف سے  قطع نظر نفس کے  لطیف اجسام سے  بھی ہر دور کے  لوگ واقف رہے  ہیں  ( جس کا تذکرہ ہم پچھلے  ابواب میں  کر آئے  ہیں ) لیکن ہر دور کے  لوگوں  نے  نفس کے  لطیف اجسام کو نفس کے  طور پر شناخت نہیں  کیا بلکہ ہر دور کے  لوگوں  نے  اپنے  ذاتی علم یا مشاہدے  کی روشنی میں  ان لطیف اجسام کو
(1)۔  یا تو روح کے  طور پر شناخت کیا۔
(2)۔ یا ان لطیف اجسام کو روح کے  حصے  قرار دیا۔
لہذا یہ لطیف اجسام نہ تو روح ہیں ، نہ ہی روح کے  حصے  بلکہ یہ تمام لطیف اجسام نفس ہیں۔
انسان کے  ظاہر اور باطن سے  وابستہ تمام اجسام نفس ہیں۔ اور اجسام کو نفس کہا جاتا ہے۔ جب کہ ماضی میں اور آج بھی لطیف اجسام کا مشاہدہ کرنے  والے  ان لطیف اجسام کو روح یا روح کے  حصے  سمجھتے اور بتاتے  رہے  ہیں۔ اور نفس کو کوئی نفسیاتی مسئلہ بتایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب یہاں  میں  نے  وضاحت کر دی ہے  کہ نفس کوئی مفروضہ نفسیاتی مسئلہ نہیں  بلکہ جسم  ہے۔ لہذا یہاں  یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ
۱۔ کوئی لطیف جسم روح نہیں  ہے۔
۲۔ لطیف اجسام روح کے  حصے  نہیں  ہیں۔
۳۔ یہ تمام اجسام نفس ہیں۔
۴۔ لہذا نفس کوئی خواہش یا نفسیاتی مسئلہ نہیں  ہے۔ لہذا نفس کی پچھلی تمام مروجہ تعریفیں  غلط ہیں۔
۵۔ ان تمام اجسام کا اصل آفاقی نام نفس ہے۔
لہذا اس آفاقی اطلاع یعنی نفس میں  تمام ادوار کے  صوفیوں، سوامیوں، فلسفیوں، سائنسدانوں  نے  جو غلط اضافے  کر کے  اس اطلاع کو خلط ملط کیا تھا۔ اب یہاں  نفس کی صحیح شناخت قائم کر کے  ہم نے  صدیوں  کے  اس ابہام کو دور کر دیا ہے۔


20۔ نفس (باطنی اجسام)کے  نام


 مادی جسم اور لطیف اجسام  جسم ہونے  کے  سبب سب نفس کے  دائرے  میں  آتے  ہیں۔ اس لئے  کہ انسان مختلف اوقات میں  مختلف اجسام استعمال کرتا ہے   لہذا ہر جسم وہ لطیف جسم ہو یا مادی انسانی شخصیت کا اظہار ہے۔ ہر جسم انسانی شخصیت کا پیمانہ ہے 
ہر جسم نفس ہے  لیکن ہر جسم کا اپنا ایک انفرادی نام بھی ہے۔ مثلاً  ظاہری جسم کو مادی جسم کہا جاتا ہے  اسی طرح لطیف اجسام کے  نام بھی ہیں۔ لیکن ان میں  ایک بنیادی نفس(جسم) بھی ہے۔ جس کا نام بھی نفس ہی ہے۔ اور اسی بنیادی نفس کو یہاں  ہم نفس کے  نام سے  پکاریں  گے۔ اب یہاں  ہم اس بنیادی نفس کو انفرادی حیثیت میں  شناخت کرتے  ہیں  کہ جس کا نام بھی نفس ہی ہے



21۔ بنیادی نفس کونسا ہے


نظریہ نمبر:۔ ﴿3﴾۔ ﴿در حقیقت AURA   ہی اصل بنیادی نفس ہے۔ ﴾
درحقیقت  AURA  ہی بنیادی نفس ہے  اور نفس کے  اس بنیادی جسم کا نام بھی نفس ہی ہے اور آج
اسی لطیف جسم کو ہم نفس کے  نام سے  پُکاریں  گے۔  جب کہ
۱۔ آج نفس کے  ایک جسم نفس کو ہم  AURA  کے  نام سے  جانتے  ہیں  اور
۲۔ نفس کے  دیگر اجسام کو روح یا پھر روح کے  حصے  کہا جاتا ہے۔ جبکہ
۲۔ آج  نفس کو بطورِ نفس تو کوئی نہیں  جانتا لیکن نفس کا آفاقی نام لے  کر اس کی مفروضہ تعریفیں  کر لیں  گئیں  ہیں  او آج نفس کو ہم  اسی مفروضہ حیثیت میں  جانتے  ہیں  اور اسی حیثیت میں  نفس کے  الگ علوم بھی موجود  ہیں۔
 جب کہ آج ہمارے  پا س  AURA  کا بھی علم موجود ہے۔ اور اس پر سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں ، کتابیں  لکھی جا رہی ہیں۔ یعنی ایک ہی نفس تین مختلف حیثیتوں  میں  آج ہمارے  پاس  باقاعدہ علوم کی صورت میں موجود ہے۔ جب کہ اسی نفس کو ماضی میں  دیگر ناموں  سے  یعنی روح یا روح کے  حصوں ، روح حیوانی یا انسانی وغیرہ وغیرہ  سے  پکارا جاتا رہا ہے۔
یعنی ماضی میں  بھی نفس ہمیشہ دو مختلف اور متضاد حیثیتوں  میں  موجود رہا ہے۔ اور آج نفس تین علوم کی صورت میں  موجود ہے۔
آج بھی کر لین فوٹو گرافی  (Kirlian Photography)  کے  ذریعے  اگرچہ  AURA  کی تصویر کشی کر لی گئی ہے اور اس کے  اعمال و خصوصیات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے  کتابیں  لکھی جا رہی ہیں  تجربات کئیے  جا رہے  ہیں۔ لیکن ابھی تک اسے  نفس کے  طور پر شناخت نہیں  کیا گیا بلکہ وہ اسے  روح یا روح کا کوئی حصہ تصور کرتے  ہیں حتیٰ کے  ان میں  سے  اکثر روح کا مشاہدہ بھی کرتے  ہیں  لیکن روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کرتے۔
مادی جسم کی تمام تر خصوصیات اور حرکت و عمل کا ذمہ دار اسی  AURA  کو قرار دے  دیا گیا ہے۔  یہ درست نہیں  ہے۔
روح کے  بغیر  AURA  کے  تقاضے  بے  معنی ہیں۔ روح کے  بغیر AURA میں  کوئی تقاضا نہیں  ابھر سکتا بلکہ روح کے  بغیر خود AURA کا کوئی وجود نہیں۔
درحقیقت جسم میں  تقاضوں  کے  جنم لینے  کا ایک تسلسل ہے  مادی جسم کی بظاہر حرکت و عمل باطنی طویل سلسلے  سے  جڑی ہوئی ہے۔ جیسے  ایک بلب روشن ہے  تو خود بخود نہیں  بلکہ یہ بجلی کے  ایک طویل سلسلے  کا نتیجہ ہے۔
ایسے  ہی مادی جسم کی حرکت و عمل  روح  +  نفس   +  مادی جسم کے  ذریعے  ایک طویل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔ اس طویل تسلسل میں  نفس کا کیا کردار ہے ، نفس کی کیا انفرادیت ہے  یہاں  ہم اسی کی وضاحت کریں  گے۔
یہ جاننا ضروری ہے  کہ ہر مخلوق نہ صرف اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے  بلکہ اس کا اصل نام بھی ہے۔ لہذا انفرادی شناخت اور اصل نام کی اہمیت کسی بھی علم میں  بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ سائنس کے  طالب علم یہ بات جانتے  ہیں۔ اگر میرے  دس زبانوں  میں  دس مختلف نام ہوں  گے اور میرا تذکرہ دس مختلف زبانوں  میں  دس ناموں  سے  ہو گا تو یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے  کہ یہ ایک فرد کا تذکرہ ہے  یا دس مختلف افراد کا۔ اسی طرح نفس آفاقی لفظ اور آفاقی اطلاع ہے  جو ہر مذہب کے
انسانوں  کو ملی اور ان سب نے  اس اطلاع کو سمجھنے  میں  غلطی کی اگر تھوڑی سی سنجیدہ علمی کوشش کی جاتی تو یہ غلطی نہ ہوتی۔ لیکن کبھی بھی کسی نے  روح و نفس کی آفاقی اطلاعات پہ کبھی کان نہیں  دھرے اور یہی وجوہات ہیں  جو آج ان علوم میں  اس قدر پیچیدگی ہے۔
یہاں  نفس اور نفس کے  تمام لطیف اجسام کی انفرادی شناخت سے  یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ
۱۔ تمام لطیف اجسام روح یا روح کے  حصے  نہیں  ہیں
 ۲۔ بلکہ وہ اجسام ہیں  نفس کے  اجسام۔
۳۔ نفس کے  تمام اجسام اپنی انفرادی حیثیت اپنا انفرادی تشخص اپنا انفرادی جسم اور اپنا انفرادی نام بھی رکھتے  ہیں۔
لہذا AURA  نفس کا ایک جسم ہے۔ اور اس کا انفرادی نام بھی نفس ہی ہے 
ابھی ہم مزید لطیف اجسام کی انفرادی شناخت قائم کریں  گے اور روح کی تعریف کریں  گے  تو یہ ماضی کے  سنگین مسائل اور ان کے  حل کھل کر سامنے  آ جائیں  گے۔



