Translate

28--Parts of the soul-روح کے حصے




151۔ روح کے  حصے

سوال : کیا روح کے  حصے  ہیں ؟
جواب:  جی نہیں  روح کے  کوئی حصے  نہیں  ہیں  !
روح کے  حصے  نہیں  ہیں   !  اس امر کی شہادت ہر دور کے  مفکروں، محققوں نے  دی ہے۔ مراقبہ کرنے  والے  لاکھوں  عام افراد جو روح کا علم نہیں  رکھتے  لیکن مراقبہ کی بدولت روح کا مشاہدہ کرتے  ہیں  وہ بھی اس مشاہدے  کے  بعد یہی کہتے  ہیں  کہ روح کے  حصے  نہیں  ہیں۔ اگر روح کے  حصے  نہیں  ہیں  تو  پھر ہر دور میں  روح کو حصوں  میں  تقسیم کیوں  کیا گیا ہے ؟
بات صرف اتنی ہی نہیں  ہے  ہر دور میں  جب روح کی تعریف کرنے  کی کوشش کی گئی تو ہمیشہ اسے  بیک وقت دو متضاد حالتوں  میں  بیان کیا گیا مثلاً ہر دور میں  روح کی تعریف کرنے  والے  روح کی تعریف کر تے  ہوئے  کہتے  ہیں  کہ
۱۔ روح ناقابل تقسیم ہے۔
۲۔ ناقابلِ تقسیم کہہ کر ساتھ ہی اسے  حصوں  میں  بھی تقسیم کر دیتے  ہیں۔
مثلاً  ہزاروں  برس قبل کا یونانی فلسفی ارسطو روح کو ایک ایسی اکائی تصور کرتا تھا جو اپنی ذات میں  ہر لحاظ سے  مکمل ہو اور اس کے  ساتھ ہی وہ روح کو دو حصوں  روح حیوانی اور روح انسانی میں  بھی تقسیم کرتا تھا۔ حیوانی روح کو وہ نچلے  درجے  کی بتاتا ہے  جب کہ اعلیٰ درجے  کی روح کو وہ ذہن کا نام دیتا ہے۔
ارسطو کے  بعد بھی ہر دور کے  مفکروں  نے  ایسے  ہی حصوں  کا تذکرہ کیا ہے۔
مثلاً خواجہ شمس الدین عظیمی کے  مطابق انسان کے  اندر جو صلاحیتیں  کام کرتی ہیں  وہ تین دائروں  میں  مظہر بنتی ہیں۔ یہ تینوں  کرنٹ محسوسات کے  تین ہیولے  ہیں اور ہر ہیولا مکمل تشخص رکھتا ہے۔ ہر کرنٹ سے  انسان کا ایک جسم وجود میں  آتا ہے  اس طرح آدمی کے  تین وجود ہیں۔
(1)  روح حیوانی۔
(2)  روح انسانی۔
(3)  روح اعظم۔
جب کہ قدیم مصریوں  نے  بع اور  کع کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کا ایمان تھا کہ مرنے  کے  بعد انسان کی دوسری زندگی شروع ہوتی ہے اور اس کے  بع اور کع اس کے  جسم سے  نکل کر اس کے  مقبرے  میں  رہنے  لگتے  ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ  بع  کا میل جول مرنے  والے  کے  عزیزوں  دوستوں  کے  ساتھ رہتا ہے  جب کہ کع  دوسری دنیا میں  چلا جاتا ہے اور دیوی دیوتاؤں  کے  ہمراہ رہنے  لگتا ہے۔ ان کے  خیال میں  کسی آدمی کے  ہمیشہ زندہ رہنے  کی یہی صورت تھی کہ بع اور کع جسم کو پہچانتے  ہوں۔
قدیم چینیوں  نے  بھی روح کو دو حصوں  میں  تقسیم کیا ہے۔
(1)  پو  P.O    یہ انسان کی شخصیت کا نظر آنے  والا حصہ ہے  جو کہ اس کے  جسم سے  جڑا ہوتا ہے۔
