Translate

15--روح (SOUL--(Spirit



باب نمبر۴: روح (SOUL)


      قُل الرّ وح مِن اَمرِ رَبّی                                 
کہہ دیجیے  روح رب کا حکم ہے۔


48۔ مختلف ادوار میں  روح کی علمی حیثیت


اگرچہ روح کو غیر مرئی کہہ کر علم کی حدود سے  خارج کر دیا گیا تھا پھر بھی مختلف ادوار میں  روح کا تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ روح پر ہر دور میں  فکری، تجرباتی، تحقیقی ہر طرح کا بہت کام ہونے  کے  باوجود روح کی تعریف یا شناخت تک نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے  کہ روح کا علم کسی بھی دور میں  علمی میدان میں  نہ اُتر سکا لہذا یہ تذکرہ فقط عقائد تک محدود رہ گیا۔ علمی حیثیت میں  پہلی دفعہ روح کو یونانی فلسفیوں  نے  متعارف کروایا۔
(۱)۔ یونانی فلسفی
لیکن یونانی فلسفیوں  کی تعریفیں  ( جن کا ابتدائی صفحات میں  تذکرہ موجودہ ہے  ) پڑھنے  کے  بعد اندازہ ہوتا ہے  کہ
(1)  ان کی تعریفیں  عقیدوں  سے  متاثرہ تعریفیں  ہیں۔
(2)  یا وہ یہ احساس رکھتے  تھے  کہ بدن کے  علاوہ بھی کوئی شے  ہے  جو بدن کی زندگی کا سبب ہے۔
(۳)۔ افلاطون کی تحریروں  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ و ہ کچھ روحانی مشاہدات اور تجربات بھی رکھتے  تھے۔
ارسطو  ( 322 - 384ق م)  نے  علم الروح (Psychology)   کے  نام سے  جو کتاب لکھی تھی وہ بھی ظاہر ہے  اسی قسم کے  نظریات یا عقیدوں  پر مبنی ہو گی لیکن اب تو اس کتاب یا کتابچے  کا فقط تذکرہ ہی باقی ہے  (وہ کتاب اب موجود نہیں )۔ یعنی یونانی فلسفی روح کا بہت ہی ابتدائی عقلی احساس رکھتے  تھے  کہ کوئی روح بھی ہے  جو بدن کی زندگی ہے ، وہ روح کیا ہے؟  اس کے  اعمال و افعال کیا ہیں۔؟ وہ نہیں  جانتے  تھے۔ روح سے  اس مختصر تعارف کی وجہ ان کے  عقیدے  رہے  ہونگے  یا وہ فکری و عقلی احساس جو ہر صاحبِ عقل کو سوچنے  پر مجبور کرتا ہے  بہر حال ہم اس ابتدائی عقلی احساس کو روح کا علم قرار نہیں  دے  سکتے۔ یونانی فلسفی روح کی تعریف یا شناخت نہ کر سکے  لیکن ان کا یہ کام روح کے  علم کی طرف ایک راست قدم ضرور تھا۔ ہاں  اگر یونانیوں  کے  آغاز کردہ اس علم پر مزید علمی پیشقدمی ہوتی تو پھر یونانیوں  سے  آغاز کر کے  یہ علم آج اپنے  عروج پر ہوتا۔ مگر افسوس ایسا ہو نہیں  پایا۔ یونانی فلسفیوں  کے  روح سے  متعلق اس مبہم عقلی احساس کو ان کے  بعد آنے  والے  مادہ پرستوں  نے  جھٹلا دیا۔ یونانی فلسفیوں  کے  بعد آنے  والے  یہ مادہ پرست تھے  سائنسدان۔
(۲)۔ سائنسدان
یونانی فلسفیوں  کے  بعد منظر عام پر آئے  سائنسدان۔ اور یہ سائنسدان یونانی فلسفیوں  کی علمی فکر سے  پھوٹے   تھے۔ ان سائنسدانوں  نے  یونانی فلسفیوں  کی فکر پر تجربات کی بنیاد رکھی۔ ان سائنسدانوں  نے  یونانی فلسفیوں  کے  روح سے  متعلق اپنی پسند کے  نظریات تو رکھ لئے  جنہیں  انہوں  نے  ذہن، کردار، نفس جیسے  نئے  نئے  عنوانات کے  ساتھ پیش کیا اور ان نظریات کی اصل ماخذ یعنی روح کا انکار کر دیا۔ اور صرف اتنا ہی نہیں  ان سائنسدانوں  نے  روح کو غیر مرئی قرار دے  کر روح کو علم کی فہرست سے  ہی خارج کر دیا۔ یعنی روح کے  اعمال و افعال کو تو دیگر ناموں  سے  قبول کر لیا اور روح کے  اعمال و افعال سے  روح کو خارج کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ روح غیر مرئی ہے  تجربے  کی زد میں  نہیں  آتی لہذا اس کا علم سے  تعلق نہیں۔ انہوں  نے  ہر حقیقت کی بنیاد تجربے  کو قرار دیا اور جو سامنے  کی حقیقت بھی ان کے  ناقص تجربات کی زد میں  آنے  سے  رہ گئی اسے  انہوں  نے  جھٹلا دیا۔ سائنسدانوں  کی اس سطحی سوچ نے  روح کے  علم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اسی رویہ سے  روح کے  علم پر صدیوں  کی گرد چڑھ گئی۔ لہذا سائنس دانوں  نے  یونانی فلسفیوں  کے  روح سے  متعلق نظریات کو
۱۔ دیگر عنوانات مثلاً ذہن، کردار، نفس، شعور، لاشعور اور سائیکالوجی وغیرہ کے  ساتھ پیش کیا۔
۲۔ اور روح کے  ان اعمال و افعال سے  روح کو خارج کر دیا۔
(۳)۔ مسلمان
مسلمانوں  نے  پہلے  تمام ادوار کے  مقابلے  میں  روح پر سب سے  زیادہ سیر حاصل اور سب سے  بہترین فکری و عملی بحث کی انہوں  نے  پہلی مرتبہ نہ صرف روح، نفس اور جسم کا غیر سائنسی دور میں  سائنسی انداز میں  تذکرہ کیا لیکن یہ ابتداء تھی اس کام کو آگے  بڑھانا چاہیے  تھا لیکن مسلمانوں  نے  اس کام کو علمی یا عملی تجرباتی سطح پر لانے  کی کوئی کوشش نہیں  کی اگر کرتے  تو یہ معاملہ اب تک سلجھ چکا ہوتا۔ اگرچہ مسلمانوں  کا کام بہترین کام ہے۔ لیکن یہ کام کوئی علمی پیشرفت نہیں بلکہ انتہائی ابتدائی کام ہے۔ اور تمام کاموں  کی طرح بے  نتیجہ کام ہے۔
(۴)۔ جدید تحقیقات
انیسویں  صدی میں  روح پھر ابھر کر سامنے  آئی اور روح پر بھرپور طریقے  سے  سائنسی انداز میں  تحقیق و تجربات اور تجزیات ہوئے۔ اور یہ تحقیق و تجربات کرنے  والے  سائنسدان، فلاسفرز، ڈاکٹر اور محققین ہیں  لہذا روح کو وہم  یا غیر مرئی کہنے  والے  ہی آج روح پر باقاعدہ علمی فکری سائنسی جانچ پڑتال لیبارٹریوں  میں  کر رہے  ہیں۔ لیکن سینکڑوں  برسوں  کی تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا ہے  کہ انسان کے  باطن کی دریافت تو ہو گئی یہ تو ثابت ہو گیا کہ کوئی روح بھی ہے   AURA  کی بھی تصویر کشی کر لی گئی۔ لیکن ابھی تک سائنسدان اس جہان باطن سے  متعارف نہیں  ہو پائے۔ روح کیا ہے ؟  ابھی تک یہ معمہ حل نہیں  ہوا روح کی نہ تو کوئی انفرادی شناخت ہو سکی ہے  نہ ہی کوئی حتمی تعریف سامنے  آئی ہے۔ اگرچہ آج روحانی واقعات و تجربات پر بے  تحاشا تحقیق و تجربات کئے  جا رہے  ہیں  روح پہ بے  تحاشا مواد موجود ہے  لیکن آج بھی ماضی کی طرح جدید محقق یہی کہتے  نظر آ رہے  ہیں کہ روح کی تعریف ممکن نہیں۔ آخر ایسا کیوں  ہے   یہ جاننے  کے  لئے  ہم مختلف ادوار میں  کی جانے  والی روح کی مختلف اور بہترین تعریفوں  کا خلاصہ پیش کرتے  ہیں۔ (جن کا تفصیلی تذکرہ ابتدائی صفحات میں  ہو چکا ہے 


49۔ روح کی تعریفیں


کچھ لوگوں  نے  روح کی تعریف کرنے  کی کوشش بھی کی ہے اور یہ کوشش بہت ہی مختصر ہے۔ لہذا ہزاروں  برسوں  کے  کام سے  مجھے  روح کی چند ہی تعریفیں  ملیں  ہیں۔ اور ان چند روح کی تعریفوں  میں  سے  زیادہ تر تو روح کی تعریفیں  ہیں  ہی نہیں۔ ہاں  یہ تعریفیں  محض روح کی تعریف کی کوششیں  ضرور ہیں۔ مادی جسم کے  علاوہ بھی کچھ ہے  کیا اتنا کہہ دینا اتنا سمجھ لینا کافی ہے  ہرگز نہیں۔ روح، سپرٹ، ہمزاد، AURA   وغیرہ وغیرہ۔ کیا اتنا کہہ دینا کافی ہے۔ کیا یہ روح کی تعریف ہے؟  ہرگز نہیں۔ اگر ہم یہ کہیں  کہ ہزاروں  برس کے  ادوار میں  جو روح کی چند مختصر تعریفیں  کی گئی ہیں  ان تمام تر تعریفوں  میں  سے  ایک آدھ تعریف صحیح تعریف بھی ہے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے  ان میں  سے  وہ ایک صحیح تعریف کونسی ہے۔ اتنی متضاد تعریفوں  میں  سے  صحیح تعریف کا اندازہ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور ایسا کون کرے  گا۔ ایسا صرف وہی کر سکتا ہے  جو روح کا نہ صرف علم رکھتا ہے  بلکہ روح کو پورے  طور پر شناخت کرنے  کی اہلیت رکھتا ہے  لیکن روح کے  علم کی پوری تاریخ کا جائزہ لے  لیجئے  ایسا کوئی بھی نہیں  عام لوگ تو جانتے  ہی نہیں  کہ کوئی روح بھی ہوتی ہے۔ جو جانتے  ہیں  وہ اس کا مشاہدہ نہیں  کرتے  جو مشاہدہ کرتے  ہیں  وہ اسے  روح کے  طور پر شناخت نہیں  کرتے  جو اسے  روح کے  طور پر شناخت کرتے  ہیں  وہ یہ کہتے  ہیں  یہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں  یا اس روح کی تعریف کے  لئے  ہمارے  پاس الفاظ نہیں۔ اگر میں  یہ کہوں  کہ ان تمام تعریفوں  میں  سے  ایک تعریف روح کی تعریف ہے  بھی تو وہ تعریف دراصل تعریف کے  معیار پر بھی پوری نہیں  اُترتی۔ لہذا اگر ہم یہاں  یہ کہہ بھی دیں  کہ فلاں  فلسفی نے  روح کی صحیح تعریف کی تھی تو یہ ماضی کی ایک آدھ صحیح تعریف محض روح کی تعریف کی انتہائی ابتدائی کوشش ہے۔ لیکن یہ انتہائی ابتدائی  کوشش  نہ تو روح کی تعریف ہے  نہ ہی یہ کوئی روح کا علم کہلا سکتی  ہیں۔
لہذا یہ تمام تر تعریفیں محض روح کی تعریف کی انتہائی ابتدائی کوششیں  ہیں  جو ظاہر ہے  کامیاب نہیں رہیں۔  
یعنی ہزاروں  برسوں  سے  روح پر ایک مخصوص طبقے  میں  کام ہو رہا ہے  مشاہدات و تجربات بھی کئے  جاتے  ہیں  حتیٰ کی روح کا مشاہدہ و تجربہ بھی کیا جاتا ہے  لیکن حیرت انگیز طور پر اسے  دیکھنے  جاننے  کے  باوجود آج تک کوئی اس کی تعریف تک نہیں  کر سکا۔ روح کی یہ ہزاروں  برس کی تعریفیں  یہاں  ہم نے  جمع کی ہیں  آئیے  ذرا جائزہ لیتے  ہیں۔
(1)۔  انیکسا غورث کا خیال ہے  کہ روح ایک ایسی قوت ہے  جو (حیوانات و نباتات) ہر جاندار اشیاء کے  درمیان جاری و ساری ہے۔
(2)۔  دمقراط نے  کہا روح چھوٹے  چھوٹے  ناقابل تقسیم ذروں  پر مشتمل ہے 
(3)۔  ارسطو نے  کہا کہ یہ ایک ایسی اکائی ہے  جو فی ذاتہ مکمل ہے
 (4)۔ برطانیہ کے  رابن فرامین نے  روح کو متحرک یادداشت قرار دیا۔
(5)۔ ڈبلیو ایچ مائرز کے  خیال میں  جسمانی شخصیت کے  علاوہ بھی ایک شخصیت ہے  جو مادی جسم سے  زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے  یہ موت کے  بعد بھی برقرار رہتی ہے۔
(6)۔ ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے  کہا کہ انسان محض مادی جسم نہیں  بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے  جسے  نفس SOUL، یا ادراک جو بھی کہیں  وہ ہے  ضرور۔
 (7)یونانیوں  نے  روح کو ذہن قرار دیا۔ یونانی فلسفیوں  نے  دو روحوں۔    (i)روح حیوانی اور    (ii)روح انسانی کا تذکرہ  بھی کیا۔
(8)۔ مصر کے  قدیم باشندوں  نے  بع اور کع کا تذکرہ کیا۔
(9)۔ بدھسٹ، سکھ، ہندو  روح کو رب کا حصہ قرار دیتے  ہیں اور روح کو آتما اور رب کو پرماتما کہتے  ہیں۔
(10)۔ مصر کے  قدیم باشندوں  نے  بع اور کع کا تذکرہ کیا۔
(11)۔ ۔ قدیم چینیوں  نے  پو   P.O اور ہن   HUNکا ذکر کیا۔
(12)۔  یہودیوں  نے  تین روحوں   (i   NEFESH، (ii   RUACHاور  (iii)    NESHAMAکا ذکر کیا
(13)اکثر مفکرین مثلاً ارسطو، امام غزالی، خواجہ شمس الدین عظیمی، شاہ ولی اللہ وغیرہ نے  روح کو تین حصوں     (i) روح حیوانی  (ii)  روح انسانی  (iii)  روح اعظم میں  تقسیم کیا۔
(14)۔ امام مالک، ابو اسحق نے  کہا کہ یہ جسم ہی کی طرح مکمل نورانی صورت یا جسم لطیف ہے۔
(15)شاہ ولی اللہ نے  روح کوروحِ یقظہ، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور نورانی نقطہ کہا
16)۔ علامہ حافظ ابن القیم نے  نفس اور روح کو ایک ہی شے  قرار دیا۔
 (17)۔ داتا گنج بخش نے  کہا کہ روح ایک جنس اور  باقی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے۔
(18)۔ الکندی نے  کہا روح ایک سادہ غیر فانی و غیر مرکب ہے۔ ۔
  (19)۔  کسی نے  روح کو لاشعور یا تحت لاشعور قرار دیا۔
(20)۔  کسی نے  اسے  ایتھری جسم یا اسٹرول پروجیکشن کہا۔
(21)۔  کسی نے  روح کو ماورائی مخلوق قرار دیا۔
(22)۔ کسی نے  کہا کہ مرنے  کے  بعد شخصیت کا کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے  جو ان کے  خیال میں  روح یا  (Spirit)  ہے۔
کسی نے  اسے  روشنی یا نور کہا۔ کسی نے  اسے  برقی رو یا کرنٹ کہا۔ کسی نے  کہا روح جوہر ہے  جس کا تعلق بدن سے  ہے
 (23)۔  سائنسدانوں  نے  بھی کر لین فوٹوگرافی سے  ایک لطیف وجود کی تصویر کشی کی ہے  جسے  انہوں  نے   " AURA "  کہا ہے۔ اور  AURA  کے  اندر مزید سات اجسام   Subtle Bodiesکا اور چکراز کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔


50۔ اب آپ کی کیا رائے  ہے؟


یہاں  ہم نے  مختلف ادوار کے  مشہور و معروف مفکروں  سائنسدانوں  محققوں  کی رائے  پیش کی۔  یہ تمام روح کی رنگ برنگی مختلف اور متضاد تعریفیں  پڑھنے  کے  بعد اب، روح کے  بارے  میں  آپ کی کیا رائے  ہے۔؟ ظاہر ہے  کچھ بھی نہیں  اتنی رنگ برنگی اور متضاد تعریفیں  پڑھنے  کے  بعد ظاہر ہے  سمجھ تو کچھ نہیں  آ سکتا ہاں  انسان الجھن کا شکار ضرور ہو جاتا ہے اور یہ سوچنے  پر مجبور ہو جاتا ہے  کہ آخر
 روح ہے  کیا؟  ہے  بھی یا نہیں۔
 یہ تو بلآخر اس کی سمجھ میں  نہیں  آتا لیکن اس الجھن کے  بعد  روح کے  بارے  میں  ڈھیروں کتابیں اور تفصیلات کے  مطالعے  کے  بعد بھی یہی سمجھ میں  آتا ہے  کہ مادی جسم کے  علاوہ بھی کچھ ہے  جسے  انسان پھر بلآخر مجبور ہو کر اپنے  عقیدے  ہی کے  مطابق نام دینے  پر مجبور ہے۔ لہذا کبھی وہ اسے  روح کہتا ہے  کبھی سپرٹ کبھی  AURA  کبھی نورانی وجود کبھی ہمزاد کبھی ایتھری جسم کبھی آسٹرل باڈی کبھی کرما کبھی چکراز وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ!


51۔ تمام تعریفوں  کا نتیجہ


آج تک کی جدید تحقیق اور صدیوں  پر مشتمل تمام تر تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا روح کا مطالعہ کر کے  صرف آپ ہی نہیں  الجھے  حد تو یہ ہے  جنہوں  نے  روح پر تجربات کئے  ہیں  جنہوں  نے  مشاہدے  کئے  ہیں  جنہوں  نے  سویوں  برس کی تحقیق لیبارٹریوں  میں  کی ہے  وہ بھی اسی کشمکش کا شکار ہیں جس کا کہ آپ۔ صدیوں  برس کی تحقیق اور آج کے  برس ہا برس کے  تجربات و مشاہدات کے  بعد  ماہرین، محققین، سائنسدانوں  کی بھی وہی رائے  ہے  جو ابتداء کے  یونانیوں  کی تھی یعنی مادی جسم کے  علاوہ بھی کچھ ہے اور یہ کچھ کیا ہے ؟  یہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے  جس پہ کہ سبھی کی متفقہ رائے  یہ ہے  کہ اس  روح کی تعریف ممکن نہیں۔ لہذا صدیوں  کی تمام تر تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا کہ روح کی تعریف ممکن نہیں۔


52۔ روح کی تعریف ممکن نہیں


روح پر ہزاروں  برسوں  سے  کام ہو رہا ہے۔ ہر دور کے  مخصوص روحانی لوگ روح کا مشاہدہ بھی کرتے  آئے  ہیں۔ اور آج بھی روح کا تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے  لوگ موجود ہیں  لیکن آج تک نہ تو روح کی انفرادی شناخت ممکن ہوئی ہے  نہ ہی اسکی کوئی تعریف ہی سامنے  آ سکی ہے۔ لہذا
۱۔ عام لوگ تو روح کو جانتے  ہی نہیں۔
 ۲۔ جو جانتے  ہیں  وہ اسے  انفرادی حیثیت میں  شناخت نہیں  کرتے۔
 ۳۔ جو شناخت کرتے  ہیں  وہ بھی اس کی تعریف نہیں  کر سکتے۔
۱۸۸۲ء  میں  لنڈن میں  ایک کمیٹی بنی اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ روح اور اس کے  متعلقہ مسائل پر بحث کی جائے۔ اس کمیٹی میں  یورپ کے  ممتاز علماء اور سائنسدان شامل تھے۔ یہ کمیٹی تیس سال قائم رہی اور اس مدت میں  اس نے  حاضراتِ ارواح کے  مختلف واقعات کی جانچ پڑتال کی اور چالیس ضخیم جلدوں  میں  اپنے  تاثرات کو شائع کیا۔ چالیس سال کی چھان پھٹک کے  بعد کمیٹی اس نتیجے  پر پہنچی کہ انسان کی جسمانی شخصیت کے  علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے  جو گوشت پوست کے  جسم سے  کہیں  زیادہ مکمل اور اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہی اعلیٰ و ارفع شخصیت موت کے  بعد قائم اور برقرار رہتی ہے۔
مثلاً ڈبلیوایچ مائزر (Frederic. W.H. Myers)   نے  اپنی کتاب
  Human Personality and its survival of bodily death  میں  سینکڑوں  پراسرار واقعات، حادثات، تجربات کا سائنسی تجزیہ کرنے  کے  بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے  بعد انسان کا وہ حصہ باقی رہتا ہے  جسے  سپرٹ (Spirit)   کہتے  ہیں۔
ڈاکٹر ریمنڈ موڈی (1975)   نے  اپنی کتاب لائف آفٹر لائف میں  مر کر زندہ ہونے  والے  ڈیڑھ سو افراد کے  بیانات پر سائنسی تجربات و تجزیات کے  بعد نتیجہ اخذ کیا کہ انسان محض مادی وجود نہیں  بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے  جسے  نفس، Soul   یا ادراک جو بھی کہیں  وہ ہے  ضرور۔
برطانیہ کے  رابن فرامین کہتے  ہیں   ان تجربات میں  کیسی ہی غلطی کیوں  نہ معلوم ہوتی ہو انہیں  رد نہیں  کیا جا سکتا۔ وہ ہزاروں  لوگ جو روحانی تجربات سے  گزرنے  کا دعویٰ کرتے  ہیں سب خبطی یا جھوٹے  تو نہیں  ہو سکتے  صرف برطانیہ میں  ہر دس میں  سے  ایک شخص کو اس طرح کے  تجربات ہوئے  ہیں۔ روحیں  کیا ہیں ؟  یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ میرا خیال ہے  کہ وہ ایک متحرک یادداشت ہیں اور روح نہیں  ہیں۔ یہ ایسی یادداشت ہیں  جو انسان کے  مرنے  کے  بعد رہ جاتی ہیں۔ بعض صورتوں  میں  ایسے  لوگ جو روحانی صلاحیتوں  کے  مالک ہیں  انہیں  دیکھ یا سن سکتے  ہیں۔ جب یہ سمجھا جاتا ہے  کہ کوئی روح کسی شخص کو خطرے  سے  بچا دیتی ہے  یا اسے  کوئی اہم معلومات مہیا کرتی ہے  تو یہ اس شخص کا تحت الشعور ہوتا ہے  جو یہ تصور پیدا کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی کے  مطابق روح ہمیشہ پردے  میں  رہتی ہے اور خود کو کسی نہ کسی لباس یا حجاب میں  ظاہر کرتی ہے۔ روح کے  بارے  میں  جتنے  تذکرے  ملتے  ہیں اور جن لوگوں  نے  روح کی تعریف بیان کی ہے  انہوں  نے  روح کو کسی نہ کسی شکل و صورت میں  ہی بیان کیا ہے  مثلاً روشنی، نور  وغیرہ وغیرہ روشنی بھی ایک شکل ہے  نور کی بھی  ایک تعریف ہے۔ فی الواقع روح کیا ہے؟  اس کی ماہیت کیا ہے؟  اس کو واضع طور پر بیان کرنے  کے  لئے  ہمارے  پاس الفاظ نہیں  ہیں۔
آج لاکھوں  لوگ مُراقبہ و مشاہدہ کرتے  ہیں  لہذا مشاہدہ کرنے  والے  بھی جب روح کا مشاہدہ کرتے  ہیں  تو یہی کہتے  ہیں  کہ یہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں۔ برسوں  کی فکر برسوں  کی تحقیق برسوں  کے  تجربات و مشاہدات کا نتیجہ کیا نکلا؟  مشاہدوں  تجربوں  کے  بعد بڑی سوچ و بچار کے  بعد بلآخر سب فلسفیوں  سب سائنسدانوں سب روحانی عالموں  کا متفقہ فیصلہ یہی ہے  کہ
یہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں۔ !