22۔ نفس ( AURA)  جسم ہے 


نظریہ نمبر:۔  ﴿4﴾۔ ﴿AURA  ایک جسم ہے۔  
22AURA  مادی جسم ہی کی طرح ایک جسم ہے۔ جب کہ ماضی میں  نفس کے  اس جسم اورا  AURAکو اس کی لطافت کے  سبب روح یا روح کا حصہ تصور کیا جاتا تھا۔
  لیکن جس طرح مادی جسم عناصر کا مجموعہ ہے اور مادے  سے  متشکل ہے   اس طرح  AURA  مادی جسم نہیں ہے   اس جسم کا فارمولہ مختلف ہے  یہ کسی اور شے  سے  بنا ہے  جس طرح مادی جسم روح کا مظہر یا لباس ہے  اسی طرح  AURA بھی روح کا مظہر یا لباس ہے   یعنی  AURA بھی مادی جسم کی طرح فقط روح کا ایک جسم ہے   AURA روح کے  اظہار کا ایک اور ذریعہ ہے۔ یعنی انسانی شخصیت کا ایک پیمانہ ہے  یہ نفس
یہ ہے  تو مادی جسم ہی کی طرح پورا وجود لیکن ساخت اور ہئیت میں  مختلف ہے۔ مادی جسم کا تعلق مادی دنیا سے  ہے  لہذا مادی جسم عناصر سے  مرکب وجود ہے   تو  AURA  ایک دوسری فضا کے  عناصر سے  مرکب جسم ہے۔



23۔ روشنی کا جسم


نظریہ نمبر:۔ ﴿5﴾۔ ﴿نفس  (AURA)  روشنی کا جسم ہے۔ ﴾

نفس کا یہ جسم ایک قسم کی روشنی کا جسم ہے۔ جس طرح مادی جسم ہے  بالکل اسی طرح  AURA  جسم ہے  مادی جسم مادی عناصر کا مجموعہ ہے  تو  AURA  رنگ و روشنی سے  مرکب ایک وجود ہے۔  مکمل وجود۔
جب اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے  تو یہ رنگوں  کے  چکروں  کی صورت میں  نظر آتا ہے  گیس کی صورت میں  دھوئیں  کی مانند۔  یہ گیس یہ دھواں  دراصل روشنی (بجلی ) ہے  یہ گیس کا جسم دراصل روشنی کا جسم ہے   روشنی کے  عناصر یا خصوصیات ہیں  جن کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
مادی جسم کی تمام تر حرکت و عمل کا دارومدار اسی روشنی کے  جسم پر ہے  یہ روشنی کا جسم مادی جسم کی تمام تر خصوصیات کا حامل تو ہے  لیکن اس کی اپنی ذاتی خصوصیات بھی ہیں۔  
انسان مادی جسم کو بھی استعمال کرتا ہے اور اس روشنی کے  جسم کو بھی استعمال کرتا ہے۔ جیسے  ہم اپنی مرضی سے  مادی جسم کو استعمال میں  لا سکتے  ہیں  ایسے  ہی ہم روشنی کے  جسم کو بھی استعمال میں  لا سکتے  ہیں۔ جو عمل ہم مادی جسم میں  رہتے  ہوئے  کرتے  ہیں۔  وہی عمل ہم روشنی کے  جسم کے  ساتھ ہزاروں  گناہ برق رفتاری سے  کر سکتے  ہیں  روشنی کا جسم مادی جسم سے  خصوصیات میں  ہزاروں  گناہ بڑھ کر ہے۔


24۔ نفس( AURA) حرکی قوت ہے 


نظریہ نمبر:۔ ﴿6﴾۔   ﴿نفس  (AURA)  جسم کی حرکی قوت ہے    یا  AURA جسم کا فیول ہے۔ ﴾
سب جانتے  ہیں  کہ ہر حرکت کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے  جیسے  مشین بجلی گیس یا پیٹرول سے  چلتی ہے ، پین سیاہی سے  کار پیٹرول یا گیس سے  یعنی ہر قسم کی مشینری حرکت کے  لئے  کسی نہ کسی فیول کی محتاج ہے۔
اسی طرح مادی جسم بھی کسی مشین کی طرح حرکت کے  لئے  کسی فیول کا محتاج ہے  یا مادی جسم کی حرکت کسی فیول کے  سبب ہے  یونہی خود بخود نہیں  ہے۔ یعنی مادی جسم کی حرکت و عمل کا سبب بھی ایک فیول ایک حرکی قوت ہے۔ یہ حرکی قوت جسم کی بجلی یا گیس ہے  جو اسے  متحرک رکھتی ہے۔
یہ گیس یا بجلی جسم میں  ہو تو جسم چلتی پھرتی متحرک مشینری کی مانند ہے اور یہ بجلی یا گیس جسم میں  نہ ہو تو انسان ایک بے  حرکت وجود ہے۔
اسی بجلی اسی گیس کو ہم  نفس(AURA)  کہتے  ہیں۔


25۔ جسم کی زندگی


نظریہ نمبر:۔ ﴿7﴾۔ ﴿نفس  (AURA)  مادی جسم کی زندگی اور موت کا سبب نہیں۔ ﴾
AURA یعنی نفس مادی جسم کی حرکی قوت یا فیول تو ہے۔  مادی جسم کی حرکت و عمل نفس( AURA)  ہی کی بدولت ہے  اگر نفس( AURA  )جسم میں  ہو تو جسم حرکت و عمل کرتا ہے  اگر نفس( AURA) جسم میں  نہ ہو تو جسم بے  حرکت ہوتا ہے۔ لیکن یہ نفس(AURA)جسم کی زندگی نہیں  ہے۔ نفس(  AURA) کی غیر موجودگی سے  موت واقع نہیں  ہوتی نفس(AURA) کی غیر موجودگی سے  جسم بے  حرکت تو ہو سکتا ہے  لیکن جسم پے  موت واقع نہیں  ہوتی
AURA(نفس )جسم کی حرکت و عمل کا سبب تو ہے  لیکن مادی جسم کی زندگی اور موت کا دارومدار نفس( AURA )پر نہیں  ہے  اس کی غیر موجودگی سے  موت واقع نہیں  ہوتی اگرچہ وہ جسم بے  حرکت ہو جائے  لیکن زندہ رہے  گا اس کی مثال نیند یا کوما کی کیفیت ہے۔ کہ انسان بے  حرکت بے  عمل ہوتا ہے  مادی جسم کسی مردے  کی طرح ہی بے  حس و حرکت پڑا ہوتا ہے  لیکن وہ زندہ ہوتا ہے۔
AURA  کی معطلی سے  انسان کسی مردہ کی طرح بے  جان تو ہوتا ہے  لیکن وہ پھر بھی زندہ ہوتا ہے  مرتا نہیں۔  دراصل آج تک تحقیق کرنے  والے   AURA  کو ہی آخری حقیقت  سمجھتے  رہے  ہیں  جب کہ ایسا نہیں  ہے۔
AURA  کی مادی جسم میں  موجودگی زندگی نہیں  فقط حرکت ہے اور نہ ہی مادی جسم  AURA کی معطلی سے  موت کا شکار ہوتا ہے۔
یعنی نفس (AURA)مادی جسم کی حرکت و عمل کا سبب تو ہے۔ لیکن مادی جسم میں  زندگی و موت کا سبب نہیں  ہے۔ مادی جسم کی حرکت نفس ہے  تو مادی جسم میں  زندگی و موت کا سبب روح ہے


AURA)-26 ( کے  اجسام


نظریہ نمبر:۔ ﴿8 ﴾  ﴿AURA فقط ایک مکمل جسم ہے۔ ﴾
  روشنی کا جسم مادی جسم کی طرح ایک جسم ہے اور مکمل جسم ہے۔  AURA  کا مشاہدہ کرنے  والے  اسے  رنگوں  کے  سات تیز رفتار چکروں  کی صورت میں  بھی دیکھتے  ہیں  یا مزید مشاہدہ کرنے  سے  اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے  ہیں  کہ  AURA  کے  اندر مزید اجسام ہیں۔ یہ دراصل AURA  کا سسٹم ہے  جسے  ہم نے  AURA  کے  طور پر شناخت کیا ہے 
جب ہم انسان کو ایکسرے  مشین سے  دیکھیں  تو ہمیں  اس کے  اندرونی اعضاء نظر آتے  ہیں۔ ہم یہ نہیں  کہتے  کہ مادی جسم کے  اندر رنگ برنگے  چھوٹے  بڑے  جسم یا مزید مخلوقات ہیں  بلکہ ہم ان اعضاء کو جسم کے  اعضاء اور جسم کی خصوصیات کے  طور پر شناخت کرتے  ہیں اور تمام اعضاء و خصوصیات کے  مجموعے  کو جسم کہتے  ہیں۔
اسی طرح سات رنگوں  کے  چکروں  کا مجموعہ دراصل AURA  ہے  سات چکر، رنگ، روشنی، گیس یہ سب دراصل اس جسم یعنی  AURA  کے  مرکبات ہیں  خصوصیات ہیں  جن کا مجموعہ ہے  یہ جسم یعنی  AURA۔ یہ ہمارے  مشاہدے  کی باریک بینی ہے  کہ ہم اس  جسم کی الگ الگ خصوصیات کا مشاہدہ کرتے  ہیں  جب ہم اس کو یکجا کر کے  مجسم حالت میں  دیکھیں  گے  تو یہ مادی جسم کی طرح مکمل جسم ہے  روشنی کا جسم۔
مثلاًجب ہم مادی جسم کو ایکسرے  مشین سے  دیکھیں  گے  تو وہ کچھ اور نظر آئے  گا اور عام نظر سے  محض جسم۔  اسی طرح روشنی کا جسم جو ہمارے  مشاہدے  میں  ہے  وہ بھی خاص روشنی  سے  ہی ہمارے  مشاہدے  میں  ہے   جب کہ عام روشنی میں وہ نظر نہیں  آتا۔
 اسی طرح خاص روشنی کا مہیج گھٹا بڑھا کر ہم اس روشنی کے  جسم کا ایسے  ہی مشاہدہ کر سکتے  ہیں  جیسے  مادی جسم کا عام نظر اور ایکسرے  مشین سے  کرتے  ہیں۔  AURA  جسم ہی ہے  بس فرق ہماری نظر کا ہے۔ اور ابھی ہم اسے  جانتے  نہیں  لاعلمی بھی ہماری نظر میں  حائل ہے۔ چاند سورج دور سے  روشنی کے  گولے  نظر آتے  ہیں  لیکن چونکہ ہم جانتے  ہیں  کہ یہ فقط روشنی کے  چھوٹے  چھوٹے  گولے  نہیں  ہیں  بلکہ ہماری زمین کی طرح بلکہ اس سے  بھی بڑے  بڑے  اجسام ہیں۔ لہذا فرق دیکھنے  کا ہے  جسم کا نہیں۔ اور فرق لاعلمی کا ہے۔
لہذا  AURA  کو ہم باریک بینی سے  دیکھیں  یا عام نظر سے  وہ ایک جسم ہی ہے   لیکن وہ روشنی کا جسم ہے اور اس جسم کا مطالعہ ہمیں  مادی جسم کے  وسیع و عریض مطالعے  سے  بھی زیادہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ جسم مادی جسم سے  خصوصیات میں  ہزاروں  گُنا بڑھ کر ہے۔