(2)  ہن   HUN  یہ نہ نظر آنے  والا حصہ ہے   جو کہ جسم میں  موجود ہوتا ہے  لیکن لازمی نہیں  کہ جسم سے  ہمشہ بندھا ہو۔ جب وہ پھر رہا ہو تو ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور اگر وہ ظاہر ہو گا تو اصل جسم کی صورت میں  ظاہر ہو گا جب کہ اصل جسم اس سے  دور ہوتا ہے۔ اصل جسم میں   P.O  موجود ہوتا ہے۔
اگر HUN   مستقل طور پر جسم سے  دور رہے  تو جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
بعض یہودیوں  نے  بھی روح کو تین حصوں  میں  تقسیم کیا ہے۔
(1)  NEFESH،          (2)  RUACH،            (3)  NESHAMA
(1)  NEFESH   
روح کا سب سے  نچلا حیوانی حصہ۔ یہ انسان کی جسمانی خواہشات سے  تعلق رکھتا ہے۔ تمام انسانوں  میں  پایا جاتا ہے اور جسم میں  پیدائش کے  وقت داخل ہوتا ہے۔ باقی کے  دو حصے  پیدائش کے  وقت داخل نہیں  ہوتے  لیکن وقت کے  ساتھ آہستہ آہستہ بنتے  ہیں اور ان کا بننا انسان کی حرکات اور اس کے  اعتقادات پر منحصر ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے  یہ انہی لوگوں  میں  پایا جاتا ہے  جو روحانی طور پر بیدار ہوں۔
(2)  RUACH   
یہ ہے  درمیانی روح یا Spirit۔  اس میں  اخلاقی پہلو پایا جاتا ہے اور یہ اچھے اور برے  میں  تمیز کرتی ہے اور اسی کو ہم سائیکی اور  Ego  بھی کہتے  ہیں۔
(3)  NESHAMA   
سب سے  اونچے  درجے  کی روح سب سے  برتر حصہ یہ انسان کو تمام تر زندہ چیزوں  سے  منفرد بناتی ہے  اس کا تعلق انر سے  ہے۔ یہ انسان کو زندگی کے  بعد کے  فائدوں  سے  لطف اندوز ہونے  میں  مدد  دیتی ہے۔ روح کا یہ حصہ یہودیوں  اور غیر یہودیوں  دونوں  کو پیدائش کے  وقت دے  دیا جاتا ہے۔ اور یہ کسی بھی فرد کو اس کی موجودگی اور خدا کی موجودگی کا علم دیتا ہے۔ ( اور آج جدید تحقیقات سے  انسان کے  باطن میں    AURA اور چکراز اور  Subtle Bodies  کی دریافت سے  یہ تعداد  تو تین سے  کہیں  آگے  بڑھ چکی ہے 
کیا واقعی روح کے  حصے  ہیں  ان معلومات سے  تو یہی اندازہ ہوتا ہے  کہ واقعتا روح کے  حصے  ہیں۔ جب کہ ایسا ہے  نہیں۔
پھر کیا وجہ ہے  کہ ہزاروں  برس سے  لوگ روح کو ناقابل تقسیم بھی کہہ رہے  ہیں اور اسے  حصوں  میں  بھی تقسیم کر رہے  ہیں اور اس تقسیم کے  تذکرے  میں  بھی تھوڑی بہت رد و بدل اور کمی بیشی کے  علاوہ مماثلت پائی جاتی ہے  تقریباً سبھی نے  ایک سی نوعیت کے  حصے  بخرے  کیئے  ہیں  روح کے۔
درحقیقت روح کے  حصے  نہیں  ہیں  روح کو  بعض غلط فہمیوں  کی بنا پر حصوں  میں  تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہ غلطیاں  درجِ ذیل ہیں۔
(1)  شناخت کی غلطی۔
(2)  باطن سے  لاعلمی۔
(1)  شناخت کی غلطی:۔