53۔ روح کی تعریف کیوں  ممکن نہیں


روح جو ہم خود ہیں کیا ہم خود کو نہیں  جان سکتے۔؟ کیا ہماری اصل ہماری روح کی یعنی ہماری اپنی تعریف ممکن نہیں۔؟روح کی تعریف عین ممکن ہے  نا ممکن کا لفظ بے  کار ہے۔ سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے  کہ آج تک روح کی صحیح تعریف کا اور خود روح کا تعین نہیں  ہو سکا۔ آئیے  یہ جاننے  کی کوشش کیجیے  کہ آج تک روح کی تعریف کیوں  نہیں  ہو سکی۔
 اس کی سب سے  بڑی وجہ یہ ہے  کہ آج تک روح پر تحقیق و تجربات کرنے  والوں  نے  روح کو اس کے  واضع انفرادی تشخص کے  ساتھ کبھی شناخت ہی نہیں  کیا صدیوں  سے  روح پر تحقیق کرنے  والوں  نے  کبھی روح کی تعریف کی ہی نہیں  وہ مختلف اجسام اور ہیولوں  کو روح کے  طور پر پیش کرتے  رہے  ہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ وہ روح کا علم رکھتے  ہی نہیں  تھے  روح کو جانتے  ہی نہیں  تھے  سویوں  برس کے  لیبارٹریوں  میں  تجربات اور مشاہدات کے  بعد بھی وہ روح کو شناخت کر ہی نہیں  پائے۔ روح کی تمام تعریفوں  میں  چند تعریفیں  ایسی ہیں  جو صحیح ہیں  قابل غور ہیں  لیکن ان انتہائی ابتدائی چند الفاظ کو ہم روح کا علم یا روح کی تعریف نہیں  کہہ سکتے
روح کی تعریف آج تک کیوں  نہیں  ہو سکی کیا غلطی کرتے  رہے  ہیں روح پر تجربات کرنے  والے  آج ہم اس کی نشاندہی کرتے  ہیں۔ انیسویں  صدی کے  بعد روح پر باقاعدہ سائنسی بنیادوں  پر لیبارٹری میں  بہت کام ہوا ہے  لیکن چونکہ روح مشاہدے  میں  نہیں  لہذا یہ بنیادی غلطیاں  سبھی کرتے  رہے  ہیں۔ وہ بنیادی غلطیاں  مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ کسی نے  روح کو انفرادی حیثیت میں  شناخت نہیں  کیا۔ لہذا وہ جانتے  ہی نہیں  تھے  کہ روح کیا ہے اور روح سے  اسی لاعلمی کے  سبب 
۲۔ پچھلے  تمام محقق انسان کے  باطنی لطیف اجسام یعنی نفس کو روح کے  طور پر پیش کرتے  رہے۔
اگرچہ وہ روح کو جسمِ لطیف کہنا چاہتے  تھے  لیکن درحقیقت وہ اجسام کے  چکر میں  بُری طرح اُلجھ گئے۔ !لہذا یہاں  ہم نے  دو غلطیوں  کی نشاندہی کی ہے۔
۱۔ روح کی شناخت۔
۲۔ اجسام کا چکر۔

روح کی شناخت
 روح کی آج تک انفرادی شناخت تو نہ ہو سکی لیکن اس بے  شناخت فرضی روح کے  لئے  مختلف اقوام میں  مختلف نام ضرور رائج ہیں آیئے  ان بہت سارے  ناموں  میں  سے  روح کو اور اس کے  اصل نام کو شناخت کریں


54۔ روح کے  نام


بع، کع، ذہن یا روح، نفس، روح حیوانی، روح انسانی، روح اعظم،  NEFSH،  RUACH،  NESHAMA،  SPIRIT، ، SELF، JIVA، ATMAN یا آتما  SOUL قدیم یونانی اسی لفظ کو زندہAlive))کے  لئے  استعمال کرتے  تھے  لہذا ویسٹرن فلاسفرز کے  خیال میں  بھی لفظ   SOULاور  Aliveness  ہم معنی ہیں۔
         پو  PO، ہنHU، اورا  AURA، سبٹیل باڈیز Subtle Bodies، چکرازChakras  ، جسم لطیف، جوہر، روشنی، نور، نقطہ، لاشعور، تحت لاشعور، متحرک یادداشت، ایتھری جسم، اسٹرول پروجیکشن، ماورائی مخلوق، اعلیٰ و ارفع شخصیت، برقی رو یا کرنٹ، وغیرہ  وغیرہ۔
سائنسدانوں  نے  بھی کر لین فوٹو گرافی (Karlain Photography)   کے  ذریعے  ایک روشنی کے  وجود  (AURA)  کی تصوری کشی کی ہے۔  اکثر لوگ اسے  ہی روح قرار دیتے  ہیں


 55۔ یہ سب نام کیا ہیں

(1)  کیا یہ سب روح کے  نام ہیں؟
(2)  یا یہ مختلف اجسام کے  مختلف نام ہیں، اگر یہ مختلف ہیں  تو پھر ان تمام کی انفرادی شناخت کا کیا معیار ہے ؟
(3)  یا یہ سب  نام روح کے  حصوں  کے  نام ہیں ؟
(4)  یا ان  سب ناموں  میں  سے  کوئی ایک نام روح کا ہے ؟
(5)  اگر ان میں  سے  کوئی ایک روح ہے  تو وہ کونسی ہے ؟
جو نام ہم نے  یہاں  اکھٹے  کئے  ہیں  یہ نام عموماً روح کے  بارے  میں  معلومات رکھنے  والے  روح ہی کے  لئے  مختلف زبانوں  یا عقیدوں  کے  مطابق استعمال کرتے  ہیں۔
(1)  لیکن یہ سب نام روح کے  نام نہیں  ہیں۔
(2)  ان میں  زیادہ تر نام تو روح کے  لئے  استعمال کیئے  گئے  ہیں  لیکن روح کو شناخت کیئے  بغیر۔ فرضی نام۔
(3)  یہ روح کے  حصے  بھی نہیں  ہیں  جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔
(4)  دراصل یہ انسانی باطن کے  مختلف اجسام کے  مختلف نام ہیں  جنہیں  مشاہدہ کرنے  والے  روح کے  طور پر شناخت کرتے  ہیں۔ حالانکہ یہ تمام لطیف اجسام نہ تو روح ہیں  نہ ہی روح کے  حصے۔
(5)  ان ناموں  میں  ایک آدھ نام اور ایک آدھ تعریف روح کی بھی ہے  لیکن روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کیا جاتا۔
اور ان تمام غلطیوں  کا سبب ہے  باطن سے  لاعلمی۔
ہم روح کا علم نہیں  رکھتے   لہذا اس کو شناخت نہیں  کر پاتے۔  دوسرے  ہم اپنے  باطن کا علم بھی نہیں  رکھتے  لہذا روح کے  علاوہ تمام اجسام کو بھی روح کے  طور پر شناخت کرتے  ہیں اور روح کو روح کے  طور پر شناخت ہی نہیں  کر پاتے  آج تک ان تمام ناموں  میں  سے  روح کی شناخت ممکن نہیں  ہوئی یہی وجہ ہے  کہ ہم اتنے  ناموں  میں  اسے  شناخت نہیں  کر سکتے اور اس شناخت نہ کر سکنے  کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
(1)۔  روح سے  لاعلمی۔
(2)۔  باطن سے  لاعلمی۔


56۔ باطن سے  لاعلمی


جس طرح ایٹم کے  اندر ایک وسیع جہان دریافت ہو چکا ہے اور مزید دریافتیں  جاری ہیں۔ اسی طرح اتفاقاً آج سائنسدانوں  نے  اپنے  اندر جھانک کر اپنے  باطن کا بھی مشاہدہ کر لیا ہے۔ اور وہ اپنے  اندر آباد اس وسیع جہان کو دیکھ کر حیران ہو رہا ہے   جس کی دریافت تو ہو گئی ہے  لیکن شناخت ہونا باقی ہے۔ ویسے  تو جہان باطن کا مشاہدہ کرنے  والے  ہر دور میں  موجود رہے  ہیں اور آج بھی ہیں  لیکن آج جہان باطن کی دریافت جدید سائنسی طریقوں  سے  بھی ہو گئی یعنی حجت تمام ہوئی مادہ پرستوں  کی۔ ان کی یہ ضد تھی کہ ایسی چیز کو کیوں  مانیں  جو نظر نہیں  آتی۔ بہر حال باطن کا مشاہدہ کرنے  والے  جب مشاہدہ کرتے  ہیں  تو دو غلطیاں  کرتے  ہیں
(1)   وہ باطن کے  تمام لطیف اجسام کو روح یا روح کے  حصوں  کے  طور پر متعارف کرواتے  ہیں۔
(2)   وہ ان تمام میں  سے  روح کو شناخت نہیں  کر پاتے۔
یا وہ انسان کے  لطیف اجسام کو  AURA ، چکراز، یا سبٹل باڈیز کا نام دے  دیتے  ہیں۔ یہ تمام سنگین خطائیں  ہیں۔ یعنی مشاہدہ کرنے  والے  جہان باطن کا مشاہدہ تو کر رہے  ہیں  لیکن وہ اسے  شناخت نہیں  کر پائے اور اسے  بری طرح خلط ملط کر کے  رکھ دیا ہے۔ اور سب نے  اسے  مختلف ناموں  سے  پکارا ہے  جس سے  یہ معاملہ سلجھ نہیں  رہا مزید الجھ رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ کیا یہ روح کے  یا باطن کے  جتنے  نام بیان ہوئے  ہیں  کیا انسان کے  اندر اتنے  ہی نظام کام کر رہے  ہیں اور باطن کا مشاہدہ کرنے  کے  باوجود وہی صدیوں  کے  سوال جوں  کے  توں  حل طلب ہیں کہ ان میں  سے  روح کونسی ہے  کیا یہ سب روح اور اس کے  حصے  ہیں  تو جواب ہے  نہیں۔ تو پھر یہ سب لطیف اجسام کیا ہیں ؟ اور ان تمام تر ناموں  کی اصل کیا ہے ؟مثلاً  میں  روبینہ نازلی ہوں  اگر فارسی میں  مجھے  کسی اور نام سے  پکارا جائے  عربی میں اور انگلش میں اور یعنی چالیس زبانوں  میں  مختلف ناموں  سے  پکارا جائے  یا تذکرہ کیا جائے  تو پھر یہ اندازہ کرنا محال ہے  کہ یہ تذکرہ ایک فرد کا ہے  یا 40   افراد کا اور یہ تمام چالیس تذکرے  علیحدہ علیحدہ تذکرے  تصور کیئے  جائیں  گے  جن کا باہم ربط قائم کرنا ناممکن ہے۔
یہی حال ہوا ہے  روح کا اور انسان کے  باطن کا اور ان کے  ناموں  کا۔ انسان کا باطن اور روح ایسی شے  ہے  کہ ہر ایک وجود ہر شے  کا انفرادی تشخص قائم ہونا
ضروری ہے  ہر ایک کا مخصوص نام ہونا ضروری ہے  جبھی یہ مسئلہ حل ہو گا۔
(1)۔  ابھی مسئلہ یہ ہے  کہ ہم روح کی شناخت نہیں  رکھتے  نفس کو نہیں  جانتے  باطنی اجسام کی انفرادی شناخت نہیں  رکھتے اور مزید یہ کہ ؛
(2)۔  ان تمام کے  نام ہر شخص نے  الگ الگ زبان میں  الگ الگ رکھ لئے  ہیں اور ؛
(3)۔  مزید یہ کہ ہر روح و نفس و لطیف اجسام کے  ناموں  کو ایک ہی فہرست میں   روح کے  نام کے  طور پردرج کر دیا ہے۔
 اب کرنا یہ ہے  کہ:۔
(1)۔  ہر روح، نفس و  لطیف اجسام کی الگ الگ انفرادی شناخت قائم کرنی ہے۔
(2)۔  ان کے  ناموں  یا صحیح ناموں  کا تعین کرنا ہے۔
(3)۔  ان تمام کا باہمی ربط قائم کرنا ہے۔
۔  ان تمام کی حیثیت کا تعین کر کے  ان کی صحیح تعریف اور تعارف پیش کرنا ہے۔
(5)۔  ان تمام کو مربوط کر کے  ہی مجموعی انسان کی تعریف ممکن ہو سکے  گی۔
روح اور باطنی اجسام کے  قدیم اور مخصوص نام ہیں اور ان تمام کو انفرادی و اجتماعی حیثیت میں  شناخت کر کے  ہی یہ پیچیدہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔


 57۔ اجسام کا چکر


اصل مسئلہ یہ ہے  کہ پچھلے  تمام مفکر تجزیہ نگار فلسفی روحانیت سے  وابستہ افراد حتیٰ کے  جنہوں  نے  خود روح کا مشاہدہ کیا ہے  وہ بھی مختلف اجسام کے  چکر میں  پھنس گئے  ہیں۔ وہ روح نفس اور جسم کی گتھی کو سلجھا نہیں  سکے  ہیں  اگرچہ وہ تینوں  کا تذکرہ کرتے  رہے  ہیں  کبھی وہ روح کا ذکر کرتے  ہیں  کبھی روشنیوں  کے  جسم کا کبھی نور کے  جسم کا کبھی ہمزاد کا ابھی تک وہ اجسام کی اس تکون کو سلجھا نہیں  سکے  ہیں وہ
۱۔ نہ تو ان اجسام کا کوئی باہم ربط قائم کر سکے  ہیں اور نہ ہی ان کی الگ الگ توضیح و تشریح کر سکے  ہیں  ایک طرف تو وہ تین چار یا سات اجسام لطیف کا تذکرہ کرتے  ہیں  جب کہ دوسری طرف جب وہ
 ۲۔ روح کا تذکرہ کرتے  ہیں  تو ان میں  سے  ہر جسمِ لطیف کو روح کہتے  نظر آتے  ہیں۔ جب وہ AURA   کا مشاہدہ کرتے  ہیں  تو اسے  ہی انسان کا اصل تشخص یا روح قرار دیتے  ہیں  جب وہ نورانی وجود کا مشاہدہ کرتے  ہیں  تو اسے  ہی روح قرار دیتے  ہیں۔
۳۔ اور جب روح کو دیکھتے  ہیں تو  اسے  بھی روح قرار دیتے  ہیں۔
 ۴۔ روح کو ناقابلِ تقسیم قرار دیتے  ہیں۔
۵۔ پھر لطیف اجسام کو روح کے  حصے  بھی کہتے  ہیں۔
ایسا کرتے  ہوئے  وہ  خود اپنی تضاد بیانی میں الجھ جاتے  ہیں  جب اس گورکھ دھندے  کو سمجھ نہیں  پاتے  تو کہہ دیتے  ہیں  کہ روح کی تعریف ممکن نہیں  نہ تو وہ روح کو واضع شناخت کے  ساتھ پہچان پائے  ہیں  نہ ہی وہ ان تین یا سات اجسام کی صحیح توضیح و تشریح ہی کر پائے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ روح کی صحیح تعریف نہیں  کر پاتے  جس نے  کوشش کی وہ کامیاب نہیں  ہوا اگرچہ اس نے  مشاہدہ ہی کیوں  نہ کیا ہو وہ روح کو بیان کرنے  سے  قاصر ہے۔
پہلے  تو روح و جسم کا ہی مسئلہ تھا لیکن آج روح پر تجربات کرنے  والوں  نے  روح نفس، جسم کے  علاوہ جن، فرشتے ، شیطان اور دیگر مخلوقات کو خلط ملط کر کے  فقط ایک نام دے  دیا یعنی ماورائی مخلوق۔ دراصل وہ ان تمام مخلوقات کا مشاہدہ تو کرتے  ہیں  ان پر تجربات تو کرتے  ہیں  تجزیے اور تخمینے  تو لگاتے  ہیں  لیکن حقیت یہ ہے  کہ نہ تو وہ ان تمام مخلوقات یا مختلف اجسام میں  کوئی تمیز ہی رکھتے  ہیں اور نہ ہی ان کے  پاس ان تمام مخلوقات کا کوئی علم ہے  یہی ہے  اصل مسئلہ پچھلے اور آج تک کے  تمام مفکروں  نے  سائنسدانوں  نے  تمام مخلوقات کو خلط ملط کر کے  آج اسے  ایک گھمبیر مسئلہ بنادیا ہے۔ (اب بتا کونسے  دھاگے  کو جدا کس سے  کریں )۔ وہ یہ کام تو نہیں  کر سکتے  ہاں  یہ ضرور کہہ دیتے  ہیں کہ وہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں یہ بذات خود ایک مضحکہ خیز بات ہے  کہ روح جو ہم خود ہیں ہماری تعریف ممکن نہیں۔
اب ذرا ہم بڑا زور لگا کے  بڑی کوشش کر کے  روح کو اس ماوراء کے  صدیوں  بڑے  ڈھیر سے  باہر نکالنے  کی کوشش کرتے  ہیں  ہیں ایسی ہی کوششیں  ہمیں  باقی مخلوقات کے  لئے  بھی کرنا ہوں  گی جب تک ہم کسی شے  کے  بارے  میں  جانتے  ہی نہیں کسی بھی واقعے  کا تجزیہ جانچ پڑتال تو آپ نے  کر لی لیکن آپ یہ نہیں  جانتے  کہ ڈھیروں  مخلوق میں  سے  یہ کس کی کارستانی ہے  تو یہ تجزیے  یہ جانچ پڑتال محض خیالی پلاؤ ہیں یا ہوا میں تیر چلانے  کے  مترادف دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے  کہ ابھی تک روح کی نشاندہی نہیں  ہو سکی ہے  روح کی جتنی بھی تعریفیں  ہیں  وہ سبھی غلط ہیں۔ روح کی تعریف اسی صورت میں  ممکن ہے  کہ پہلے  ہم اجسام لطیف کی صحیح تعریف کریں اور اجسام کے  گھمبیر چکر کو سلجھائیں اس کے  بعد روح کی انفرادی شناخت قائم کریں  تبھی روح کی تعریف ممکن ہے۔


58۔ اجسام کا مسئلہ حل ہو چکا :


لہذا پچھلے  صفحات میں  ہم یہ وضاحت نفس کے  عنوان  کے  تحت کر آئے  ہیں  کہ:
(1)  تمام تر لطیف اجسام روح نہیں  ہیں۔ نہ ہی یہ  لطیف اجسام روح کے  حصے  ہیں
(2)  تمام تر لطیف اجسام محض جسم ہیں  مادی جسم کی طرح۔ لیکن مادی جسم سے  مختلف۔
(3) اور تمام اجسام نفس کے  زمرے  میں  آتے  ہیں۔
آئیے  اب روح کو انفرادی حیثیت میں  شناخت کریں اور روح کی تعریف اور تعارف پیش کریں۔

روح: نئے  نظریات                                                                                                               

        سوال نمبر۔ روح کیا ہے؟
           اس سوال کا جواب نئے  نظریات کے  ذریعے  دیا جاتا ہے۔


59۔ روح کی تعریف


 بڑے  بڑے  روحانی ماہر فلسفی، دانشور روح کی تعریف سے  معذوری کا اظہار کرتے  رہے  ہیں۔ کچھ بڑے  مفکروں  کی جو روح سے  متعلق چند تعریفیں  ہمیں  میسر ہیں  وہ تعریف کے  معیار پر بھی پوری نہیں  اترتیں  نہ ہی وہ روح کی تعریفیں  ہیں۔ حتیٰ کے  آج روحانیت کے  بڑے  بڑے  ادارے  قائم ہیں، کروڑوں  لوگ ان اداروں  سے  وابستہ ہیں  مراقبہ کے  ذریعے  روح کا مشاہدہ کرنے  والے  بھی موجود ہیں لیکن یہ سب روحانیت کے  دعوے  دار بڑے  روحانی ماہرین بھی آج تک روح کی تعریف نہیں  کر پائے  کہ آخر یہ روح ہے  کیا؟
روح کیا ہے ؟  یہاں  ہم چند الفاظ میں  روح کی تعریف کریں  گے  جس کو ہم روح کا فارمولہ کہیں  گے اور پھر ہم ان چند الفاظ یعنی روح کے  فار مولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے  تب جا کر روح کی تعریف ممکن ہو گی۔


60۔ روح کیا ہے ؟

نظریہ نمبر:۔ ﴿31﴾۔   ﴿روح جسم نہیں  ہے۔ ﴾
نفس  AURA  روح نہیں  ہے۔
نور کا جسم روح نہیں  ہے۔
کوئی بھی لطیف جسم روح نہیں  ہے۔
روح جسم ہے  ہی نہیں۔
یعنی انسان کی اصل اس کی روح جسم نہیں  ہے۔
 جب کہ ماضی میں  ہمیشہ روح کو جسمِ لطیف کے  طور پر متعارف کروایا گیا ہے  جسم تو مرجاتے  ہیں  فنا ہو جاتے  ہیں اجسام کا تو نام و نشان نہیں  رہتا چاہے  وہ مادی جسم ہو یا کوئی بھی لطیف سے  لطیف جسم ہو سب فنا ہو جاتے  ہیں۔ لیکن انسان اپنی تمام تر خصوصیات، احساسات، جذبات، شخصیت سمیت جوں  کا توں  موجود رہتا ہے۔ بغیر کسی جسم کے  !  کیسے؟  کیونکر !  انسان اور جسم لازم و ملزوم ہیں۔  انسان نے  خود کو ہمیشہ مجسم ہی تصور کیا ہے  لہذا
انسان بغیر جسم کے  بھی موجود ہو سکتا ہے 
انسان کے  لیے  یہ تصور ہی ناقابل فہم ہے  کہ اس کا کوئی جسم نہ ہو اور وہ پھر بھی موجود ہو۔ یہی عجیب تصور کبھی انسان کے  ذہن میں  نہیں  سما سکا۔ یہی وجہ ہے  روح کی تعریف نہ ہو سکنے  کی لہذا جب بھی انسان نے  بغیر جسم کے  اپنا یعنی اپنی روح کا مشاہدہ کیا تو وہ روح کو دیکھنے اور پہچاننے  کے  باوجود کبھی روح کی تعریف نہیں  کر سکا۔ انسان جسم کے  بغیر روح کے  طور پر کبھی خود کو متعارف نہیں  کروا پایا۔ کیونکہ اس حقیقت کو جانتے  بوجھتے  ہوئے  بھی کبھی اس کے  ذہن نے  قبول نہیں  کیا کہ انسان جسم کے  بغیر بھی موجود ہو سکتا ہے۔
دراصل مادی جسم یا لطیف اجسام تو انسان کے  لباس ہیں پنجرے  ہیں  جن میں  یہ انسان قید ہے۔ اجسام سے  چھٹکارا پا کر ہی انسان اپنی پوری آب و تاب کے  ساتھ نمایاں  ہوتا ہے  وہی انسان جسے  ہم مادی جسم کے  روپ میں  دیکھتے  ہیں سوچتے  سمجھتے اور جانتے  ہیں  وہی مادی جسم والا انسان بغیر جسم کے  بھی جوں  کا توں  موجود ہے  اسی کو ہم روح کہتے  ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ یہ  انسان کی روح کیا ہے  جو جسم کے  بغیر بھی موجود ہے۔


61۔ روح و اجسام

نظریہ نمبر:۔ ﴿32﴾۔  ﴿پس روح و اجسام الگ الگ ہیں۔ ﴾
(1)  تمام تر لطیف اجسام نہ تو روح ہیں  نہ ہی روح کے  حصے۔
(2)  تمام تر اجسام نفس کے  زمرے  میں  آتے  ہیں  یا اجسام نفس ہیں۔
(3)  روح اجسام سے  مختلف شے  ہے۔
(4)  پس روح و اجسام الگ الگ منفرد ہیں۔
روح مادی جسم یا لطیف اجسام سے  یکسر الگ اور منفرد شے  ہے اور اجسام بھی الگ الگ اپنی انفرادیت رکھتے  ہیں۔ روح کی شناخت اور اس کی صحیح تعریف میں  سب سے  بڑی رکاوٹ ہی یہ رہی ہے  کہ روح کو اجسام لطیف کے  طور پر شناخت کیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ تمام تر اجسام مختصر المدت اور فانی ہیں۔ ان لطیف اجسام کے  مشاہدے  تجربے  کرنے  والے  ان مختلف لطیف اجسام کی کبھی کوئی واضع توضیح و تشریح نہیں  کر پائے  لہذا ان اجسام کے  چکر میں  ہی الجھ گئے  لہذا آگے  کیسے  بڑھتے۔ کیسے  روح کو شناخت کرتے  جب وہ کبھی ان مختلف النوع لطیف اجسام کا مطلب ہی نہیں  سمجھ پائے اور انہیں  ہی روح اور روح کے  حصے  قرار دے  کر خود ہی اپنی تضاد بیانی میں  الجھتے  رہے  ایک طرف روح کو ناقابل تقسیم کہہ کر پھر اس کے  تین یا سات حصے  بھی گنوا دیتے  تھے  لہذا وہ اجسام جو فانی ہیں  انہیں  روح کے  طور پر پیش کر کے  روح کی تعریف کرنے  کی کوشش کی جاتی رہی تو بھلا روح کی تعریف کیسے  ممکن تھی۔
آئیے  ماضی کے  سارے  ابہامات کو دور کر کے  روح کی تعریف کرتے  ہیں۔


62۔ روح کا فارمولہ


نمبر:ِ۔ ﴿33﴾۔ روح کیا ہے ؟  روح کی تعریف کرنے  کے  لئے  یہاں  میں  چند الفاظ میں  روح کا دس نکاتی فارمولہ بیان کرتی ہوں۔ پھر اس فارمولے  کی مسلسل وضاحت کروں گی تب جا کر روح کی تعریف مکمل ہو گی۔ لہذا روح کا دس نکاتی فارمولہ درجِ ذیل ہے۔
روح
i
نکتہ ہے
i
یہ نکتہ انرجی ہے
i
انرجی زندگی ہے 
i
زندگی مرتب پروگرام ہے 
i
مرتب پروگرام متحرک ہے 
i
حرکت ارتعاش کے  سبب ہے
i
ارتعاش ایک آواز کا ہے
i
آواز ایک حکم ہے 
i
حکم خالق کائنات کا ہے
i
یہ حکم مسلسل نشر ہو رہا ہے
                                                                          
یہاں  ہم نے  روح کی تعریف دس نکاتی فارمولے  کے  ذریعے  کی ہے 
سادہ لفظوں  میں  ہم اس دس نکاتی فارمولے  کو یا روح کی تعریف کو یوں  بیان 