27۔ جسمانی اعمال کا سبب


نظریہ نمبر:۔  ﴿9﴾۔ ﴿نفس  (AURA)  جسمانی اعمال کا سبب ہے۔ ﴾
انسان اعمال یعنی صفات و حرکات کا نام ہے اور جسم ان اعمال کا عملی مظاہرہ یعنی جسم میں  حرکت و عمل کا سبب  AURA  ہے۔ جسم کی حرکت تو AURA کی بدولت ہی ہے  لیکن ہمارے  تمام جسمانی اعمال بھی  AURA  کی بدولت ہیں۔
مثلاً  بھوک لگی ہے۔ یہ ایک اطلاع ہے۔ لیکن اس اطلاع کو  AURA  مادی جسم تک بھوک کے  احساس کے  ساتھ منتقل کرتا ہے اور انسانی جسم کے  اندر بھوک کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ انسان یہ سوچتا ہے  مجھے  بھوک لگی ہے  اب مجھے  اٹھ کر کھانا گرم کرنا چاہیے اور کھانا چاہیے۔ انسان کا یہ سوچنا AURA کا سوچنا ہے۔  AURA کے  اس ترغیبی پروگرام پر جسم میں  تحریک پیدا ہوتی ہے اور  AURA  کی مسلسل ہدایت پر جسم عمل پیرا ہوتا ہے  یوں  انسان کھانا کھاتا ہے۔
ایک اور مثال سے  ہم اس کی مزید وضاحت کرتے  ہیں۔  مثلاً  
نیند آ رہی ہے۔ یہ ایک اطلاع ہے   اب انسان کو جمائیاں  آ رہی ہیں  جسم نیند کا متقاضی ہے  لیکن  AURA کا پروگرام سونے  کا نہیں  ہے  لہذا وہ جسم کو ٹی وی کے  پسندیدہ پروگرام کی طرف متوجہ کرتا ہے  یعنی مجھے  ابھی نہیں  سونا اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنا ہے  لہذا جسم نیند کی اطلاع کے  برعکس  AURA کی ہدایت کے  مطابق عمل کرتا ہے اور ٹی وی دیکھتا ہے۔
ہم زندگی میں  جتنے  بھی کام کرتے  ہیں  جتنے  بھی اعمال کرتے  ہیں  جتنے  بھی کارنامے  سرانجام دیتے  ہیں  یہ سب  AURA کے  ترغیبی پروگرام ہیں  ہمارا کھانا پینا، چلنا، عمل کرنا بڑے  بڑے  کام کرنا اچھائی برائی کرنا یہ سب AURA کے  پروگرام ہیں  جنہیں  وہ جسم کے  ذریعے  عملی جامہ پہناتا ہے  یعنی ہمارے  ہر عمل کا سبب  AURA ہے۔


28۔ جسمانی اعمال کی اطلاعات

نظریہ نمبر :۔ ﴿10﴾۔   ﴿جسمانی اعمال کی اطلاعات  AURA کی اطلاعات نہیں  ہیں۔ ﴾
مثلاً  بھوک لگی ہے  یہ اطلاع ہے  لیکن یہ  AURA کی اطلاع نہیں  ہے   AURA فقط اس اطلاع کو عملی جامہ پہناتا ہے  یا نہیں  پہناتا ہے  یعنی  AURA کی مرضی پہ منحصر ہے  کہ وہ اس اطلاع کا ترغیبی پروگرام بھیج کر جسم کو کھانے  کے  عملی مظاہرے  پر مجبور کرے  یا اس اطلاع کو رد کر کے  کھانے  کا پروگرام ملتوی کر دے۔
AURA پر تحقیقات تجربات اور مشاہدے  کرنے  والے  یہ بات تو کسی حد تک جانتے  ہیں  کہ انسانی زندگی کے  تمام تقاضے  جسمانی تقاضے  نہیں  ہیں  بلکہ یہ  AURA کے  تقاضے  ہیں  لیکن ان تقاضوں  کا منبع ان تقاضوں  کی ہدایت کہاں  سے  آ رہی ہیں  ہمارے  اعمال کی اطلاعات کہاں  سے  آ رہی ہیں  یہ کوئی نہیں  جانتا اور اسی لاعلمی کے  سبب آج تک  AURA کو ہی ان اطلاعات کا منبع سمجھا جاتا رہا ہے اور تمام تقاضوں  کا سبب اور اصل  AURA کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے  حالانکہ یہ غلطی ہے۔  AURA تو یہ اطلاعات خود وصول کرتا ہے  ہاں  عمل کرنا یا عمل نہ کرنا یہ اختیار  AURA ہی کے  پاس ہے۔ لیکن اگر یہ اطلاعات کا پروگرام یا جسمانی اعمال کی اطلاعات  AURA کو موصول نہ ہوں  تو  AURA کے  تمام اختیارات بے  کار محض ہیں  یعنی AURA کے  تمام تر اختیارات و اعمال محض اطلاعات کے  محتاج ہیں۔ جن کا منبع  AURA نہیں ہے۔
کھانا، پینا، رونا، ہنسنا، مرنا، جینا اور ہماری زندگی کے  تمام اعمال اطلاعات کا نتیجہ ہیں۔ یہ اطلاعات کیا ہیں اور ان کا منبع کیا ہے  اس کا تفصیلی ذکر آئے  گا۔


AURA-29 زمان و مکان کا پابند

نظریہ نمبر:۔  ﴿11﴾۔ ﴿نفس  (AURA)  زمان و مکان کا پابند ہے۔ ﴾
AURA کی برق رفتاری کے  سبب یہ تصور کر لیا جاتا ہے  کہ یہ شاید زمان و مکان کی قید سے  آزاد ہے  جب کہ ایسا نہیں  ہے۔ یہ بھی زمان و مکان کا پابند ہے۔
 یہ مادی جسم کے  مقابلے  میں  ہزاروں  گنا تیز رفتار ہے۔ AURA کی رفتار روشنی کی رفتار ہے۔   
AURA پلک جھپکتے  میں  فاصلوں  کی اُڑان بھرتا ہے  لیکن پھر بھی زمان و مکان کا پابند ہے  وہ مہینوں کا سفر پلک جھپکتے  میں اور دنوں  کا سفر سیکنڈوں  میں  طے  کرتا ہے  لیکن اس سفر میں  اسے  وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔  AURA کی اُڑان کو ہم خواب میں  محسوس کر سکتے  ہیں  ہم خواب میں  خود کو اُڑتے  دیکھتے  ہیں۔
AURA حدود و قیود کا پابند ہے  اس کی رسائی کائنات کے  ہر گوشے  تک نہیں۔ ایسا نہیں  کہ وہ زمین سے  آسمان تک پلک جھپکنے  میں  جاپہنچے۔  AURA ہر جگہ نہیں  جا سکتا۔
جس طرح ہمارا مادی جسم حدود و قیود کا پابند ہے  اسی طرح  AURA بھی حدود و قیود کا پابند ہے  مادی جسم زمین پر چلتا ہے  تو  AURA فضا میں  پرواز کرتا ہے  لیکن یہ ہر فضا کا مسافر نہیں۔ مادی جسم دنیا تک محدود ہے  تو  AURA روشنی کی وسیع دنیا کا مسافر ہے اور  لمبی اُڑانیں  بھرتا پھرتا ہے   AURA کی دنیا مادی جسم کی دنیا سے  بہت بڑی اور وسیع ہے  لیکن  AURA بھی  اپنی ہی دنیا اپنی ہی فضا کا قیدی ہے۔
جیسے  ہر شخص اپنی مالی استطاعت کے  مطابق سفر کر سکتا ہے  کوئی اپنے  شہر تک ہی محدود رہتا ہے  کوئی اتنی مالی استطاعت رکھتا ہے  کہ پورے  ملک میں  گھومتا ہے  کچھ پوری دنیا میں  گھومتے  ہیں  کچھ دنیا سے  باہر بھی ہو آتے  ہیں۔ یعنی چاند وغیرہ پر۔
ابھی ہم سورج پر جانے  کی استطاعت نہیں  رکھتے  کیونکہ ہمارا یہ خیال ہے  کہ سورج دہکتا ہوا آگ کا گولا ہے  جو ہمیں  جلا دے  گا۔ بالکل اسی طرح AURA بھی کچھ حدود و قیود کا پابند ہے  وہ ہر جگہ نہیں  جا سکتا انسان مادی جسم کے  ساتھ مادی زندگی بسر کرتا ہے  تو  AURA کے  ذریعے  روشنی کی دنیا سے  متعارف ہوتا ہے۔  AURA روشنی کی دنیا کا مسافر ہے  اس کے  ذریعے  ہم روشنی کی دنیا میں  سفر و بسر کرتے  ہیں۔
AURA کائنات کی تاروں  سے  جڑا کچھ آگے  تو نکلا ہے  لیکن وقت کی قید میں  ہی ہے  یہ روشنی کی دنیا کا مسافر ہے  اس کی پرواز روشنی  کی فضاء (Gases) تک محدودہے  جب کہ ہمادری کائنات مختلف قسم کی فضاؤں  مختلف دنیاؤں  سے  بھری پڑی ہے  جن تک  AURA کی پہنچ نہیں۔
AURA کی صلاحیتیں  مادی جسم سے  ہزاروں  گناہ بڑھ کر ہیں  لیکن یہ ہزاروں  گناہ صلاحیتیں  بھی محدود صلاحیتیں  ہیں۔ لامحدود نہیں  ہیں۔
لہذاAURA زمان و مکان کا پابند ہے۔