مذہبی کتابوں  میں  روح کا تذکرہ تو موجود ہے اور یہ مذہبی اطلاعات ہی روح یا انسان سے  متعلق صحیح ترین اطلاعات ہیں  لیکن ان اطلاعات پر کبھی کسی نے  سیر حاصل غور و فکر نہیں  کیا لہذا کوئی اسے  پورے  طور پر آج تک نہیں  سمجھ پایا۔ جنہوں  نے  یہ کوشش کی انہوں  نے  ان اطلاعات میں  اپنے  فکری اضافے  کر کے  ان تعریفوں  کو خلط ملط کر کے  بری طرح الجھا دیا ہے  وگرنہ مذاہب نے  روح کو حصوں  میں  تقسیم نہیں  کیا تو پھر یہ روح کو تقسیم کرنے  والے  کون ہیں  آیئے  ذرا جائزہ لیتے  ہیں۔
روح کے  حصے  ہیں !  یہ تعریف عام تعریف نہیں  ہے۔ عام لوگ تو روح کو ہی نہیں  جانتے  لہذا روح کے  حصوں  کو کیا جانیں گے۔
روح کے  حصے  ہیں  یہ ایک آدھ تعریف ہمیں  ہزاروں  برس کے  کاموں  میں  کہیں  کہیں اور خال خال ہی ملتی ہے اور یہ تعریف فکری تعریف نہیں  ہے۔ بلکہ یہ تعریف کرنے  والے  وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے  روحانی مشقوں  کی بدولت روح کا اور انسان کے  باطن کا مشاہدہ کیا ہے۔ انسان کے  باطنی تشخص کا مشاہدہ  و تجربہ رکھنے  والے  ہی روح کو حصوں  میں  تقسیم کرتے  ہیں۔
ہر دور کے  لوگ ہزاروں  برس سے  یہ غلطی کر رہے  ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے  کہ وہ انسان کے  باطنی اجسام کا مشاہدہ تو کرتے  ہیں لیکن انہیں شناخت نہیں  کر پاتے  اور شناخت نہ کر سکنے  کی وجہ باطن سے  لاعلمی ہے۔

(2)  باطن سے  لاعلمی:
جس طرح ایٹم کے  اندر ایک جہان دریافت ہو چکا ہے اور یہ دریافتیں  تا حال جاری ہیں  اسی طرح انسان کے  اندر بھی انسانوں  نے  ایک جہان دریافت کر لیا ہے۔ جب کہ باطن کا مشاہدہ کرنے  والے   ہر دور میں  موجود رہے  ہیں جواس جہان باطن کا مشاہدہ کرتے  رہے  ہیں۔ اور چونکہ اس جہان باطن کے  بارے  میں  کوئی علم کوئی معلومات موجود نہیں  ہیں  لہذا ہر دور کے  لوگوں  نے  اپنی زبان اپنے  الفاظ اور اپنے  انداز فکر میں  اس کا تعارف کروایا ہے۔ انہوں  نے  مختلف لطیف اجسام کا مشاہدہ کیا اور انہیں  روح کے  حصے  قرار دیا کسی نے  دو  اجسام کا تذکرہ کیا کسی نے  تین اور جدید دریافتوں  میں  تو AURA   کے  اندر چکراز کی تعداد سات دریافت ہو چکی ہے۔ اور مزید مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
انہیں باطنی اجسام کو مشاہدہ کرنے  والوں  نے  روح بھی کہا اور روح کے  حصے  بھی قرار دیا۔ سوال یہ ہے  کہ اگر یہ لطیف اجسام روح کے  حصے  ہیں  تو پھر ان میں سے  روح کونسی ہے ؟  درحقیقت نہ تو ان میں  سے  کوئی روح ہے اور نہ ہی یہ تمام دو یا تین یا سات اجسام روح کے  حصے  ہیں۔ یہ تقسیم باطن سے  لاعلمی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ مذاہب نے  باطن کو چیدہ چیدہ بیان کیا ہے  لیکن اس بیان کو پوری طرح سمجھا نہیں  گیا ان معلومات پر سیر حاصل ریسرچ کی ضرورت تھی اور ان معلومات سے  استفادہ کرنے  والوں  نے  بھی ان معلومات کو سمجھنے  کی بجائے  الجھا کر بری طرح خلط ملط کر دیا۔ اور یہی غلطی (لاعلمی کی وجہ سے ) مشاہدہ کر نے  والوں  نے  کی۔ باطن کے  بارے  میں  کوئی صحیح معلومات تو موجود نہیں  تھیں  لہذا انہوں  نے  جو مشاہدہ کیا اپنی معلومات کے  مطابق اپنے  انداز اور الفاظ میں  اسے  بیان کر دیا۔ اور اس جہان باطن سے  لاعلمی کے  سبب ہی ہر دور کے  لوگ یہ دو بڑی غلطیاں  کرتے  رہے  ہیں۔
(1)۔ وہ تمام لطیف اجسام میں  سے  روح کو شناخت نہیں  کر پائے۔
(2)۔ لطیف اجسام کو روح اور روح کے  حصوں  کے  طور پر متعارف کرواتے  رہے۔ اور ان تمام کو انہوں  نے  برے  طریقے  سے  خلط ملط بھی کر دیا کیونکہ وہ ان تمام کی انفرادی شناخت نہیں  رکھتے  تھے۔
(3)روح کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے  لیکن روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کیا جاتا۔
(4)روح کی تعریف کرنے  والے  جب روح کو ناقابلِ تقسیم کہہ کر پھر خود اسے  حصوں  میں  بھی تقسیم کرنے  لگتے  ہیں۔ روح کا مشاہدہ بھی کرتے  ہیں اور لطیف اجسام کو بھی روح اور اس کے  حصوں  کے  طور پر بیان کرتے  ہیں  تو خود ہی اپنی تضاد بیانیوں  کی لپیٹ میں  آ جاتے  ہیں اور بلاآخر یہ کہہ دیتے  ہیں  کہ یہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں۔
لہذا لطیف اجسام نہ روح ہیں اور نہ ہی یہ تمام روح کے  حصے  ہیں اور نہ ہی یہ تقسیم و تعریف درست ہے۔
تو پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے  کہ آخر انسان سے  وابستہ ان لطیف اجسام کی کیا حقیقت ہے  یہ لطیف اجسام روح کے  حصے  نہیں  ہیں  تو کیا ہیں  اور خود روح کیا ہے ؟ 
اس کتاب میں  روح کی پوری تاریخ میں  ہم نے  ان تمام سوالوں  کے  جواب دے  دیئے  ہیں اور صدیوں  کے  اس مسئلے  کا حل پیش کر کے  صدیوں  کی اس اُلجھن کو سُلجھا دیا ہے۔ لہذا
۱۔ روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی ہے اور یہ واضح کیا ہے  کہ
۲۔ تمام تر مادی و لطیف اجسام روح نہیں  ہیں  نہ ہی لطیف اجسام روح کے  حصے  ہیں
۳۔ تمام تر اجسام(مادی و لطیف) نفس ہیں۔
۴۔ روح جسم نہیں  ہے۔
۵۔ روح ان تمام اجسام سے  الگ اور منفرد ایک انرجی ہے !
روح واحد انرجی ہے۔
لہذا اب ہر روح و نفس کی انفرادی شناخت یہاں  ہم نے  قائم کر دی ہے  جس سے  یہ ثابت ہو گیا ہے  کہ
روح و اجسام الگ الگ اور  انفرادی حیثیت کے  مالک ہیں  لہذا لطیف اجسام روح یا روح کے  حصے  نہیں (جیسا کہ ماضی میں  بیان کیا جاتا رہا)بلکہ لطیف اجسام نفس ہیں۔ روح اجسام سے  الگ شے  ہے  یہ واحد انرجی ہے  جو ناقابلِ تقسیم ہے۔ لہذا روح کے  کوئی حصے  بخرے  نہیں  ہیں۔ لہذا روح  سے  متعلق صدیوں  کی الجھنیں  دور ہو گئیں اور یہ مسئلہ بھی آج یہاں  حل ہوا۔

No comments:

Post a Comment