کریں  گے  یا روح کی تعریف کو سادہ لفظوں  میں  بیان کرنے  کے  لئے  ہمیں  یہ کہنا ہو گا کہ
 "روح خالق کائنات کا حکم ہے  "
اب ہم اس دس نکاتی فارمولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے۔ کہ یہ روح یا یہ نکتہ کیا ہے ؟  انرجی کیا ہے ؟  زندگی کیا ہے؟  مرتب پروگرام سے  کیا مراد ہے ؟  ارتعاش کیا ہے ؟  حرکت کیا ہے ؟  آواز کیا ہے ؟  حکم کیا ہے؟  خالق کائنات کا حکم کیا ہے ؟ اور یہ خالق کائنات کا حکم کیسے  انسان کی صورت اختیار کر رہا ہے 
اس دس نکاتی فارمولے  کی مسلسل وضاحت کے  بعد انسانی کام کی تاریخ میں  پہلی مرتبہ روح کی تعریف مکمل ہو گی۔ نہ صرف روح کی تعریف ہو گی بلکہ انسان بھی کھل کر اپنے  واضع تشخص کے  ساتھ ابھر کر سامنے  آئے  گا۔
آئیے  روح کی تعریف کرنے  کے  لئے  اب اس د س نکاتی فارمولے  کی مسلسل وضاحت کرتے  ہیں۔

۱۔ روح نکتہ ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿34﴾۔ ﴿روح ایک نکتہ ہے۔ ﴾
روح ایک ایسا انتہائی چھوٹا وجود ہے  جو ہماری مادی آنکھ سے  اوجھل ہے  نکتے  سے  ہماری کیا مراد ہے اور انسان کی اصل روح کو آخر ہم نے  نکتہ کیوں  کہا ہے ؟  اس کی وضاحت ہم ایک مشہور، سادہ اور عام مثال سے  کرتے  ہیں۔
اگر آپ کسی باریک پین سے  سادہ سفید صفحے  کے  اوپر ایک نقطہ لگائیں  پھر کسی سے  پوچھیں  آپ کو اس صفحے  پر کیا نظر آ رہا ہے ؟  تو وہ جواب میں  کہے  گا کہ مجھے  تو اس صفحے  پر کچھ نظر نہیں  آ رہا یہ سادہ صفحہ ہے۔ یہ جواب اس نے  اس لئے  دیا کہ وہ صفحے  پر نقطے  کی موجودگی سے  ناواقف ہے اور اسی ناواقفیت کی وجہ سے  صفحے  پر موجود انتہائی چھوٹا نقطہ اس کو نظر نہیں  آ رہا جب کہ آپ صفحے  پر نقطے  کی موجودگی اور مقام سے  واقف ہیں  لہذا جانتے  ہیں  کہ صفحے  پر نقطہ موجود ہے۔
روح بھی ایسے  ہی نکتے  کی مانند وجود ہے اور یہ انتہائی چھوٹا وجود مادی آنکھ سے  اوجھل ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ اکثریت نے  اپنی روح کو نہیں  دیکھا اور چونکہ ہم اپنی روح کو نہیں  دیکھ پاتے  لہذا اسے  جانتے  ہی نہیں  یعنی ہماری خود سے  اپنی روح سے  ناواقفیت کی ایک بڑی وجہ یہی نہ دیکھ پانا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ( روحانی مشقوں  وغیرہ کی بدولت ) روح کا مشاہدہ کرتے  ہیں  لیکن وہ بیچارے  روح کا مشاہدہ تو کرتے  ہیں  لیکن اسے  روح کے  طور پر شناخت نہیں  کر پاتے۔ بعض اس نکتے  کو انسان کے  اصل تشخص کے  طور پر شناخت کرتے  بھی ہیں  تو وہ کبھی اسے  بیان نہیں  کر پائے  وہ کبھی بھی اس نکتے  کو اصل انسان قرار نہیں  دے  پائے۔ کیونکہ ان کے  ذہن نے  کبھی اس حقیقت کو قبول نہیں  کیا کہ انسان بغیر جسم کے  ایک ننھے  نکتے  کی صورت میں  بھی ہو سکتا ہے۔
روح سے  ناواقف لوگ تو سادہ صفحے  پر نقطے  کی طرح روح کی موجودگی تک سے  بے  خبر ہیں۔ نہ جاننے  والوں  کو اس کا کچھ علم ہے  نہ ہی وہ انہیں  نظر آ رہی ہے  و ہ تو اس کا نام بھی نہیں  جانتے اور اسے  وہم تصور کر کے  جاننا بھی توہم پرستی تصور کرتے  ہیں  یعنی خود کو جاننے  کو توہم پرستی قرار دیتے  ہیں لہذا روح جس کا عام طور پر تصور بھی محال ہے  ایسا لا معلوم اور پیچیدہ مسئلہ ہے  کہ عام آدمی کے  نزدیک جسکا کوئی حل نہیں۔ لیکن جنہیں  یہ نظر آ رہی ہے  وہ بھی حیران ہیں  روح کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے  والوں  کے  لئے  بھی یہ سمجھنا یا سوچنا بہت مشکل ہے  کہ یہ نکتہ انسان کی اصل کیونکر ہے ؟یہی نکتہ روح جو عام نظر و فہم سے  پوشیدہ ہے اور دیدۂ بینا کے  سامنے  ہوتے  ہوئے  بھی فہم سے  ماوراء۔ یہی  ننھا وجود روح انسان کی اصل ہے  جو کبھی فنا نہیں  ہوتا۔ یہی روح مادی جسم اور لطیف اجسام تیار کرتی ہے  یہی اجسام کو مربوط کر کے  انسانی صورت دیتی ہے۔ تمام اجسام مفروضے اور یہی روح حقیقت ہے۔ یعنی روح اصل ہے  تو باقی انسان اسی روح کی مفروضہ شکل۔ اب یہ تو فیصلہ ہو گیا کہ
روح مادی جسم کی مانند جسم نہیں  ہے۔ نہ ہی لطیف اجسام روح یا روح کے  حصے  ہیں۔ روح جسم ہے  ہی نہیں  بلکہ روح ایک انتہائی چھوٹا وجود ہے۔
جسے  ہم نے  یہاں  نکتے  سے  تشبیہہ دی ہے۔ اب سوال یہ ہے  کہ یہ نکتہ کیا ہے؟
 سب سے  چھوٹا وجود
نظریہ نمبر:۔ ﴿35﴾۔ ﴿یہ نکتہ روح سب سے  چھوٹا وجود ہے۔ ﴾
روح کائنات کا سب سے  چھوٹا وجود ہے  لیکن یہ نہ تو ذرہ ہے  نہ ہی جسم۔
کافی عرصہ تک سائنسدان ایٹم کو سب سے  چھوٹا ذرہ قرار دیتے  رہے  ہیں۔ جب ایٹم کو سب سے  چھوٹا ذرہ سمجھا جاتا تھا تو اس سب سے  چھوٹے  ذرے  سے  مراد یہ تھی کہ اب یہ وجود ناقابل تقسیم ہے۔ ایٹم کا مطلب ہی نہ تقسیم ہونے  والا ہے۔ لیکن ایٹم کے  بعد الیکٹران، پروٹان، فوٹان وغیرہ کی دریافت سے  یہ نظریہ غلط ثابت ہو گیا۔ ایٹم اور آج تک دریافت ہونے  والے  تمام ذرات تقسیم در تقسیم دریافت ہو رہے  ہیں۔
یہ تمام بڑے  سے  بڑے اور چھوٹے  سے  چھوٹے  ذرات دراصل انرجی اور ماس پر مشتمل ہیں۔
اور ہر وہ ذرہ جو انرجی اور مادہ پر مشتمل ہو وہ تقسیم ہونے  والا ذرہ ہے  چاہے  وہ کتنا ہی چھوٹا ذرہ کیوں  نہ ہو۔
یہ تقسیم صرف روح پر آ کر ختم ہوتی ہے  روح ہی وہ سب سے  چھوٹی شے  ہے  جو ناقابل تقسیم ہے۔ روح کے  علاوہ باقی ہر وجود تقسیم ہو جاتا ہے۔ ہر وجود کی ابتداء یہی روح کرتی ہے اور ہر وجود تقسیم در تقسیم جو باقی بچتا ہے  وہ یہی روح ہے۔
روح ہی وہ شے  ہے  جو نہ تو تقسیم ہوتی ہے اور نہ ہی ختم ہوتی ہے۔ لیکن یہ روح ذرہ نہیں  کیونکہ اس میں  مادہ نہیں  ہے  اسی لئے  ہم نے  روح کو نکتے  سے  تشبیہہ دی تھی۔ اگر روح مادہ نہیں  تو پھر روح جسے  ہم نے  یہاں  نکتہ کہا ہے  کیا ہے۔

۲۔ یہ نکتہ انرجی ہے  :
نظریہ نمبر:۔ ﴿36﴾۔ ﴿روح انرجی ہے۔ ﴾
روح کائنات کا سب سے  چھوٹا وجود فقط انرجی ہے۔
اس کے  علاوہ کائنات کا ہر وجود ماس اور انرجی پر مشتمل ہے  جب کہ روح فقط انرجی ہے۔ روح ہر قسم کے  تعاملات سے  پاک ہے  اسی لئے  ہم نے  روح کو نکتے  سے  تشبیہہ دی تھی اسے  ذرہ نہیں  کہا۔
کائنات کے  ہر وجود کی طرح انسان بھی ماس (مادی جسم) اور انرجی  (روح) کا مجموعہ ہے۔
یہ انرجی کیا ہے  اس کا تفصیلی تذکرہ آگے  آئے  گا۔ لیکن یہ جو روح کو ہم نے  یہاں  انرجی کہا ہے  تو یہ وہ انرجی ہرگز نہیں  ہے  کہ انرجی کی جن تمام تر حیثیتوں  سے  ہم آج واقف ہیں۔
یہ انرجی یعنی روح  انرجی کی تمام تر قسموں  سے  الگ ایک شے  ہے۔

۳۔ انر جی زندگی ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿37﴾۔ ﴿انرجی یعنی روح زندگی ہے۔ ﴾
یعنی روح انرجی ہے اور یہ انرجی ہی جسم یا اجسام کی زندگی ہے۔
AURA  مادی جسم کے  لئے  فیول کی مانند ہے۔ جب تک  AURA  جسم میں  موجود ہے  مادی جسم متحرک ہے۔ جب یہ  AURA  (نفس)  مادی جسم سے  چلا جاتا ہے  تو مادی جسم بے  حرکت ہو جا تا ہے  لیکن مرتا نہیں  لیکن یہ جسم اب چونکہ روح کی اطلاعات کے  مظاہرے  کے  قابل نہیں  رہا لہذا روح اس جسم کو چھوڑدیتی ہے اور روح کے  چھوڑنے  سے  یہ جسم مردہ ہوتا ہے۔
یعنی جسم کی حرکتAURAہے  تو جسم کی زندگی روح ہے۔
مادی جسم ہوں  یا لطیف اجسام روح کی موجودگی سے  موجود ہیں۔ ۔ یعنی
ہر وجود روح کی وجہ سے  موجود ہے۔ ہر وجود کی زندگی یہی انرجی یعنی روح ہے۔ یعنی زندگی روح ہے۔
روح کی تعریف میں  ہم نے  بتایا تھا کہ روح ایک نکتہ ہے  نکتہ انرجی ہے اور یہ انرجی ہی زندگی ہے اور یہ زندگی ایک مرتب پروگرام ہے  اب ہم جائزہ لیں  گے  کہ زندگی کیسے  ایک مرتب پروگرام ہے 

۴۔ زندگی مرتب پروگرام ہے  :
نظریہ نمبر:۔ ﴿38﴾۔ ﴿زندگی یعنی روح مرتب پروگرام ہے۔ ﴾
یعنی روح ماضی، حال اور مستقبل کا مرتب پروگرام ہے۔ روح ہارڈ ڈسک ہے  جس میں  انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا تمام پروگرام محفوظ ہے۔
یہ انتہائی چھوٹا وجود روح نہ صرف جسم یا اجسام کی زندگی ہے  بلکہ یہ وجود بے  انتہاء خصوصیات کا حامل ہے۔ اس ننھے  وجود روح میں  انسان کے  ماضی حال اور مستقبل کا تمام پروگرام محفوظ ہے۔ یعنی روح ایک مائیکروفلم ہے  جس میں  انسان کا پورا ڈیٹا محفوظ ہے۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے  اسے  مادی و لطیف اجسام کی صورت میں  کیا کیا اعمال کرنے  ہیں ہر ہر حرکت اور ہر ہر انسانی عمل کی مکمل تفصیل اس انتہائی چھوٹے  وجود میں  موجود ہے۔
مادی اور لطیف اجسام (نفس) روح کے  اسی مرتب پروگرام کی اطلاعات کی روشنی میں  عمل کرتے  ہیں۔
یعنی اجسام کی حرکت و عمل روح کی اطلاعات کا نتیجہ ہیں۔
لہذا  اجسام کی ہر ہر حرکت روح میں  مرتب ہے  یا انسان کا ماضی حال اور مستقبل ایک مرتب پروگرام ہے  جو روح میں  محفوظ ہے۔