30۔ اعمال کے  اثرات

نظریہ نمبر:۔ ﴿12﴾۔  ﴿پہلے   AURA کی روشنی متاثر ہوتی ہے  پھر اس کے  اثرات مادی جسم پر ظاہر ہوتے  ہیں۔ ﴾
مادی جسم کے  اعمال کا اثر پہلے   AURA پر پڑتا ہے  پھر مادی جسم پر ظاہر ہوتا ہے  یعنی  AURA کا تغیر و تبدل مادی جسم پر ظاہر ہوتا ہے  جسے  ہم ذہنی یا جسمانی بیماری، کمزوری یا صحت مندی کہتے  ہیں۔
AURA روشنی کا جسم ہمارے  مادی جسم کا فیول ہے  ہم جو بھی حرکت و عمل کرتے  ہیں  وہ  AURA ہی کے  تقاضے  ہیں اور ان تقاضوں  کی تکمیل میں   AURA کی روشنیاں اور رنگ صرف ہوتا ہے۔
سات چکراز جو پہیے  کی طرح تیزی سے  چکر کھاتے  ہیں۔  یہ  AURA کی روشنی ہے اور یہ روشنی کا بہاؤ ہے۔  AURA چونکہ روشنی کا جسم ہے  یہ روشنی کا بہاؤ  AURA کے  جسم میں  ایسے  ہی ہے  جیسے  ہمارے  مادی جسم میں  خون کا بہاؤ۔
جیسے  جذبات یا خوشی یا غم میں  ہمارے  خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے  ایسے  ہی ہماری کیفیات کا روشنی کے  بہاؤ پر اثر پڑتا ہے۔  روشنی کے  بہاؤ میں  کمی بیشی ہمارے  مادی جسم کے  اعمال کی وجہ سے  پیدا ہوتی ہے۔
ہم جو بھی کام سرانجام دیتے  ہیں  ویسی اور اتنی ہی روشنی اور رنگ استعمال میں  آتے  ہیں۔ اگر یہ عام روٹین کے  مطابق نہ ہوں  کم یا زیادہ ہوں  تو روشنی کے  بہاؤ میں  تیزی یا سستی یا رکاوٹ آ جاتی ہے۔ یعنی براہِ راست فرق  AURA کی روشنی کے  بہاؤ پر پڑتا ہے۔ یہ ایسے  ہی ہے  جیسے  جذباتی کیفیت میں  بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور خوشی کے  وقت طمانیت کا احساس جنم لیتا ہے۔
AURA جو ساخت تبدیل کرتا ہے  کبھی پھیلتا ہے  کبھی سکڑتا ہے  لگاتار اس کی حالت میں  جو تبدیلی ہوتی رہتی ہے  اس کی وجہ یہی ہے  کہ اس وجود کی روشنیاں اور رنگ مختلف قسم کے  جسمانی اعمال میں  صرف ہو رہے  ہیں  جس کی وجہ سے  اس جسم میں  مسلسل تغیر و تبدل ہو رہا ہے۔  AURA مسلسل مادی جسم کی تحریک میں  استعمال ہو رہا ہے اور جسم اسی فیول  AURA کی بدولت با عمل اور متحرک ہے۔
پہلے   AURA کی روشنی صر ف ہوتی ہے  اس میں  تغیر و تبدل ہوتا ہے  پھر اس کے  اثرات خوشی غم یا بیماری کی صورت مادی جسم پر ظاہر ہوتے  ہیں۔ (عمل کے  ذریعے )


AURA.-31 روح نہیں

نظریہ نمبر:۔  ﴿13﴾۔ ﴿نفس (AURA) روح نہیں  ہے۔ ﴾
نفس (AURA) کا تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے  آج تک اسے  ہی روح تصور کرتے  آئے  ہیں۔ وہ  AURA کو ہی جسم لطیف، اصل جسم یا انسان کا اصل تشخص قرار دیتے  رہے  ہیں اور ان سب( جسم لطیف، اصل جسم یا انسان کا اصل )سے  ان کی مراد روح ہوتی ہے۔  جب کہ روح ان سب سے  علیحدہ  ایک شے  ہے۔ لہذا
نفس  (AURA)  روح نہیں  ہے  !
AURA کو روح کے  طور پر پیش کرنے  والے  روح کا بھی مشاہدہ کرتے  ہیں  لیکن انہوں  نے  روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کیا۔ یا اگر صدیوں  برسوں  میں  کبھی کسی نے  روح کو الگ پہچان کر اسے  ہی اصل تشخص قرار دے  بھی دیا ہے  تو وہ کبھی خود بھی اسے  نہ تو سمجھ سکے  ہیں  نہ ہی اس کی کوئی تعریف کر سکے  ہیں۔ عموماً
۱۔ نفس (AURA)کو روح کے  طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔
۲۔ جب کہ روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کیا جاتا۔
روح کا مشاہدہ کرنے  والے  جب  AURA کو اصل جسم  یا اصل تشخص کہتے  ہیں اور روح کو بھی اصل کہتے  ہیں  تو ایسا کہتے  ہوئے  وہ خود اپنی تضاد بیانی میں  الجھ کر یہ کہنے  پر مجبور ہو جاتے  ہیں  کہ یہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں۔
بہر حال  (AURA) روح نہیں  ہے  !جیسا کہ ماضی میں  اسے  کہا جاتا رہا ہے۔


32۔ نور کا جسم

نظریہ نمبر:۔ ﴿14﴾۔ ﴿نوری جسم ایک اور لطیف ترین جسم ہے  لیکن یہ بھی روح نہیں۔ یہ بھی نفس کا ایک جسم ہے۔ ﴾
تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے   AURA کے  ساتھ اور نورانی اجسام  Chakras  کا مشاہدہ کرتے  ہیں  وہ یا تو اسے   AURA  یا  Chakras  کہہ دیتے  ہیں اور اسے  بھی  AURA ہی کا کوئی جسم یا حصہ تصور کرتے  ہیں  یا الگ سے  شناخت کرتے  ہیں  تب بھی وہ  AURA کو  یا مزید دوسرے  مشاہدہ میں  آنے  والے  مزید لطیف اجسام کو اصل تشخص یعنی روح قرار دیتے  ہیں۔ یہ سب غلطیاں  لاعلمی کے  سبب کی جاتی ہیں۔
 نور کا جسم نفس کا تیسرا جسم ہے۔ ۱۔ مادی جسم، ۲۔ AURA(نفس )، ۳۔ نور کا جسم۔
 نوری جسم بھی مادی جسم اور اورا کی طرح اپنی انفرادی شناخت رکھتا ہے۔ نور کا جسم علیحدہ سے  ایک جسم ہے  جیسے  کہ مادی جسم ہے  یا  AURA ہے۔ جس طرح  AURA مادی جسم سے  لطافت میں  زیادہ ہے  رفتار اور خصوصیات میں  زیادہ ہے  اسی طرح نورانی وجود بھی  AURA کی نسبت زیادہ برق رفتار ہے۔
 AURAمادی جسم سے  ہزاروں  گناہ زیادہ برق رفتار ہے  تو نورانی جسم  AURA سے  بھی  لاکھوں  گنازیادہ برق رفتار ہے۔ لیکن یہ انتہائی برق رفتار جسم بھی زمان و مکان کی قید سے  آزاد نہیں۔  AURA روشنی کی دنیا کا مسافر ہے  تو نوری جسم ایک اور مزید لطیف نورانی فضا کا مسافر ہے   AURA روشنی کا وجود ہے  تو نورانی جسم نور کا وجود ہے۔ روح مادی دنیا میں  مادی جسم کے  ساتھ نمودار ہوتی ہے  تو روشنی کی فضا میں  روشنی کے  جسم کے  ساتھ اور اس سے  ذرا اور بلند نور کی دنیا میں  نورانی جسم کے  ساتھ نمودار ہوتی ہے۔