۵۔ پروگرام متحرک ہے  :
نظریہ نمبر:۔ ﴿39﴾۔  ﴿یہ مرتب پروگرام (روح ) متحرک ہے۔ ﴾
انسان کا ماضی، حال، مستقبل کا ریکارڈ ساکت نہیں  بلکہ متحرک پروگرام ہے۔
بھوک لگی ہے ، سونا ہے، جاگنا ہے، رونا ہے، مرنا، جینا یہ سب روح کا مرتب پروگرام ہے۔ جو اجسام کی صورت میں  حرکت پذیر ہے۔ اسی مرتب پروگرام کی حرکت کے  عملی مظاہرے  کو ہم ماضی، حال اور مستقبل کہتے  ہیں اور اسی مرتب پروگرام پر عمل در آمد کی صورت کو حرکت، عمل یا اعمال کہتے  ہیں۔

اعمال :
نظریہ نمبر:۔ ﴿40﴾۔  ﴿حرکت اعمال ہیں۔ ﴾
انسان اعمال یعنی صفات و حرکات کا نام ہے اور ان حرکات و صفات کا مظاہرہ جسم کرتا ہے اور ہمارے  ان تمام اعمال کا دارومددار روح کی اطلاعات پر مبنی ہے 
یعنی ہماری عملی زندگی روح کی اطلاعات پر مبنی ہے  پہلے  ہر عمل کی اطلاع آ تی ہے  پھر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ لہذا اعمال روح کی اطلاعات پر مبنی ہیں۔
مثلاً بھوک کا احساس روح کی اطلاع ہے۔ یہ اطلاع روح کی طرف سے  موصول ہوتی ہے  تبھی کھانا کھانے  کا عمل واقع ہوتا ہے۔ جب کہ عمل کی عمل پذیری بھی اسی روح پہ ہی موقوف ہے۔ یعنی حرکت کا سبب بھی روح ہے اور عمل کا سبب بھی روح ہے اور یہ حرکت و عمل زندگی کی خصوصیات ہیں  جب کہ زندگی کا سبب بھی روح ہی ہے۔ لیکن یہ حرکت کیسے  جنم لے  رہی ہے۔

۶۔ حرکت کا سبب ارتعاش ہے :
 نمبر:۔ ﴿41﴾۔ ﴿ ایک غیر معمولی ارتعاش کے  ذریعے  حرکت پیدا ہو رہی ہے۔ ﴾
ابھی روح کی تعریف میں  یہ وضاحت جاری ہے  کہ روح ایک نکتہ ہے  یہ نکتہ انرجی ہے۔ انرجی زندگی ہے ، زندگی مرتب پروگرام ہے اور یہ مرتب پروگرام متحرک ہے۔ اور اس مرتب پروگرام کی حرکت کا سبب ایک ارتعاش ہے۔ اور  مرتب پروگرام  میں یہ ارتعاش ایک آواز سے  جنم لے  رہا ہے۔

۷۔ ارتعاش آواز کا ہے :
نظریہ نمبر۔ ﴿42﴾۔ ﴿ارتعاش ایک آواز سے  پیدا ہو رہا ہے۔ ﴾
نظریہ نمبر۔ ﴿43﴾۔ ﴿انرجی، حرکت، زندگی تینوں  آواز کی مختلف صورتیں  ہیں۔ ﴾
نظریہ نمبر۔ ﴿44﴾۔ ﴿کائنات اور اس کی تمام تر موجودات(بشمول انسان)اسی آواز کی پیداوار ہیں۔ ﴾
 یعنی آواز ہی وہ توانائی ہے  جو لہروں  کی صورت میں  پوری کائنات میں پھیل رہی ہے۔ یعنی آواز ہی انرجی(روح)ہے  آواز ہی حرکت آواز ہی زندگی ہے۔
 ایک آواز سے  انرجی (حرکت +زندگی)نے  جنم لیا اور یہی آواز مسلسل حرکت و عمل کا بھی سبب ہے۔ انرجی(روح) جو مرتب پروگرام کی صورت میں  موجود ہے  اسی غیر معمولی آواز سے  مرتعش اور متحرک ہو رہی ہے۔ ایک غیر معمولی آواز ہے  جس نے  ایسا ارتعاش پیدا کر رکھا ہے  کہ ہر شے  مسلسل متحرک ہے اور متحرک رہنے  پر مجبور ہے۔ یعنی ایک آواز ہے  جو توانائی کی لہروں  کی صورت میں  پوری کائنات میں  پھیل رہی ہے۔ اسی آواز سے  انرجی پیدا ہو کر  لہروں  کی صورت پھیل رہی ہے  یہی انرجی کی لہریں  زندگی اور اس کی حرکت ہیں۔ کیا واقعی ایک آواز انرجی زندگی اور اس کی حر کت ہو سکتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے ؟ایک آواز کائنات کی حرکت اور زندگی ہے  کیا اس بات کا کوئی تجرباتی ثبوت بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کبھی ہم اس ارتعاش اس آواز کو سن سکتے  ہیں۔ جی ہاں  اس کتاب میں  موجود باقی تمام نئے  نظریات کی طرح یہاں  مجھے  یہ نہیں  کہنا پڑے  گا کہ مستقبل میں  شاید سائنس اس آواز کو سننے  کی اہلیت حاصل کر لے۔ اس لئے  کہ اگرچہ ابھی تک ہم نہیں  جان پائے  ہیں  کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی زندگی اور مسلسل حرکت محض ایک آواز ہے، اس لا علمی کے  باوجود آج ہم کائنات کی زندگی یعنی اس آواز کو سُننے  کی اہلیت رکھتے  ہیں۔ اس آواز کے  ذریعے  پیدا ہونے  والے  ارتعاش، حرکت اور اس کے  نتیجے  میں  جنم لینے  والی کائنات اور اس کی موجودات بشمول انسان اور ظاہر حرکات کو تو ہم دیکھتے اور جانتے  ہی ہیں  لیکن اس کائناتی موجودگی، زندگی اور حرکت کی وجہ یعنی آواز کو بھی ہم کئی طرح سے  سننے  کی اہلیت رکھتے  ہیں۔
 ۱۔ ہم اس آواز کو کئی روحانی مشقوں  کے  ذریعے  تو سن ہی سکتے  ہیں۔
۲۔ لیکن اب ہم اس آواز کا تجرباتی ثبوت بھی رکھتے  ہیں۔
لہذا  1962ء  میں  اس آواز کو سن لیا گیا۔
امریکہ کی بیل ٹیلی فون لیبارٹری (Bell Telephone Laboratory)   کے  دو سائنسدانوں  کا کام خلاء کی طرف سے  آنے  والی ریڈیائی لہروں  کو پکڑنا اور ان کو سمجھنا تھا۔ ان لہروں  میں  ایک ایسی بھی آواز تھی جو ہر سمت سے  برابر اور مسلسل آ رہی تھی وہ اپنے  (Aerials)   جدھر بھی کرتے  اس میں  کوئی تبدیلی نہ آتی۔ اب یہ ہر سمت سے  آتی مسلسل آواز تو ہم نے  سن لی تجرباتی ثبوت تو ہمیں  مل گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ یہ آواز کس کی ہے ؟کیسی ہے ؟  اس کا منبع کیا ہے ؟  یہ آواز کیا ہے ؟

۸۔ یہ آواز ایک حکم ہے  :
  نظریہ نمبر۔ ﴿45﴾۔ ﴿یہ آواز ایک حکم ہے۔ ﴾
یہی حکم وہ انرجی ہے  جو لہروں  کی صورت میں  پوری کائنات میں  پھیل رہی ہے۔
حکم ہی وہ آواز ہے  جو انرجی اور ارتعاش پیدا کر رہی ہے  اسی حکم میں  وہ تمام انرجی (کائناتی پروگرام)ہے  جسے  ہم کائنات یا انسان کی زندگی یا روح کہتے  ہیں۔
یعنی انسانی روح انرجی ہے اور یہ انرجی دراصل ایک حکم ہے  اسی حکم کے  اندر ہی وہ انرجی ہے  جو انسان یا کائنات کی زندگی کا مرتب پروگرام ہے۔ یعنی انسان حال، ماضی، مستقبل میں  جوبھی اعمال سرانجام دے  رہا ہے  وہ اسی روح (حکم ) کا پروگرام ہے   یہی حکم ہی وہ پروگرام ہے  جو کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کو حرکت کا پروگرام دے  رہا ہے اور متحرک کر رہا ہے۔ یعنی کائناتی حرکت و عمل ایک مرتب پروگرام ہے  جو ایک حکم ہے۔ یعنی حکم کائناتی حرکت و عمل کا مرتب پروگرام ہے۔ یہ کوئی انہونی یا ناقا بلِ یقین بات نہیں  ہے۔ اس کی سادہ سی مثال کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر میں  پروگرام فیڈ ہے اور کمپیوٹر اسی منتخب پروگرام کے  تحت خودکار متحرک ہے۔ یعنی کمپیوٹر اپنے  مخصوص مرتب پروگرام کے  حکم کا غلام ہے  یعنی پروگرام حکم ہے۔
ایسے  ہی کائنات (اور کائنات کی تمام تر موجودات بشمول انسان )کی خود کار حرکت حکم(مرتب پروگرام)کے  تحت ہے 
یہ حکم کی شدت پذیری ہے  کہ تمام کائنات اور اس کی موجودات مسلسل حرکت و عمل پر مجبور ہے اور کائنات کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا اور بڑے  سے  بڑا وجود اسی حکم کا محتاج ہے  یہی حکم کائنات اور اس کی تمام تر موجودات (بشمول انسان )کی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام ہے۔ لہذا کائنات اور اس کی تمام تر موجودات(بشمول انسان)اسی حکم(مرتب پروگرام) کے  مطابق مسلسل متحرک ہیں۔ یہ حکم کیا ہے  جو پوری کائنات کو مسلسل حرکت میں  رکھے  ہوئے  ہے۔
 کس کا حکم ہے  یہ؟

۹۔ خالق کاحکم:
نمبر۔ ﴿46﴾۔ ﴿یہ حکم خالق کا ہے۔ ﴾
کائنات اور کائنات کی تمام تر موجودات کا وجود ایک ہی خالق کے  ایک ہی حکم کا پروگرام ہے۔
یا خالق کا ایک ہی حکم پوری کائنات کی حرکت کا تسلسل ہے ، یا سادہ الفاظ میں  ہمیں  یوں  کہنا ہو گا کہ
کائنات اور اس کی تمام تر موجودات مالک کائنات کے  حکم سے  متحرک ہیں۔ پوری کائنات میں  ایک ہی حکم جاری و ساری ہے  ہر ذرے  کی حرکت کا قانون ایک ہی قانون ہے اور اسی خالق کے  حکم کے  زیر اثر ہے۔
کائنات کا کوئی بھی حصہ ایک مالک کی ملکیت نہ ہو تو وہ حکم سے  باہر ہو جائے  گا اور کائنات کا ہر وجود ایک ہی مالک کی ملکیت ہے اور اسی مالک کے  حکم کے  زیر اثر کام کر رہا ہے۔ خالق کا حکم کیا ہے  اس کی وضاحت ہم ایک مثال سے  کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں۔
حکم حاکم سے  نسبت رکھتا ہے۔ کسی بھی شخص کے  حکم کو یا دھمکی کو ہم حکم قرار نہیں  دے  سکتے۔ حکم کی مخصوص ساخت ہے  جو حاکم سے  منسوب ہے۔ مثلاً  اگر ایک نوکر اپنے  مالک کو حکم دے  کہ آج سے  میں  نے  تمہیں  ملکیت سے  خارج کیا تو ہم اسے  حکم نہیں  کہیں  گے  نہ ہی یہ حکم ہے  نہ ہی اس حکم کے  کوئی اثرات مرتب ہوں  گے  لہذا اس حکم کے  بعد بھی  مالک اور اس کی حیثیت برقرار رہے  گی۔ کیونکہ نوکر ایک بے  قوت شخص ہے اور ملکیت خود مالک کی لہذا نوکر کے  اس حکم سے  مالک اپنی ملکیت و اختیار سے  خارج نہیں  ہو سکتا اس لیے  کہ نوکر نہ تو کوئی قوت رکھتا ہے  نہ اختیار لہذا اس کا حکم بے  اثر ہے۔
جب کہ مالک جو ملکیت کا اختیار رکھتا ہے  صاحب اختیار حاکم ہے۔ لہذا جب حاکم نے  حکم صادر کیا  !  کہ میں  نے  آج سے  تمہیں  نوکری سے  برخواست کیا تو اس حکم کے  اثرات فوراً ظاہر ہوں  گے  اس حکم کے  تحت نوکر نوکری سے  برخواست ہو جائے  گا۔ یہ ہے  صاحب اختیار حاکم کے  حکم کے  اثرات۔ اسی قانون کے  تحت یہ کائنات اور اس کا ہر وجود (بشمول انسان) ایک خالق کے  حکم کے  زیر اثر ہیں۔ لہذا
پوری کائنات مالک کائنات کے  حکم سے  حرکت پذیر ہے  وہ مالک جو پوری کائنات کا اختیار رکھتا ہے۔ یعنی اس کائنات کو وہی ہستی مسلسل متحرک رکھ سکتی ہے  جو اس کی مالک و مختار ہے۔ یعنی کائنات خالق کے  حکم سے  متحرک ہے اور انسانی حرکت بھی اس حکم کا اثر ہے۔ اب جاننا یہ ہے  کہ یہ حکم کیسے  کائنات کو متحرک کر رہا ہے۔

۱۰۔ یہ حکم مسلسل نشر ہو رہا ہے :
نظریہ نمبر۔ ﴿47﴾۔ ﴿یہ حکم مسلسل  جاری و ساری ہے  نشر ہو رہا ہے۔ ﴾
یہ حکم ایک مرتب پروگرام ہے اور یہ  ریکارڈ پروگرام خالق کے  حکم کے  مطابق مسلسل کام کر رہا ہے۔ لہذا پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات اسی پروگرام کے  مطابق مسلسل منظم و متحرک ہیں۔ جیسے  کمپیوٹر کے  اندر مکمل پروگرام فیڈ ہوتا ہے اور وہ اسی پروگرام کے  مطابق پوری بلڈنگ کو خودکار کنٹرول کرتا ہے۔ اسی طرح خالق کے  پروگرام (حکم )کے  مطابق پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان خالق کے  حکم سے  مسلسل منظم و متحرک ہیں۔ لہذا حکم ہی حرکی قوت ہے

63۔ حرکی قوت
نظریہ نمبر:۔ ﴿48﴾۔ ﴿خالق کاحکم ہی کائنات کی حرکی قوت ہے۔ ﴾
لہذا خالق کا حکم کائنات اور اس کی موجودات کو مسلسل حرکت و عمل کا پروگرام دے  رہا ہے۔
یعنی کائنات اور اس کی تمام موجودات کی حرکت کا سبب ایک ہی بڑی زبردست طاقتور ہستی ہے۔  
سائنس بھی برسوں  کی تحقیق و جستجو کے  بعد آج اس نتیجے  پر پہنچی ہے  کہ یہ پوری کائنات کسی ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے۔ اس کائنات کا نظام اتنا منظم، اتنا مربوط، اتنا پیچیدہ اور اتنا مکمل ہے  کہ دو طاقتیں  ایسے  منظم سسٹم کو نہ بنا سکتی ہیں  نہ ہی دو طاقتیں  ایسے  پراسرار نظم و ضبط کو برقرار رکھ سکتی ہیں ذرا سی غلطی پورے  سسٹم کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ یہ نتیجہ سائنسدانوں  نے  برسوں  کی تحقیق و تجربات و مشاہدات کے  بعد نکالا ہے  کہ کائنات کا یہ نظم و ضبط کسی ایک ہی بہت بڑی قوت کا تابع ہو سکتا ہے۔ وہ قوت کیا ہے ؟  کیسے  یہ کائنات ایک قوت کے  تابع ہے  ابھی یہ محض مفروضہ ہے  ابھی یہ سوال حل طلب ہیں۔ وہ مفروضہ جو سائنسدانوں  نے  قائم کیا ہے  یا کسی بھی صاحب علم و عقل کی سمجھ میں  آ سکتا ہے  کہ کائنات کی حرکت کا سبب ایک قوت ہے  اب ہم اسی مفروضے  کو لے  کر آگے  بڑھیں  گے۔
ایک قوت کی یہ حرکت کیا ہے اور کیسے  ہے۔ یہاں  ہم نے  یہ وضاحت کی ہے  کہ یہ حرکت(کائناتی حرکت) خالق کے  حکم سے  ہے اور محض حکم سے  حرکت کیسے  ممکن ہے  اس کی وضاحت ہم ایک ادنیٰ زمینی مثال سے  کرتے  ہیں۔
مثال:۔  مشہور ٹیلی پیتھسٹ  "جیری بلوم"  چائنا گیا۔ وہاں  ایک ہوٹل میں  چائے  پینے  بیٹھ گیا۔ سامنے  دیوار پر ایک اژدھا کی بڑی تصویر لگی تھی جیری کو شرارت سوجھی اس نے  آس پاس بیٹھے  لوگوں  کو ہراساں  کرنے  کے  لئے  ذہنی رو سے  اژدھا کو حرکت کرنے  کا  حکم  دیا۔ اژدھا میں  حرکت پیدا ہوئی تو آس پاس بیٹھے  ہوئے  لوگ ڈر گئے۔
ذہنی رو سے  مادی اشیاء کو حرکت دینے  کے  عمل کو سائیکوکینس (Psychokenesis)   کہتے  ہیں  اس لفظ کا عام مخفف (P.K)   ہے۔
ٹیلی پیتھی کی مشقیں  کرنے  والے  بہت سے  حضرات میں  سے  محض چند بہت ہی اعلیٰ صلاحیتوں  کے  حامل ٹیلی پیتھسٹ کو یہ صلاحیت مدتوں  کی ریاضت کے  بعد حاصل ہوتی ہے  کہ وہ فریم میں  لگی تصویر ( یا بعض مادی اشیاء ) کو حرکت میں  لا سکتے  ہیں۔ لیکن یہ ماہر تصویر میں  مستقل حرکت پیدا نہیں  کر سکتا۔ اگر کوئی انسان اس تصویر میں  مسلسل حرکت پیدا کر دے  تو وہ تصویر سے  زندوں  میں  شمار ہو جائے  گی۔ عمر بھر کی ریاضت مشقت کے  بعد بھی ماہر کی استعداد محض اتنی ہوتی ہے  کہ وہ کسی بے  جان شے  میں  محض چند سیکنڈ کی وقتی حرکت پیدا کر دے۔
ایک انسان کا حکم کسی مادی شے  کو  وقتی طور پر متحرک کر سکتا ہے  لہذا
ایسا ہی حکم(حرکی قوت) ہے  خالق کا اور خالق کے  حکم میں  وہ شدت ہے  جو پوری کائنات کو مسلسل حرکت پر مجبور رکھتی ہے۔
جیسے  ٹیلی پیتھسٹ کے  الفاظ تصویر میں  وقتی حرکت پیدا کر سکتے  ہیں۔ تو خالق کے  الفاظ میں  وہ قوت وہ شدت ہے  جو پوری کائنات کو مسلسل متحرک رکھے  ہوئے  ہے  یہ فرق ہے  بے  اختیار انسان اور با اختیار خالق کا۔
اگر یہ قوت اور اس کے  حکم کی شدت نہ ہو تو ہر شے  بشمول انسان پتھر کی طرح بے  جان ہوں  بلکہ ان کا وجود ہی نہ رہے۔
لہذا ایک بے  جان کائنات (بشمول انسان) کو خالق کا حکم مسلسل حرکت میں  رکھے  ہوئے  ہے۔ اور پوری کائنات کو مسلسل حرکت میں  وہی ہستی رکھ سکتی ہے  جو پوری کائنات کی مالک ہو۔
لہذا خالق کا حکم ہی حرکی قوت ہے۔ اور یہ حرکت مسلسل ہے۔ اور خالق کے  اسی حکم کو یہاں  ہم نے  روح کہا ہے۔ یعنی روح خالق کا حکم ہے۔


64۔ روح کی قوت

نمبر:۔ ﴿49﴾۔ ﴿لہذا روح بذات خود انرجی نہیں  بلکہ یہ کائناتی تسلسل ہے  خالق کے  حکم کا۔ ﴾
روح بذات خود قوت (انرجی) نہیں  بلکہ روح کی بھی قوت ہے۔
ہم اب جان گئے  ہیں  کہ روح بذات خود ایک انرجی ہے  قوت ہے  جسم کی زندگی ہے  یہ انرجی (روح)  جسم میں  ہے  تو جسم جسم ہے  زندہ ہے  یہ جسم میں  نہیں  تو جسم مردہ ہے  جسم جسم ہی نہیں۔ ہماری پوری زندگی اس روح کا پروگرام ہے۔ ہمارا سونا، جاگنا، مرنا، جینا، ماضی، حال مستقبل غرض ہر حرکت و عمل روح کا پروگرام ہے  روح کی اطلاعات ہیں  لیکن انرجی کے  اس سب سے  چھوٹے  وجود روح کے  پاس یہ انرجی یہ معلومات کہاں  سے  آئیں۔ اب ہم یہ نہیں  کہہ سکتے  کہ یہ چھوٹا وجود خود بخود اتنا پاورفل ہے  یہ انرجی بذات خود انرجی ہے۔
اسی طرح ہر جاندار یا انسان میں  اس کا فیول AURA   جسم کو متحرک رکھتا ہے  لیکن یہ انرجی کا منبع نہیں۔ AURA  جسم کا فیول ہے  روح جسم کی زندگی روح ایک انرجی ایک قوت ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے  ہیں  کہ۔ ایک بلب روشن ہو تو یہ اس کی ذاتی روشنی نہیں  بلکہ یہ ایک طویل برقی سلسلے  سے  جڑا ہوا ہے  یہ بلب کی روشنی اسی طویل سلسلے  کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح روح بھی ایک طویل برقی سسٹم حکم سے  جڑی ہوئی ہے۔ لہذا حکم جو کہ حرکی قوت بھی ہے  یہ حکم ایک باقاعدہ برقی سسٹم ہے۔


65۔ برقی سسٹم

نظریہ نمبر:۔ ﴿50﴾۔ ﴿حکم ایک برقی سسٹم ہے۔ ﴾
کمرے  میں  ایک بلب روشنی بکھیر رہا ہے  اگر کوئی یہ کہہ دے  کہ یہ بلب تو خود بخود روشن ہے اور یہ بلب کی ذاتی روشنی ہے  تو آپ ایسے  شخص کو یقیناً احمق قرار دیں گے  جو قبل از مسیح کے  کسی دور سے  اٹھ آیا ہے  جسے  کچھ معلوم ہی نہیں۔ جب کہ آپ جانتے  ہیں  کہ آپ کے  اپنے  گھر کے  اندر بجلی کے  تاروں  کا جال بچھا ہوا ہے  مین بورڈ لگا ہے  جس کا بٹن آن کرنے  سے  پورے  گھر میں  بجلی کی سپلائی شروع ہو جاتی ہے اور گھر کی سب اشیاء فریج، ٹی وی، استری میں  بجلی دوڑ جاتی ہے اور یہ سب اشیاء متحرک ہو جاتی ہیں اور مین سوئچ آف کرنے  سے  یہ حرکت رک جاتی ہے۔ یہ بجلی مین بورڈ میں  سے  بھی نہیں  پھوٹ رہی بلکہ بجلی کی تاروں اور کھمبوں  کے  وسیع سلسلے  کے  ذریعے  آپ کے  گھر تک پہنچ رہی ہے۔ اور یہ تاریں  کھمبے  بھی بجلی کا منبع نہیں  ہیں بلکہ یہ بجلی پیچھے  کہیں  مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے  یا پھوٹ رہی ہے۔ یعنی بجلی کی سپلائی کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسی طویل سلسلے  کے  تحت آپ کے  گھر میں  روشنی ہے  ہر شے  متحرک ہے اور اسی روشنی میں  آپ ہر شے  کا نظارہ کر رہے  ہیں با لکل اسی برقی سسٹم کی طرح ایک مین پاور اسٹیشن سے  انرجی پوری کائنات کو سپلائی ہو رہی ہے  یہ بھی بجلی کی تاروں  کی طرح ایک طویل سلسلہ ہے  جو کائنات میں  پھیلا ہوا ہے۔ اسی طویل سلسلے  کے  تحت ایک مین پاور اسٹیشن سے  حرکی قوت یعنی حکم (روشنی + انرجی +پروگرام) کائنات کے  ہر وجود بشمول انسان کو پہنچ رہا ہے  یا انرجی پوری کائنات کو سپلائی ہو رہی ہے  جس سے  کائنات کا ہر وجود متحرک ہے  عمل کر رہا ہے۔ اور اسی سلسلے  کے  تحت کائنات کا ہر وجود بشمول انسان متحرک ہے۔ پاور اسٹیشن سے  ساری کائنات ایک برقی سسٹم سے  جڑی ہوئی ہے اور پاور اسٹیشن سے  کائنات کے  ہر وجود کو انرجی کی ایک مخصوص مقدار پہنچ رہی ہے  نہ زیادہ نہ کم۔


66۔ پاور اسٹیشن

نمبر:۔ ﴿51﴾۔ ﴿پاور اسٹیشن انرجی کا منبع ہے۔ ﴾
پاور اسٹیشن سے  مراد وہ واحد قوت (خالق ) ہے  جو پوری کائنات کو اپنی آواز کے  ذریعے  اپنے  محض ایک حکم سے  متحرک رکھے  ہوئے  ہے۔ وہ واحد قوت کیا ہے  اس کی ماہیت کا اندازہ کرنا مشکل ہے  (بندہ ادراک نہیں  کر سکتا خالق ہی ادراک بن جاتا ہے)۔
پاور اسٹیشن انرجی کا منبع ہے  اس کی وضاحت ایک مثال سے  کرتے  ہیں۔  مثلاً  ایک اندھیرا کمرا ہے  ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں  دیتا کچھ نظر نہیں  آتا۔ اگر اسی کمرے  میں  ایک بلب روشن کر دیا جائے  تو آپ کمرے  کی ایک ایک چیز کو دیکھ سکتے  ہیں، سب کو الگ الگ شناخت کر سکتے  ہیں اسی روشنی یا بجلی سے  تمام چیزوں  کو متحرک بھی کر سکتے  ہیں۔ یہی روشنی بند ہو جائے  تو کچھ نظر نہیں  آئے  گا کسی چیز کی شناخت ممکن نہیں  سب کچھ ساکت ہے۔ جیسے  کچھ ہے  ہی نہیں۔ یہی مثال ہے  پاور اسٹیشن کی، وہاں  سے  ایک طویل سلسلہ کے  تحت روشنیوں  کا اخراج ہو رہا ہے  جس سے  ؛
(1)  کائنات اور اس کی تمام موجودات  موجود اور متحرک ہیں۔
(2)  ہر شے  نظر آ رہی ہے۔
(3)  ہر شے  کا تشخص واضح ہے ، شناخت ممکن ہے۔
یہ حرکت کا کائناتی سلسلہ ایک حکم کے  ذریعے  مسلسل جاری و ساری ہے۔