33۔ مزید اجسام

نظریہ نمبر:۔ ﴿15﴾۔ ﴿مادی جسم، نفس (AURA)، نور ی جسم کے  علاوہ مزید اجسام بھی ہیں۔ ﴾
  AURA کے  علاوہ بھی مزید لطیف اجسام انسان سے  وابستہ ہیں۔ یہ مزید لطیف اجسام علیحدہ سے  نفس کے  مزید اجسام ہیں۔
ماضی میں  ان لطیف اجسام کو روح یا روح کے  حصے  تصور کیا جاتا تھا یہ نہ تو روح ہیں  نہ روح کے  حصے  ہر جسم دوسرے  جسم سے  الگ اور منفرد جسم ہے۔ جیسے  مادی جسم ہے  یہ مادی خصوصیات کا حامل ہے ، نفس  AURA بھی ایک جسم ہے اور یہ مادی جسم سے  الگ منفرد خصوصیات کا حامل ہے  جب کہ نور کا جسم الگ اور منفرد جسم ہے۔
اسی طرح اور بہت سے  اجسام ہیں اور وہ الگ سے  اجسام ہیں   ہر جسم منفرد جسم ہے۔ اپنا انفرادی تشخص اپنا انفرادی نام رکھتا ہے۔
مادی جسم کے  علاوہ جن  لطیف اجسام کا آج ہم مشاہدہ کر رہے  ہیں  اور جن کا ابھی ہم مشاہدہ  تجربہ اور علم نہیں  رکھتے  وہ سب اجسام نفس اور نفس کے  اجسام ہیں۔ ہر جسم نفس کا جسم ہے۔ ہر جسم نفس ہے۔ انسان مادی جسم میں  رہتے  ہوئے  غیر اختیاری طور پہ تو ان اجسام کو استعمال کر ہی رہا ہے  لیکن انسان مادی جسم کے  علاوہ ہر جسم کو انفرادی طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے اور انسان جس جسم میں  بھی ہو وہ جسم فقط اس کی شخصیت کا اظہار ہے ، اس کا لباس اور پیمانہ ہے۔ اور انسانی شخصیت کا ہر پیمانہ نفس ہے۔ یعنی خود انسان ہے۔


34۔ اجسام کی تعداد

نظریہ نمبر۔ ﴿16﴾۔ ﴿کائنات میں  جتنے  نظام ہیں  اتنے  ہی اجسام ہیں۔ ﴾
ہماری کائنات میں  ہماری کہکشاں  کی طرح کتنی کہکشائیں  ہیں  ہمارے  نظام شمسی کی طرح کتنے  آباد اور کتنے  غیر آباد نظام ہیں  ہم نہیں  جانتے  یا ہم شمار نہیں  کر سکتے  اگرچہ اندازے  تخمینے  تو لگائے  جاتے  ہیں۔  کائنات کتنی وسیع ہے  ابھی تو ہم اسکی وسعت کا ہی اندازہ نہیں  کر پائے  جب کہ مزید کائناتیں  بھی ہیں  جنہیں  ہم جانتے  ہی نہیں  جو ہماری نظر سے  ابھی تک اوجھل ہیں۔ ابھی ہمارے  تجربے  حتیٰ کہ ہمارے  ادراک کی حد بھی کم ہے۔ لیکن جتنے  بھی نظام ہیں  جتنی بھی دنیائیں  ہیں  جتنی بھی فضائیں  ہیں  ایک روح اتنے  ہی اجسام تشکیل دے  سکتی ہے۔  روح کائنات کی مسافر ہے۔ وہ کائنات میں  مختلف قسم کی دنیاؤں اور مختلف قسم کی فضاؤں  میں  سفر کرتی ہے اور جس فضا سے  گزرتی ہے  یا جس فضا میں داخل ہوتی ہے  وہاں  بسیرا کرتی ہے  (یعنی عارضی قیام) تو اسی فضا کے  عناصر یا ایٹمز کی مناسبت سے  ویسا ہی اسی فضا کے  عناصر سے  بنا لباس جسم اوڑھ لیتی ہے۔
ایسا روح اس وقت تک کرتی ہے  جب تک وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔
روح کی منزل کیا ہے ؟  وہ کتنی، اور کیسی فضاؤں  میں  سفر کرتی ہے اور خود کیا ہے   اس کا ذکر آگے  آئے  گا۔


35۔ مادی دنیا میں  اجسام کی تعداد

نظریہ نمبر:۔ ﴿17﴾۔ ﴿مادی دنیا میں  ایک عام انسان بیک وقت تین جسم استعمال کرتا ہے۔ ﴾
(1)۔  مادی جسم۔
(2)۔  AURA  روشنی کا جسم۔
(3)۔   نور کا جسم۔
جب کہ خاص روحانی لوگوں  کے  تین سے  زیادہ جسم بھی ہوتے  ہیں اور وہ ان کا استعمال بھی کرتے  ہیں۔ اور روحانی سرگرمیاں  سرانجام دیتے  ہیں۔ ان کے  یہ روحانی اجسام روحانی ریاضتوں  کا نتیجہ ہوتے  ہیں۔
دراصل انسان کی صلاحیتیں  بہت زیادہ ہیں  وہ بہت سے  جسم استعمال میں  لا سکتا ہے  بہت سے  کارنامے  سر انجام دے  سکتا ہے۔ تمام کائنات اس کے  سامنے  مسخر ہے  لیکن اپنے  آپ اپنی صلاحیتوں  سے  ناواقفیت کے  سبب وہ مجبور بنا ہوا ہے  فقط تین جسم استعمال کرتا ہے اور یہ استعمال بھی وہ اختیاری طور پر نہیں  بلکہ غیر اختیاری طور پر کرتا ہے۔
یہ اس کا قدرتی عمل ہے  جو خود بخود مکمل ہو رہا ہے۔ ورنہ عام انسان تو ان تین اجسام کی موجودگی سے  بھی بے  خبر ہے اور اسی بے  خبری میں  ان کا انکار بھی کرتا رہتا ہے  لہذا اختیاری طور پر ان تین اجسام کا استعمال تو بہت دور کی بات ہے۔
مادی جسم کے  استعمال سے  تو ہم واقف ہیں  جب کہ باقی دو  اجسام روحانی دنیا سے  انسان کے  رابطے  کا ذریعہ ہیں۔


36۔ انسان کائنات سے  مربوط ہے 

نظریہ نمبر:۔ ﴿18﴾۔ ﴿ نفس (اجسام) کے  ذریعے  انسان کائنات سے  مربوط ہے۔ ﴾
نفس کے  مختلف اجسام کے  ذریعے  انسان تمام عالموں  سے  براہِ راست مربوط ہے۔ مثلاً
۱۔ مادی جسم
 نظریہ نمبر:۔ مادی جسم کے  ذریعے  انسان مادی دنیا سے  مربوط ہے۔
مادی جسم مادی دنیا کا باسی ہے۔ لہذا روح مادی عناصر کے  اشتراک سے  مادی جسم ترتیب دیتی ہے۔ یہ مادی جسم مادی عناصر سے  مرکب مادی دنیا کے  لحاظ سے  مادی دنیا کے  تقاضوں  کو پورا کرنے  کی اور مادی زندگی مادی دنیا میں  بسر کرنے  کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہذا روح مادی دنیا میں  رہنے  کے  لئے  مادی جسم اوڑھ لیتی ہے۔ اور مادی دنیا میں  کچھ وقت گزارتی ہے۔ آج چونکہ ہم مادی جسم کا کافی علم رکھتے  ہیں  لہذا مادی جسم کی ہئیت ساخت سے  کافی حد تک آگاہ ہیں۔ لیکن انسان کے  لئے  کائنات بنی ہے اور انسان پوری کائنات سے  مربوط ہے  لہذا انسان محض مادی جسم نہیں  بلکہ اس کے اور بھی لطیف اجسام ہیں  جو انسان کے  کائنات سے  رابطے  کا ذریعہ ہیں۔ لہذا انسان محض مادی دنیا کا قیدی نہیں  بلکہ وہ پوری کائنات سے  جُڑا ہے۔
۲۔ نفس ( AURA)
نظریہ نمبر:۔  ﴿19﴾۔ ﴿AURA انسان کو روشنی کی دنیا (عالم برزخ) سے  مربوط رکھتا ہے۔ ﴾
  AURA انسان کو مادی دنیا کے  علاوہ اس دنیا سے  بھی مسلسل مربوط رکھتا ہے  جس دنیا میں  انسان مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد جائے  گا اور وہاں  کچھ عرصہ اسی جسم  AURA کے  سہارے  ٹھہرے  گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم مادی دنیا میں  مادی جسم کے  ساتھ ٹھہرے  ہوئے  ہیں۔
روشنی کے  وجود کے  ذریعے  انسان روشنی کے  تقاضے  پورے  کرتا ہے۔  AURA کے  ذریعے   انسان روشنی کی دنیا سے  بھی مسلسل مربوط ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ اس رابطے  سے  انجان بنا ہوا ہے  لیکن پھر بھی وہ اس رابطے  کو جانتا اور محسوس کرتا ہے  اپنے  خوابوں  کے  ذریعے۔ جب مادی جسم سو جاتا ہے  تو نفس متحرک ہو جاتا ہے اور ہم نفس کی اس نقل و حرکت کو محسوس کرتے  ہیں  خوابوں  کے  ذریعے۔ خواب میں  ہم  AURAکو متحرک دیکھ رہے  ہوتے  ہیں۔ جس طرح ہم اپنے  مادی جسم کو اپنی مرضی سے  استعمال کرتے  ہیں  اسی طرح کچھ لوگ اپنے   AURAکا استعمال کرنا بھی جانتے  ہیں وہ لوگ بیداری میں  ہی  AURAکے  ذریعے  روشنی کی دنیا میں  سفر کرتے  ہیں  نقل و حرکت کرتے  ہیں اور اس روشنی کے  جسم اس کے  اعمال وافعال اور روشنی کی دنیا سے  واقف ہوتے  ہیں۔ لہذا روشنی کی دنیا میں  حرکت و عمل اور رہائش کے  لئے  ہمیں  روشنی کے  وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا روح روشنی کی دنیا سے  روشنی کے  عناصر سے  روشنی کا وجود تیار کرتی ہے۔ لہذا روشنی کی دنیا میں  سفر کرنے  کے  لئے  انسان روشنی کا وجود استعمال کرتا ہے۔
لہذا  AURA مادی دنیا میں  رہتے  ہوئے  انسان کو روشنی کی دنیا سے  بھی مربوط رکھتا ہے اور اس روشنی کی دنیا (عالم برزخ) سے  رابطے  کی روداد کو ہم نیند کی حالت میں  خواب کی صورت میں  برا ہِ راست دیکھتے  ہیں۔
لہذا  AURA مادی دنیا میں  رہتے  ہوئے  بھی روشنی کی دنیا سے  رابطے  کا ذریعہ ہے۔

۳۔ نور کا جسم
نظریہ نمبر:۔ ﴿ 20﴾۔ ﴿نور  کا جسم انسان کو مادی دنیا میں  رہتے  ہوئے  نور کی دنیا سے  مربوط رکھتا ہے۔ ﴾
یہ فضا حقیقی فضا ہے  اسے  عالم آخرت کی صورت بھی کہہ سکتے  ہیں۔  اس رابطے  کی روداد کو بھی ہم خواب کی صورت میں  دیکھتے  ہیں۔ نور کا جسم  روح نور کی فضا سے   نور کے  عناصر سے  تیار کرتی ہے اور یہ جسم نور کی دنیا میں  گزر بسر کرنے  کے  لئے  استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح روح جس فضا میں  قیام کرتی ہے  اسی فضا کے  تعامل سے  اپنے  لئے  ویسا ہی جسم تیار کر لیتی ہے۔ مادی فضا میں  مادی جسم، روشنی کی فضا سے  روشنی کا جسم اور نور کی فضا میں  نور کا جسم اور اس کے  علاوہ کائناتوں  میں  وہ جہاں  بھی جس بھی سیارے  پہ بسیرا کرتی ہے  اس فضا سے  ویسا ہی جسم تیار کر لیتی ہے اور ہر جسم دوسرے  جسم سے  منفرد جسم ہے  ہر اعتبار سے  لہذا ہر جسم اور روح کے  مجموعے  کو ہی ہم انسان کہتے  ہیں۔ لہذا ان تین جسموں یعنی مادی جسم کے  ذریعے  انسان مادی دنیا، AURAیعنی روشنی کے  جسم کے  ذریعے  انسان روشنی کی دنیا(عالمِ برزخ)اور نور کے  جسم کے  ذریعے  انسان عالمِ آخرت سے  مسلسل مربوط رہتا ہے۔ ان دونوں  رابطوں  کو ہم خواب کے  ذریعے  محسوس کرتے  ہیں  یعنی روشنی کے  وجود کو نقل و حرکت کرتے  دیکھتے  ہیں اور نور کے  جسم کے  ذریعے  اپنے  مُردہ عزیزو اقارب  سے  رابطے  میں  ہوتے  ہیں۔ یعنی ان تین اجسام کے  ذریعے  انسان مادی دنیا میں  رہتے  ہوئے  بھی مسلسل پوری کائنات سے  مربوط ہے۔


37۔ زندگی کی صورتیں

نظریہ نمبر:۔ ﴿21﴾۔ ﴿ہر زمین پر زندگی موجود ہے ، ہر زمین پر زندگی کی طرزیں  مختلف ہیں، پوری کائنات زندگی سے  معمور ہے۔ اور انسان پوری کائنات میں  رہنے  بسنے  کی صلاحیت اپنے  اندر رکھتا ہے۔ ﴾
لہذا یہ نظریہ فضول ہے  کہ انسانی زندگی کے  لئے  زمین ہی موضوع سیارہ ہے۔
 ہر زمین ہر سیارے  پر زندگی کے  تقاضے  مختلف ہیں اور زندگی کی شکلیں  مختلف ہیں، مخلوقات مختلف ہیں، مخلوقات کی ساخت مختلف ہے۔
درحقیقت ہر زمین پر اسی زمین کی ماحول کی مناسبت سے  زندگی قائم ہے  لہذا ہر زمین پر زندگی کی طرزیں  مختلف ہیں اور انہیں  طرزوں  کی مناسبت سے  ہر زمین پر مخلوقات کی ساخت بھی مختلف ہے۔ یعنی ہر زمین پر اس کی فضاء کی مناسبت سے  اسی فضاء کے  عناصر سے  ترتیب یافتہ مخلوقات موجود ہیں۔
یعنی کائنات کے  ہر سیارے  پر مختلف طرزوں  پر مشتمل زندگی موجود ہے۔ بلکہ ہر سیارے  پہ اسی کی مناسبت سے  مخصوص مخلوق آباد ہے۔
لیکن محض انسان وہ ہستی ہے  جو پُوری کائنات میں  کائنات کے  ہر سیارے  پر رہنے  بسنے ، سفر کرنے  کی اہلیت رکھتی ہے۔ یعنی انسانی زندگی کے  لئے  بھی محض زمینی سیارہ ہی موضوع جگہ نہیں  ہے  جیسا کہ سائنسدان بتاتے  ہیں۔
لہذا انسان محض مادی زمین کے  لئے  مخصوص نہیں  انسان کے  لئے  پوری کائنات ہے ، جہاں  چاہے ، جب چاہے  جائے  جہاں چاہے  رہے  جہاں چاہے  بسے  یہ انسان کی مرضی اس کا اختیار ہے۔  


38۔ اجسام کا تشخص

نظریہ نمبر:۔ ﴿22﴾۔ ﴿ ہر جسم منفرد جسم ہے اور اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے۔ ﴾
روح اور نفس (تمام اجسام)  اپنا اپنا انفرادی تشخص تو رکھتے  ہی ہیں۔ اس کے  علاوہ نفس کا ہر جسم اپنا انفرادی تشخص بھی رکھتا ہے۔ ہر وجود کی اہمیت، ہیئت اور خصوصیات دوسرے  وجود سے  مختلف اور منفرد ہیں۔ مثلاً
۱۔ مادی جسم:  مادی جسم سے  تو ہم واقف ہی ہیں یہ مادی عناصر سے  مرکب مادی وجود ہے  مادی دنیا میں  زندگی بسر کرنے  کے  لئے  یہ موزوں  جسم حرکت و عمل سے  مخصوص ہے  مادی جسم کی ہیت، ساخت خصوصیات سے  ہم آگاہ ہیں  ہی۔
۲۔ AURA:   جس طرح مادی جسم منفرد ہے  اسی طرح  AURA بھی اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے  مادی جسم کا ہمارے  پاس بہت زیادہ علم ہے۔ مادی جسم کی خصوصیات سے  تو ہم آگاہ ہیں  ہی لیکن  AURA تو اپنی انفرادی خصوصیات میں  مادی جسم سے  بھی بڑھا ہوا ہے۔ جس طرح مادی دنیا میں  انسان کا وجود مادی ہے  تو روشنی کی دنیا میں  انسان کا وجود  AURA ہے۔ اور اپنی انفرادیت میں  مادی جسم سے  ہزاروں  گناہ بڑھ کر ہے۔
 ۱۔ مثلاً  AURA روشنی کا جسم ہے  اور یہ روشنی یا بجلی
۲۔ مادی جسم کی حرکی قوت ہے۔
۳۔ مادی جسم کے  اعمال و افعال کا سبب ہے۔
۴۔ مادی جسم سے  ہزاروں  گناہ برق رفتار ہے ،
۵۔ AURA  انسان کو روشنی کی دنیا (عالم برزخ) سے  مربوط رکھتا ہے۔
یہاں  ہم نے  اس روشنی کے  جسم کی محض چند انفرادی خصوصیات کا ذکر کیا ہے  ورنہ
یہ روشنی کا جسم اعمال و خصوصیات میں  مادی جسم سے  ہزاروں  گُنا بڑھ کر ہے  لہذا اس جسم کا علم بھی مادی جسم سے  وسیع تر ہے  جس کا اب آغاز ہو رہا ہے۔
۳۔ نور کا جسم
نور کا جسم بھی منفرد جسم ہے اور اپنی انفرادی خصوصیات میں  روشنی کے  جسم سے  بھی لاکھوں  گناہ بڑھ کر ہے۔
نور کا جسم انسان کو نور کی دنیا (عالمِ آخرت)سے  مربوط رکھتا ہے۔
نور کا جسم بھی اپنی ساخت، خصوصیات میں  منفرد ہے۔
اسی طرح جتنی بھی دنیائیں  ہیں  جتنے  بھی اجسام ہیں  ہرجسم منفرد جسم ہے۔
یہاں  ہم نے  اجسام (نفس) کا مختصر ترین تعارف کروایا ہے۔ ورنہ یہ وہ موضوع ہے  کہ جس کا یہاں  ہم نے  آغاز تو کر دیا ہے  لیکن کیا اس کا اختتام بھی ہے؟
اس کی مثال مادی جسم سے  ہی لے  لیجئے  مادی جسم سے  متعلق آج ہمارے  پاس اتنے  علوم ہیں کہ جس کا شمار بھی نہیں  جب کہ مادی جسم باقی کے  لطیف اجسام کے  مقابلے  میں  ایک مختصر موضوع ہے۔
جب کہ باقی کے  لطیف اجسام تو ساخت اور خصوصیات میں  مادی جسم سے  ہزاروں  لاکھوں  گناہ بڑے  موضوعات ہیں۔ لہذا خود ہی اندازہ کر لیجئے  کہ یہ لطیف اجسام کتنے  بڑے  علمی موضوعات ہیں۔ ہم نے  تو یہاں  آج ان کا مختصر تعارف پیش کیا ہے  کہ یہ بھی موجود ہیں  انہیں  بھی تو دیکھئیے۔ یہاں  ہم نے  صرف ان گمنام اجسام کو متعارف کروایا ہے۔ ابھی تو یہ صرف منظر عام پر آئے  ہیں۔ علمی کام تحقیق و تجربات تو ان پر ابھی ہوں  گے۔


39۔ اجسام کی اہمیت

نظریہ نمبر:۔ ﴿23﴾۔   ﴿اجسام ہی انسان کا اصل تشخص ترتیب دیتے  ہیں۔ ﴾
ہر انسان وہ اچھا ہے  یا برا ایک خاص کردار ایک خاص شخصیت ہے اور یہ خاص شخصیت ترتیب دیتا ہے  نفس یعنی اجسام۔ لہذا اجسام ہی بنیادی اہمیت کے  حامل ہیں۔
روح ابتداء سے  انتہا تک ایک مکمل تشخص مکمل پروگرام ہے اور یہ روح انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا مکمل تحریری پروگرام ہے۔ اب یہ تیار شدہ انسانی پروگرام ایک مکمل سادہ انسان ہے  ایک معصوم انسان۔
اب اس سادہ پروگرام یعنی انسان میں  اچھے  یا برے  کاموں  سے  نفس( اجسام) اپنے  ذاتی ارادے  سے  ترمیم و اضافہ کر رہے  ہیں۔ لہذا اجسام کے  اچھے  یا برے  اعمال کی وجہ سے  انسانی پروگرام میں  ترمیم یا اضافہ ہو گا لہذا اجسام کے  اچھے  اعمال کی وجہ سے  اب یہ انسان اچھا انسان ہو گا۔ یا اجسام کے  برے  اعمال کی وجہ سے  یہ انسان برا انسان ہو جائے  گا۔
یعنی انسانی پروگرام میں رد و بدل کر رہے  ہیں  اجسام کے  ذاتی اعمال اور یہی اجسام کے  اعمال سے  تیار کردہ پروگرام حتمی صورت اختیار کرے  گا۔ یعنی انسان کی اگلی زندگی کا تمام تر انحصار اجسام کی موجودہ اچھی یا بری کارکردگی پر منحصر ہے۔
لہذا انسان پیدائشی طور پر ایک سادہ پروگرام ہے  جس میں  ترمیم و اضافہ کر کے  اجسام اس پر اچھا انسان یا برا انسان کا لیبل لگا رہے  ہیں۔ یعنی انسان کا اصل تشخص ترتیب دے  رہے  ہیں  اجسام(نفس) اپنے  ذاتی ارادے  سے  لہذا اجسام کی اہمیت سب سے  زیادہ ہے۔


40۔ اجسام کی حقیقت

نظریہ نمبر:۔ ﴿24﴾۔ ﴿تمام اجسام مفروضہ ہیں۔ ﴾
اجسام کی بے  انتہا صلاحیتوں  تمام تر خوبیوں اور بے  تحاشا اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے  لیکن اس کے  ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے  کہ اجسام کی تمام تر خوبیوں اور اہمیت کے  باوجود اجسام کی کوئی حقیقت نہیں۔ تمام اجسام مفروضہ ہیں۔ جیسے  کہ خواب جسے  ہم نیند میں  دیکھ تو رہے  ہیں  لیکن آنکھ کھلی تو سارا منظر غائب۔ کیا یہ جھوٹ ہے؟
تو پھر بتائیے  کہ حقیقت میں  چلتا پھرتا بے  پناہ صلاحیتوں  کا مالک نامور انسان بے  حرکت، بے  نشان کیسے  ہو جاتا ہے۔ ایک جیتا جاگتا انسان بھولا بسرا خواب کیسے  ہو جاتا ہے۔
درحقیقت تمام اجسام مختلف مقداروں  کے  مرکبات کا مجموعہ ہیں اور ان تمام مرکبات کی عرصہ حیات محدود ہے۔ جیسے  یہ مرکب ہوتے  ہیں  ویسے  ہی منتشر بھی ہو جاتے  ہیں  جب ان مرکبات میں  سے  روح خارج ہو جاتی ہے  یہ بے  حرکت، منتشر اور بے  نشان ہو جاتے  ہیں  کوئی پتھر کوئی چٹان اپنے  وجود میں  کسی ایک آدھے  وجود کو بطور عبرت محفوظ کر لے  تو ہمیں  کوئی فوسل کوئی نشانی میسر آ جاتی ہے  کہ یہاں  پہلے  کبھی کوئی وجود بھی تھا یہ چند برائے  نام نشانیاں  بھی قدرت برائے  عبرت چھوڑ دیتی ہے  ورنہ تو کسی تیس مار خان کا نشان بھی نہیں  بچتا۔ روح کے  بغیر ان تمام اجسام کی کوئی حقیقت نہیں  اگر ہے  تو بتائیے  کہ ایک مخصوص مدت کے  بعد یہ تمام کہاں  چلے  جاتے  ہیں، کیوں  بے  نشان ہو جاتے  ہیں ؟  جیسے  کبھی تھے  ہی نہیں۔ وہ کیا شے  تھی جو ان اجسام میں  اپنا اظہار کر رہی تھی۔ وہ کیا تھی جو ان وجودوں  کو موجود رکھ رہی تھی اور جس کی غیر موجودگی سے  جسم کا وجود ہی نہ رہا دراصل ان تمام تر اجسام کی اصل کچھ اور ہے۔ اور تمام تر اہمیت کے  باوجود بذاتِ خود یہ اجسام مفروضہ ہیں۔


41۔ تمام اجسام فانی ہیں

نظریہ نمبر:۔ ﴿25﴾۔ ﴿ تمام اجسام مر جاتے  ہیں   (فنا ہو جاتے  ہیں )۔ ﴾
مادی جسم ہو یا کوئی بھی لطیف سے  لطیف جسم سب اجسام اپنی مدت حیات پوری کر کے  مرجاتے  ہیں  کوئی بھی لطیف سے  لطیف جسم غیر فانی نہیں۔
ہر لطیف سے  لطیف جسم فانی ہے۔
جیسے  مادی جسم دنیا میں  ایک مخصوص مدت بسر کرتا ہے  پھر موت کا شکار ہو کر بے  نشان ہو جاتا ہے  بالکل اسی طرح تمام لطیف اجسام بھی فانی ہیں  چاہے  وہ  AURA  ہو یا نور کا جسم یا کوئی اور اس سے  بھی لطیف جسم یا اجسام سب فانی ہیں  مر جاتے  ہیں۔ جب کہ ماضی میں  لطیف اجسام کو روح تصور کیا جاتا تھا اور روح سمجھ کر ان اجسام کو غیر فانی تصور کیا جاتا تھا جب کہ آج یہاں  ہم نے  یہ  وضاحت کر دی ہے  کہ تمام لطیف اجسام روح نہیں  نفس ہیں اور تمام لطیف اجسام بھی اپنی مدت میعاد پوری کر کے  مادی جسم کی طرح مر جاتے  ہیں
لہذا تمام تر لطیف اجسام مرکبات ہیں، فانی ہیں۔


42۔ اصل جسم

نظریہ نمبر :۔ ﴿26﴾۔ ﴿ کوئی جسم اصل جسم نہیں  یا اجسام کی کوئی اصل نہیں۔ ﴾
آج تک تمام تحقیق و تجربات کرنے  والے  لطیف اجسام کو روح کے  طور پر پیش کرتے  رہے  ہیں لہذا ان کے  مطابق انسان کا اصل اور غیر فانی تشخص یہی لطیف جسم ہوتا ہے۔ اور اس اصل اور غیر فانی تشخص سے  ان کی مراد روح ہوتی ہے۔ اور روح سے  ان کی مراد جسم لطیف ہوتی ہے۔ یعنی وہ روح کو جسمِ لطیف بتاتے  ہیں اور اس جسمِ لطیف( یا ان کے  خیال سے  روح )کو وہ غیر فانی کہتے  ہیں۔ کیونکہ ہمیشہ انہوں  نے  روح کو جسم لطیف کی صورت میں  دیکھا سوچا یا محسوس کیا ہے   جب کہ جسم کوئی بھی ہو کتنا بھی لطیف ہو وہ محض روح کا لباس ہے  لہذا بذات خود اجسام کی کوئی اصل نہیں۔

43۔ انسان کی اصل
نظریہ نمبر:۔ ﴿27﴾۔  ﴿انسان کی اصل روح ہے  تمام تر اجسام کی اصل روح ہے۔ ﴾
تمامتر اجسام موت کا شکار ہو جاتے  ہیں  چاہے  وہ مادی جسم ہو یا کوئی لطیف یا لطیف ترین جسم ہو سب نفس( اجسام )مر جاتے  ہیں ( ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ) جب کہ انسان ان تمام اجسام کی موت کے  بعد بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے  ساتھ موجود رہتا ہے۔ بلکہ اجسام کی موت کے  بعد انسان کی صلاحیتوں  میں  اضافہ ہو جاتا ہے  انسان جسم میں  ہے  تو اس کا مطلب ہے  کہ وہ ایک پنجرے  میں  قید ہے۔ جسم سے  آزادی کے  بعد وہ ایسے  ہی ہے  جیسے  کہ ایک آزاد پرندہ جو اس سے  پہلے  پنجرے  میں  قید تھا۔
اجسام تو مفروضے  ہیں  مر جاتے  ہیں  جب کہ روح نہیں  مرتی!  لہذا   انسان کی اصل اس کی  روح  ہے۔ لہذا


44۔ لطیف اجسام

نظریہ نمبر:۔ ﴿28﴾۔ ﴿لہذا لطیف اجسام نہ تو روح ہیں  نہ روح کے  حصے  بلکہ یہ محض اجسام ہیں۔ نفس کے  اجسام﴾
جب کہ ماضی میں  لطیف اجسام کو یا تو روح سمجھ لیا جاتا تھا  یا روح کے  حصے۔ یہاں  ہم نے  مادی جسم کے  علاوہ لطیف اجسام کا ذکر کیا ہے اور ان کا علیحدہ علیحدہ تشخص اجاگر کرنے  کی ابتدائی کوشش بھی کی ہے  لہذا لطیف اجسام سے  مراد وہ تمام اجسام ہیں  جو مادی جسم کے  بعد روح مختلف فضاؤں  میں  تیار کرتی ہے  لہذا مادی جسم کے  علاوہ تمام تر باطنی اجسام لطیف اجسام ہیں۔ یہ روح نہیں  بلکہ جسم ہیں۔ (جب کہ روح کچھ اور شے  ہے ) جن میں  سے  ایک یا دو آج ہمارے  مشاہدے  میں  بھی ہیں  جب کہ یہاں  میں  نے  مزید اجسام کا بھی ذکر کیا ہے۔ جب کہ ماضی میں تمام تر اجسام کو لطیف اجسام کہا گیا یا ماورائی مخلوق یا باطنی مخلوق کہا گیا ہے۔ ماضی میں  ان باطنی لطیف اجسام کو روح یا روح کے  حصے  قرار دیا جا تا رہا ہے  جب کہ یہاں  ہم نے  یہ ثابت کیا ہے  کہ یہ باطنی لطیف اجسام
(1)۔  نہ تو روح ہیں۔
(2)۔  نہ ہی یہ باطنی لطیف اجسام روح کے  حصے  ہیں۔
(3)۔  یہ  تمام تر لطیف اجسام نفس ہیں۔
(4)۔  جن میں  بنیادی نفس  (AURA ) ہے۔
لہذا اب یہاں  تک پہنچ کر ہم نے  بڑی تفصیلاً وضاحت کر دی ہے  کہ نفس کوئی مفروضہ نفسانی خواہش نہیں  ہے۔ بلکہ نفس سے  مُراد اجسام ہیں لطیف اجسام اور ہم نے  نفس کی شناخت کے  علاوہ اس کے  دیگر اجسام کی بھی بالترتیب وضاحت کر دی ہے۔ اور آج یہاں  نفس سے  متعلق تمام تر مفروضات کی نفی کر کے  نفس کی اصل تعریف اور تعارف پیش کر دیا ہے۔
اب نفس کی تعریف ہو چکنے  کے  بعد انسانی باطن کی درج، ذیل صورت ہمارے  سامنے  آ رہی ہے۔


45۔ انسانی باطن

نظریہ نمبر:۔ ﴿29﴾۔ ﴿باطن مجموعہ ہے  روح  و  نفس کا۔  یعنی روح  +  نفس  (تمام تر لطیف اجسام )=باطن﴾
یعنی انسان کا ظاہر اس کا مادی جسم ہے  تو اس کا باطن روح و نفس پہ مشتمل ہے۔
ظاہری مادی جسم سے  تو ہم واقف ہی ہیں  جب کہ کچھ روحانی لوگ ماضی میں  انسانی باطن کا بھی مشاہدہ کرتے  آئے  ہیں اور وہ باطن سے  لاعلمی کے  سبب ہر لطیف جسم کو روح قرار دیتے  رہے  ہیں۔ ہر جسم کو وہ روح کہنے  کے  بجائے  ایک جسم کو روح اور باقی اجسام کو روح کے  حصے  کہتے  رہے۔
جب کہ یہاں  ہم نے  یہ وضاحت کی ہے  کہ جنہیں  ماضی میں  روح یا روح کے  حصے  بتایا جاتا رہا ہے  وہ روح اور اس کے  حصے  نہیں ہیں  روح تو کوئی اور ہی شے  ہے  جب کہ یہ تمام تر لطیف اجسام ہیں  جنہیں  نفس کہا جاتا ہے  یا پھر یوں  کہنا چاہیے  کہ ان تمام تر لطیف اجسام کا اصل نام نفس ہے۔ ظاہری مادی جسم سے  تو ہم واقف ہیں اب باطنی لطیف اجسام کی بھی یہاں  ہم نے  تعریف اور تعارف پیش کر دیا۔  لہذا اب مجموعی انسان کی تعریف کچھ یوں  سامنے  آئی ہے۔


46۔ مجموعی انسان

نظریہ نمبر۔ ﴿30﴾۔ انسان کا ظاہر و باطن۔ یعنی مجموعی انسان
                         ۱۔ ظاہر=مادی جسم
                        ۲۔ باطن =نفس (تمامتر اجسام)+روح
 لہذا انسان مجموعہ ہے  :                 ماد ی جسم +روح+نفس (تمامتر اجسام)=انسان
 مادی جسم کو تو ہم آج سائنسی حیثیت میں  شناخت کرتے  ہیں۔
 نفس کی بھی یہاں  ہم نے  انفرادی شناخت قائم کر دی۔
 لیکن ابھی یہ جاننا باقی ہے  کہ روح کیا ہے۔ ماضی میں  نفس کے  لطیف اجسام کو روح اور اس کے  حصے  تصور کیا جاتا رہا ہے  جب کہ یہ لطیف اجسام روح نہیں  نفس ہیں۔
روح تو ان تمام تر اجسام سے  الگ شے  ہے !(روح کیا ہے  اس کا ذکر آگے  آئے  گا)چلیے  فی الحال آج یہاں   اجسام کا مسئلہ تو حل ہوا۔


47۔ اجسام کا مسئلہ:


 نفس کی انفرادی شناخت تعارف اور تعریف ہو گئی چلیے  اجسام کا مسئلہ تو حل ہوا۔ ہزاروں  برس سے  لوگ اسی مسئلے  میں  الجھے  ہوئے  تھے۔ ماضی کے  ہر دور کے  لوگ تین یا سات اجسام کا تذکرہ تو کرتے  رہے اور آج بھی کرتے  ہیں  لیکن وہ کبھی بھی ان تین یا سات اجسام کا مطلب نہیں  سمجھے  وہ ان اجسام کا مشاہدہ تو کر رہے  تھے  لیکن ان تین یا سات اجسام کے  چکر میں  بُری طرح الجھ گئے  تھے اور اپنی اس اُلجھن کو آواگون جیسے  قدیم نظریے  سے  تشبیہ دے  کر سُلجھانے  کی کوشش کر رہے  تھے۔
ماضی میں  وہ ہر لطیف جسم کو روح اور اس کے  حصے  کہتے  رہے  ہیں۔
لیکن وہ یہ بھی فیصلہ نہیں  کر پائے  کہ ان اجسام میں  سے  روح کونسی ہے۔
 اور وہ یہ بھی جان لیتے  ہیں  کہ ان  اجسام میں  سے  روح کوئی بھی نہیں۔
  اسے  علیحدہ سے  بھی جان لیتے  ہیں اور جان لینے  کے  بعد پھر روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کرتے۔
 پھر لطیف اجسام کو ہی روح اور روح کے  حصے  کہتے  ہیں۔
 روح کو ناقابل تقسیم بھی کہتے  ہیں  ساتھ ہی اسے  حصوں  میں  بھی تقسیم کرتے  ہیں                      
 اور جب خود ہی اپنی تضاد بیانیوں  کی لپیٹ میں  آ جاتے  ہیں  تو کہہ دیتے  ہیں  کہ یہ جو روح ہے  دراصل معمہ ہے  جو حل طلب نہیں۔
ماضی اور حال کا انسان اپنے  باطن کا مشاہدہ تو کرتا رہا لیکن کبھی بھی اسے  سمجھ نہیں  پایا اور نہ ہی سمجھا پایا اور لطیف اجسام کے  چکر میں  ہی الجھا رہا لہذا لطیف اجسام کو روح بھی کہتا رہا اور روح کے  حصے  بھی اور ان اجسام کو انسان کے  دوسرے  جنموں  سے  بھی تشبیہ دیتا رہا۔
لہذا یہاں  ہم نے  یہ اجسام کی گتھی سلجھائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے  کہ :۔
 ۱۔ تمام لطیف اجسام روح نہیں  ہیں۔
۲۔ نہ ہی یہ روح کے  حصے  ہیں۔
۳۔ بلکہ مادی جسم کی طرح انسان کے  مزید باطنی لطیف اجسام بھی ہیں۔
۴۔ تمام لطیف اجسام روح کے  میڈیم یا لباس ہیں۔
۵۔ اور انسان اپنے  ان مختلف قسم کے  اجسام کے  ذریعے  پوری کائنات اور اس کے  نوع بہ نوع سیاروں  سے  مربوط ہے۔
 ۶۔ تمام اجسام فانی ہیں  (مر جاتے  ہیں )۔
۷۔ نفس مذہبی اطلاع ہے  جس کی آج یہاں  ہم نے  صحیح تعریف کر دی ہے۔
۹۔ لہذا تمام اجسام نفس (لطیف اجسام +مادی جسم) ہیں۔ اور
۱۰۔ تمام تر اجسام کا اصل نام نفس ہے  جو مذاہب نے  ان باطنی اجسام کو بخشا تھا۔
 ۱۱۔ اجسام کی اصل روح ہے۔
۱۲۔ تمام تر اجسام زندگی کا سبب نہیں۔
۱۳۔ جسم کی اطلاعات کا سبب اجسام نہیں۔
 ۱۴۔ انسانی باطن مجموعہ ہے۔
روح + نفس (تمام لطیف اجسام) کا
  ۱۵۔ جب کہ انسان مجموعہ ہے۔
مادی جسم  +  روح  +  نفس (تمام اجسام )
لہذا یہاں  اجسام کا مسئلہ حل ہوا نفس کی شناخت ہو گئی لیکن ابھی انسان کی تعریف مکمل نہیں  ہوئی ابھی محض نفس کی شناخت ہوئی ہے   ابھی روح کی شناخت باقی ہے۔ اور روح کی شناخت اور تعریف اور تعارف کے  بغیر انسان کی تعریف مکمل نہیں  ہو سکتی۔
آیئے  روح کی شناخت قائم کر کے  اس کی تعریف اور تعارف کرتے  ہیں۔

1 comment:

  1. قابل صد احترام محترمہ روبینہ صآحبہ

    السلام و علیکم

    یقین جانیئے اس موضوع پر آپ کی تحریر سے زیادہ سادہ ۔ سمجھ میں آ جانے والی اور لوجیکل تحریر آج تک نہیں پڑھی تھی ۔ جتنی تعریف کروں کم ہے ۔ آپ کے لئے بے شمار دعائیں ۔

    ڈاکٹر نگہت نسیم

    ReplyDelete