67۔ روح خالق کا حکم ہے 

نمبر:۔ ﴿52﴾۔ ﴿لہذا  روح درحقیقت ایک حکم )پروگرام)ہے ، خالق کا حکم!﴾
یہاں  آ کر اب روح کی تعریف یا شناخت مکمل ہوتی ہے۔ روح کی مسلسل تعریف ہم نے  یہ کی ہے  کہ روح ایک نکتہ ہے ، یہ نکتہ انرجی ہے ، انرجی زندگی ہے  تمام تر اجسام کی اور یہ زندگی ہی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام ہے  جو روح میں  محفوظ ہے  یعنی یہ پروگرام ساکت نہیں  متحرک ہے۔ اور حرکت کا سبب ارتعاش ہے اور ارتعاش ایک آواز سے  پیدا ہو رہا ہے اور آواز خالق کائنات کی ہے۔ یہ حکم ہی حرکی قوت ہے اور حرکی قوت ایک کائناتی برقی سسٹم کا نتیجہ ہے اور یہ برقی سسٹم پاور اسٹیشن(خالق) سے  مربوط ہے۔
یعنی اگر آپ روح کو دیکھنا چاہیں  تو یہ انرجی کا انتہائی چھوٹا وجود ہزار کوششوں  کے  بعد ایک نکتے  کی مانند نظر آئے  گا جب کہ یہی انتہائی چھوٹا وجود جو ناقابل تقسیم انرجی ہے  لیکن یہ وہ انرجی نہیں  ہے  جس انرجی کی تمام تر اقسام سے  آج ہم واقف ہیں۔ یہی انرجی اجسام کی زندگی ہے  یہی انرجی اجسام ترتیب دیتی ہے  اسی انرجی یعنی روح کے  اندر اجسام کے  تمام تر حرکت و اعمال کا پروگرام محفوظ ہے  یعنی انسان کا ماضی، حال، مستقبل روح کا مرتب پروگرام ہے  جس پہ تمام اجسام اپنی مرضی سے  عمل کر رہے  ہیں۔ اور یہ مرتب پروگرام اجسام کے  حرکت و عمل کے  ذریعے  متحرک ہے اور اسے  متحرک کرنے  والی بھی یہی روح ہے۔ اور حرکت برقی سسٹم ہے اور اس حرکت کا سبب ارتعاش ہے  جو  لہروں  کی صورت میں  سفر کر رہا ہے۔ اور یہ ارتعاش ایک مسلسل آواز سے  جنم لے  رہا ہے اور یہ آواز خالق کائنات کی ہے۔ سادہ الفاظ میں  روح خالق کا حکم ہے۔ اور زندگی، حرکت، اعمال سب حکم کی خصوصیات ہیں۔ لہذا ثابت ہو گیا کہ روح ہی اجسام کی زندگی ہے۔
روح ہی حرکت و عمل کا پروگرام ہے۔ اور یہ روح خالق کا حکم ہے۔ قُل الرّ وح مِن اَمرِربی۔ ترجمہ۔ کہہ دیجیے  روح رب کا حکم ہے۔                   

                            

68۔ انسانوں  میں  حکم کی خصوصیات


نمبر:۔ ﴿53﴾۔ ﴿انسانوں  میں  حکم کی خصوصیت کائناتی حکم(انسان کی اپنی روح) کی بدولت ہے۔ ﴾

روح خالق کا کائناتی حکم ہے اور ہر انسان کے  اندر روح موجود ہے  لہذا ہر وہ انسان جو اپنی روح کا استعمال جانتا ہے  وہ حکم کی خصوصیات استعمال کر سکتا ہے۔  
مثلاً  حکم کی ایک خصوصیت یہاں  ہم نے  حرکت بیان کی ہے۔ اور خالق کے  حکم سے  کائنات مسلسل حرکت میں  ہے۔ جب کہ انسان خالق کے  حکم کی طرح کسی شے  کو مسلسل متحرک نہیں  رکھ سکتا۔ لہذا انسان کے  حکم کی خصوصیت محدود ہے۔
انسان کے  اندر یہی کائناتی حکم کی خصوصیت یعنی روح موجود ہے  یہی وجہ ہے  کہ انسان بعض بے  حرکت اشیاء کو حرکت دے  سکتا ہے۔ اور یہ حکم کی صلاحیت بعض انسانوں  میں  دیکھنے  میں  آتی بھی ہے  لیکن خالق اور انسان کے  حکم میں  وہی فرق ہے  جو صاحب اختیار اور بے  اختیار شخص کے  حکم میں  ہو سکتا ہے۔ خالق کے  حکم سے  کائنات مسلسل متحرک ہے  تو انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں  کو استعمال کر کے  بھی محض شعبدے  ہی دکھا سکتا ہے۔ جیسے  جیری بلوم نے  ذہنی رو سے  تصویری اژدھے  کو وقتی حرکت دے  کر دکھایا تھا۔
آج روح کی اس قوت حکم کو  ذہنی قوت قرار دیا گیا ہے۔ اور اس ذہنی قوت کوسائیکوکائناسس (Psychokinesis)   یعنی  P.K   کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کے  مطابق۔ یہ خیال کہ قوت ہزار ہا اقسام کی لہریں اور توانائیاں  ہیں  جو ہمارے  ارد گرد بکھری ہوئی ہیں۔ اس قوت کو استعمال کرنے  کے  لئے  انہیں  یکساں  توانائی کے  گچھوں  میں  باندھنا پڑتا ہے  اس توانائی کی مدد سے  نظر آنے  والی چیزوں  کے  الیکٹرونز کو بغیر گرم کئے  نرم بنایا جا سکتا ہے  موڑا، توڑا جا سکتا ہے ، حرکت دی جا سکتی ہے۔ مثلاً  برطانوی نوجوان یوری گیلر (Urigeller)   بی بی سی ٹیلی ویژن کے  پروگرام میں  ذہنی قوت کے  ذریعے  کانٹے  چمچے  موڑتا ہوا دکھایا گیا حتیٰ کہ اس نے  کیمرے  کو گھورا تو گھروں  کے  اندر سامنے  لے  کر بیٹھے  ہوئے  چھری کانٹوں  کو بھی دوہرا ہوتے  دیکھا گیا۔
ایسے  ہی حکمMind Power   کے  کارنامے  دکھاتا ہوا نظر آتا ہے   "کرس اینجل " وہ بھی اپنی ذہنی قوت سے  کبھی ہوا میں  اڑتا ہے  کبھی پانی پہ چلتا ہے  کبھی غائب ہو جاتا ہے۔
 دنیا میں  ایسے  بہت سے  لوگ آج بھی موجود ہیں  جو اپنی روح کی طاقت کو استعمال کر کے  ہرے  درخت کو سکھا دیتے  ہیں  رکے  ہوئے  دریا کو چلا دیتے  ہیں  کسی چیز کو چھوئے  بغیر موڑ دیتے  ہیں  یا پھر ہوا میں  معلق کر دیتے  ہیں۔ ان میں  سابقہ سویت یونین کی نینا کلاجینا (Nina Kulagina) ، کیلیفورنیا (امریکہ ) کے  ٹیڈ او ونز(Ted Owens)  ، لندن انگلینڈ کی اسٹیلاسی (Stella C)  اور کیمبرج (انگلینڈ ) کے  میتھیو میننگ(Mathew Manning)   ہیں۔
اس کے  علاوہ ہمارے  پاس مذہبی کتابوں  میں  بھی روحانی بزرگوں  کے  کمالات اور پیغمبروں  کے  معجزے  درج ہیں  جن میں  یہ خصوصیات دیکھنے  میں  آتی ہیں۔ کہ وہ مردوں  کو زندہ کر دیا کرتے  تھے۔ خالق کے  حکم سے  مٹی کے  پرندوں  میں  جان ڈال دیتے  تھے۔ ہرے  درخت کو سکھا دیتے  تھے۔ چاند کو دولخت کر دیا، سورج کو پھیر دیا  یا درخت کو حکم دیا تو وہ جڑوں  سمیت چلا آیا۔
ہپناٹزم کے  ماہر اپنے  معمول کو ہپناٹائز کر کے  جو بھی حکم یا ہدایت دیتے  ہیں  بیدار ہونے  پر معمول مقررہ وقت پر وہی کام کرتا ہے۔ عام لوگ بھی مسلسل ریاضت سے  اپنی روح کو استعمال میں  لا کر شعبدے  تو دکھا ہی سکتے  ہیں۔ انسانوں  میں  حکم کی ہر مثال چھوٹی مثال ہے۔ یہ خالق کے  حکم کے  مقابل نہیں  خالق کا حکم بہت بڑا حکم ہے  جس سے  بے  انتہاء بڑی کائنات مسلسل متحرک ہے۔ خالق کائنات کے  علاوہ حکم کی ایسی خصوصیت کسی میں  موجود نہیں اور نہ پائی جا سکتی ہے  بے  شک کچھ مردوں  کو زندہ کرنے  کی مثال ہی کیوں  نہ ہو۔ یہ صلاحیت بھی کچھ پیغمبروں  یا ولیوں  کو دی گئی اور ایسا وہ کرتے  تھے  مگر خالق کے  حکم سے  یعنی ایکسٹرا صلاحیتوں  کے  ذریعے۔ یہاں  ہم نے  حکم کی کچھ زمینی مثالیں  تحریر کی ہیں  ایسی مثالوں  کے  ڈھیر موجود ہیں  لیکن ان چند مثالوں  کو پیش کرنے  کا مقصد حکم کی اثر پذیری کا ثبوت فراہم کرنا ہے  ورنہ لوگ بے  دھڑک انکارکر دیتے  ہیں  کہ ایسا کیسے  ہو سکتا ہے  یا ایسا بھی کبھی ہوا ہے۔ تو لہذا یہاں  ہم نے  حکم کا جو فلسفہ بیان کیا ہے  یہ انوکھا ضرور ہے  لیکن پھر بھی اس کی دنیاوی مثالیں  موجود ہیں۔
لہذا اب یہاں  حکم کی مختصر تعریف اور تعارف کے  ساتھ ہی روح کی وہ تعریف مکمل ہوئی۔ جو ہم نے  روح کیا ہے ؟  کے  عنوان سے  شروع کی تھی لہذا ہم نے  یہاں  روح کی انفرادی شناخت قائم کرتے  ہوئے  روح کی ماہیت بیان کرتے  ہوئے  کہا تھا کہ ؛
روح ایک نکتہ ہے  یہ نکتہ انرجی ہے ، انرجی زندگی ہے ، زندگی ایک مرتب پروگرام ہے ، یہ مرتب پروگرام متحرک ہے ، حرکت ارتعاش کے  سبب ہے  یہ ارتعاش ایک آواز کا ہے اور آواز ایک حکم ہے اور حکم خالق کائنات کا ہے اور یہ خالق کائنات کا حکم مین پاور اسٹیشن سے  نشر ہوا ہے اور ایک طویل سلسلے  کے  تحت اس مین پاور اسٹیشن سے  مسلسل مربوط بھی ہے  تبھی انسان اور کائنات ایک پروگرام کے  تحت منظم و متحرک اور مجسم ہے۔ یہی روح جسم میں  زندگی بھی جسم میں  حرکت و عمل کا سبب ہے۔ یہی روح اجسام بھی تخلیق کر رہی ہے  جسم ہیں  تو روح کی وجہ سے  انسان کی موجود گی اس کی حرکت و عمل سب کچھ خالق کائنات کے  حکم سے  ہے اور اس حکم کا وہ ہر لمحہ تابع ہے  یہ سلسلہ جہاں  ٹوٹتا ہے  وہیں  انسان وجود سے  عدم ہو جاتا ہے۔
یہاں  آ کر اب روح کی تعریف قدرے  مکمل ہوئی ہے  لیکن محض تعریف ہوئی ہے  تعارف ابھی باقی ہے  جس کا تذکرہ آگے  آئے  گا۔ اگر روح کی اس طویل اور پیچیدہ تعریف کو ہم سادہ چند لفظوں  میں  بیان کریں  تو ہمیں  یہ کہنا ہو گا کہ

                           روح خالق کائنات کا حکم ہے۔

 


2 comments: