Translate

22-انتقال--Transfer of human




باب نمبر ۱۱:    انتقال

  
               ترجمہ:ضرور تم منزل بہ منزل چڑھو گے۔ (۱۹) ۸۴

             ترجمہ: اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے
                  اور سب کے  سفر کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔ (۴۲) ۲۴

۱۱۷۔ انتقال۔                                                                                    
۱۱۸۔ انتقالی فارمولہ                                             
۱۱۹۔ انسان کی سفری روداد۔
۱۲۰۔ انتقال کیا ہے۔                                                                                        
۱۲۱۔ موت اور انتقال میں  فرق۔                              
۱۲۲۔ انسان کہاں  جا رہا ہے۔       
۱۲۳۔ دو احکامات
۱۲۴۔ علیین
۱۲۵۔ سجیین                           
۱۲۶۔ انسان کہاں  منتقل ہو گیا۔                                         
۱۲۷۔ عالم برزخ۔  
۱۲۸۔ عالم برزخ کہاں  ہے۔                                                                    
۱۲۹۔ برزخ میں  انسانی صورت۔                                 
۱۳۰۔ برزخی رہائش گاہ۔                                
۱۳۱۔ برزخ کیسی ہے۔                           
۱۳۲۔ نفسی زندگی۔
۱۳۳۔ مقید نفس۔
۱۱۳۴۔ آزاد نفس۔
۱۳۵۔ اجسام کی تعداد۔
۱۳۶۔ روشنی کا جسم۔
۱۳۷۔ نور کا جسم۔
۱۳۸۔ تمام باطنی اجسام فانی ہیں۔
۱۳۹۔ برزخ انتظار گاہ۔
۱۴۰۔ قیامت۔
۱۴۱۔ دوبارہ زند گی۔
۱۴۲۔ انسان کائناتی مسافر ہے۔
 ۱۴۳۔ انسانی کہانی۔
۱۴۴۔ انسانی سفر کے  پانچ ادوار۔
۱۴۵۔ انسانی زندگی کا سفر آغاز تا اختتام۔



117۔ انتقال

نظریہ نمبر۔ ﴿153﴾۔ ﴿لہذا جسم کی موت کے  بعد اس جسم میں  موجود باقی انسان یعنی اس انسان کی روح اور نفس اس مردہ جسم کو چھوڑ کر کہیں  منتقل ہو گئے  بقیہ انسان کی اسی منتقلی کو انتقال کہتے  ہیں۔ آئیے  موت کے  بعد اس انتقال کی وضاحت کرتے  ہیں ﴾
یاد کیجئے  انسان زمینی مخلوق نہیں  ہے۔ انسان کسی اور سیارے  یعنی جنت سے  زمین پہ وارد ہوا تھا(انسان کی جنت سے  زمین پہ آمد کی تفصیلات پچھلے  صفحات میں  تخلیق کے  عنوان سے  بیان کر آئی ہوں )انسان کی تخلیق جنت میں  ہوئی۔ انسان جنت کا رہائشی تھا وہیں  رہتا بستا تھا۔ ایک جرم کی پاداش میں سزا کے  طور پر انسان کو مختصر مدتِ حیات کے  لئے  زمینی سیارے  پر منتقل کر دیا گیا۔ زمین پر اس کا قیام مختصر و محدود ہے  یہاں  وہ کچھ عرصہ قیام کرے  گا پھر اُسے  واپس اپنی رہائش گاہ یعنی جنت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ اسی زمین سے  جنت کی طرف واپسی کے  عمل کو منتقلی یعنی انتقال کہتے  ہیں۔ انسان کا جنت سے  زمین تک آمد کا سفر تخلیقی عمل تھا تو اسی طرح انسان کا زمین سے  جنت(آخرت) تک کا سفر  فنائی عمل یعنی انتقال ہو گا۔ جیسے  انسانی تخلیق کا عمل با لترتیب واقع ہوا تھا ایسے  ہی انسان واپسی کا سفر(انتقال) بھی با لترتیب طے  کرے  گا۔ انسان کا تخلیقی سفر درج ذیل مدارج پر مشتمل تھا۔
۱۔ واحد انرجی کے  یکلخت انتشار سے
۲۔ تمام تر ارواح کی پیدائش عمل میں  آئی
۳۔ انرجی ایک قدم اور نیچے  اُتری مزید منتشر ہوئی تو نفوس کی پیدائش کا عمل واقع ہوا۔
۴۔ پھر پہلے  (آدم)مادی جسم کی تخلیق کا عمل واقع ہوا
۵۔ پھر جوڑے  کا قیام عمل میں  آیا یعنی حوا کی پیدائش
۶۔ جوڑے (آدم و حوا) کو جنت سے  زمینی سیارے  پہ اُتارا گیا
۷۔ اس جوڑے  سے  پیدائش کے  عمل کا آغاز ہوا اور اس طریقے  سے  نوعِ انسانی کا قیام عمل میں  آیا۔
انسان کا جنت سے  زمین تک کا  تمام سفر تخلیقی عمل پر مشتمل تھا۔ اور جیسے  انسان جنت سے  با لترتیب زمین پہ اُترا ہے  اسی طرح بالترتیب زمین سے  جنت کی طرف منتقل ہو گا۔ اور یہ واپسی کا سفر(انتقال)فنائی سفر ہو گا۔ اور جس طرح ہم نے  آمد کے  سفر کے  لئے  تخلیقی فارمولہ پیش کیا تھا اسی طرح اب ہمیں  فنائی سفر یعنی انتقال کی وضاحت کے  لئے  ایک انتقالی فارمولہ پیش کرنا ہو گا۔



118۔ انتقالی فارمولہ

نظریہ نمبر۔ ﴿154﴾۔ ﴿انتقالی فارمولے  کی ترتیب درجِ ذیل ہو گی۔ یعنی انسان کی واپس منتقلی کی ترتیب درجِ ذیل ہو گی
۱۔ مادی جسم کی موت۔
۲۔ نفس کی موت۔
۳۔ روح کی واپسی۔ ﴾
انسان جنت (آخرت) سے  آیا ہے اور وہیں  جا رہا ہے۔ لہذا اس سفر کی صورت کچھ یوں  بنی



119۔ انسانی سفری روداد

انسان کی جنت سے  زمین پہ آمد (تخلیق)      انتقال(انسان کی جنت کی  طرف واپسی(
      i
واحد انرجی سے                                        روح کی واپسی
      i                                       
ارواح کی پیدائش                              نفس کی موت
      i                                             
نفوس کی پیدائش                              مادی جسم کی موت
      i                                          
مادی جسم کی تخلیق                       موت                      انتقال
انسان کی جنت سے  زمین پر آمد کی تفصیلات تو ہم تخلیق کے  عنوان سے  پچھلے  صفحات میں بیان کر آئے  ہیں۔ اب یہاں  میں  نے  جو مزید انتقالی فارمولہ پیش کیا ہے  اب یہاں  ہم اس انتقالی فارمولے  کی با لترتیب وضاحت کریں  گے  تب سمجھ میں  آئے  گا کہ انتقال سے  دراصل ہماری کیا مراد ہے۔



120۔ انتقال کیا ہے  

نظریہ نمبر:۔ ﴿155﴾۔ ﴿مادی جسم کی موت کے  بعد(مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد)  باقی انسان( روح+نفس) کی نفس کی دنیا( عا لم برزخ) میں  منتقلی انتقال ہے۔ ﴾
یعنی انسان (روح+نفس) نے  جسم کی موت کے  بعد مادی جسم کو چھوڑ کر کہیں اور ہی بسیرا کر لیا۔ انسان کی اسی منتقلی کو انتقال کہتے  ہیں۔
یعنی انسان تو موجود ہے  اسکا جسم مرگیا لہذا انسان اسے  چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو گیا۔ روح مادی جسم میں  تھی تو مادی جسم زندہ تھا متحرک تھا۔ یہی روح جب مادی جسم سے  نکل گئی تو اب یہ جسم مردہ ہے۔ لیکن ابھی روح و نفس باقی ہیں۔ لہذا اب مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کی موجودہ صورت ہے
 روح+نفس(لطیف اجسام)=انسان 
یعنی محض جسم مرا ہے  انسان تو جوں  کا توں  موجود ہے  اپنی تمام تر خصوصیات کے  ساتھ بلکہ مادی جسم کی موت کے  بعد تو انسان کی خصوصیات میں  مزید اضافہ ہوا ہے  اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں  کہ یہ انسان کا دوسرا جنم ہے۔ اب ہم انسان کے  اس انتقال کی وضاحت ایک مثال سے  کرتے  ہیں۔  فرض کیجئے  ہمارے  درمیان ایک شخص ہے  جس کا نام احمد ہے۔ ہم سب احمد کے  کردار، خوبیوں، خامیوں اور اس کی تمام شخصیت سے  واقف ہیں۔ اسی احمد کے  جسم میں  گولی لگی !  جس کے  نتیجے  میں  اس کی روح نے  اس کا جسم چھوڑ دیا۔ یہ جسم مردہ ہو گیا !
لیکن احمد اب بھی موجود ہے  !
وہی احمد جسے  ہم سب جانتے  ہیں۔ جس کے  کردار اور شخصیت کو ہم پوری طرح جانتے  ہیں۔ وہی احمد اپنی پوری شخصیت سمیت موجود ہے۔ اس کی عقل حواس پورے  طور پر کام کر رہے  ہیں۔ بس فرق آیا ہے  تو یہ کہ اب اس ا حمد نے  مادی جسم اپنے  اوپر سے  اتار دیا اب وہ  مادی جسم کو اپنے  عملی ارادوں  کے  لئے  استعمال نہیں  کر سکتا اس لیے  کہ مادی جسم اب مر چکا ہے اور انسان کی صلاحیتوں  کے  اظہار کے  قابل نہیں  رہالہذا انسان اعمال یا عمل کی دنیا سے  نکل آیا لہذا اب وہ مادی جسم کے  ذریعے  اعمال سر انجام نہیں  دے  سکتا لہذا اب انسان مادی جسم استعمال نہیں  کر سکتا اس کے  علاوہ مادی جسم کی موت کی صورت میں  انسان کی شخصیت میں  کوئی کمی نہیں  آئی ہاں  اضافہ ہی ہوا ہے۔
یہ احمد اپنی شخصیت کا مظاہرہ جس مادی جسم کے  ذریعے  کر رہا تھا وہ جسم اب گولی لگ جانے  کی صورت میں  مردہ ہے   بے  حرکت ہے۔ اب وہ جسم احمد کی خصوصیات کے  مظاہرے  کے  قابل نہیں  رہا۔ لیکن احمد اور اس کی خصوصیات جوں  کی توں موجود ہیں۔ اب وہ ایک نئی حالت(روح+نفس)میں  موجود ہے
 لیکن اس منتقلی سے  مراد یہ ہرگز نہیں  کہ یہ اس کا دوسرا جنم ہے۔ انسان جسم کی موت کے  بعد دوبارہ پیدا نہیں  ہوا ! بلکہ یہ اس کے  ایک ہی جنم کی روداد ہے۔ پہلے  یہ انسان مادی جسم میں  تھا تو زندہ تھا اب مرچکا ہے۔ زندگی سے  مراد ہے  مادی جسم کی زندگی اور موت سے  مراد ہے  مادی جسم کی موت۔ روح یا نفس کی موت نہیں
یہ انسان جو زندگی (پیدائش) کی صورت میں  کہیں  سے  وارد ہوا تھا اب مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد وہیں  واپس جا رہا ہے اور موت کی صورت مادی جسم سے  منتقلی اس کے  ایک ہی سفر کی روداد ہے  یہ انسان کے  پہلے  جنم یا ایک ہی زندگی کی کہانی ہے۔ اور انسان کی آمد (پیدائش یا تخلیق) اور واپسی (منتقلی) کی روداد کو سمجھنے  کے  لئے   نفس اور روح کو جاننا ضروری ہے۔ روح اور نفس اور اس انتقال سے  لاعلمی کی بدولت آواگون کرما یا چکرا جیسے  نظریات نے  جنم لیا ہے۔
مثلاً مراقبہ اور مشاہدہ کرنے  والے  جب خود کو مادی جسم کے  بغیر کسی اور لطیف وجود کی صورت موجود پاتے  ہیں اور اپنے  دیگر باطنی اجسام کا بھی مشاہدہ کرتے  ہیں تو وہ اسے  دوسرا جنم تصور کر لیتے  ہیں اور دیگر اجسام کی موجودگی کو آواگون کے  نظریے  کی تصدیق تصور کرتے  ہیں۔
جب کہ مراقبہ کے  ذریعے  مشاہدہ کرنے  والوں  کو غور کر نا چاہییے  کے  کہ ابھی وہ مرے  نہیں  زندہ ہیں  ان کا جسم زندہ ہے اور وہ دیگر اجسام کا مشاہدہ کر رہے  ہیں۔ ایسے  ہی مشاہدات کی بنا پر انسان کی مادی جسم سے  لطیف جسم میں  منتقلی کو دوسرا جنم تصور کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ دوسرا جنم نہیں  بلکہ انسان مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد برزخ میں  منتقل ہو چکا ہے اور یہ واپسی کا سفر ہے اور یہ دوسرا جنم نہیں  بلکہ منتقلی کا عمل ہے  فنا کا عمل ہے۔ اور اس فنا کے  عمل اور اس انتقالی روداد کو جاننے  کے  لئے  ضروری ہے  روح اور نفس کا جاننا۔ جس کی ہم تفصیلی وضاحت پچھلے  صفحات میں  کر آئے  ہیں۔ لہذا ان تفصیلات کو جان لینے  کے  بعد در حقیقت اب ہم انتقالی روداد کے  بیان کے   قابل ہوئے  ہیں۔ اب ہم سمجھ سکتے  ہیں  کہ یہ انتقال کیا ہے۔



121۔ موت اور انتقال میں فرق

  اگرچہ موت اور انتقال دونوں  الفاظ زیر استعمال ہیں  لیکن ان دونوں  الفاظ کو ایک ہی معنی یعنی، موت کے  معنی میں  استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دونوں  الفاظ میں  فرق کو سمجھنے  کی کوشش نہیں  کی جاتی۔  جب کہ موت اور انتقال میں واضح فرق موجود ہے۔   
۱۔ موت کا مطلب ہے  جسم کی موت۔ انسان کی موت نہیں۔
۲۔ انتقال کا مطلب ہے  جسم کی موت کے  بعد اس جسم میں موجود انسان کی منتقلی یعنی اس جسم میں  موجود انسان کہیں اور منتقل ہو گیا۔ 
لہذا جسم کی موت سے  انسان کی موت واقع نہیں  ہو جاتی۔ اس لئے  کہ انسان محض جسم نہیں  اس کے  اندر نفس بھی ہے   روح بھی ہے۔ اور ابھی تو فقط جسم کی موت ہوئی ہے۔                                                                                                                                    
 لہذا جب ہم کہتے  ہیں کہ فلاں  مر گیا تو اس سے  مراد اس شخص کے  جسم کی موت ہوتی ہے۔
اسی مردہ شخص کے  بارے  میں  جب ہم کہتے  ہیں کہ انتقال کر گیا۔ تو اس سے  مراد ہے  کہ وہ شخصیت جو اس جسم میں  تھی وہ اس جسم کی موت کے  بعد اس جسم سے  نکل گئی، منتقل ہو گئی۔ کیونکہ اب یہ جسم مردہ ہے اور اس شخصیت کے  اظہار کی صلاحیت نہیں  رکھتا۔
انسان اور انسانی شخصیت جسم کی موت کے  بعد بھی موجود ہے۔ اس کی ایک عام سی مثال ہے  ہمارا لباس۔ ہم روزمرہ میں لباس بدلتے  ہیں۔ لباس پھٹ بھی جاتا ہے۔
لیکن لباس پھٹنے، بدلنے  یا بدلتے  رہنے  سے  ہم نہیں  بدل جاتے۔ لہذا لباس بدلنے  کے  بعد بھی ہم اور ہمارا جسم ہماری شخصیت وہی رہتی ہے۔ ہاں  لباس بدل جاتا ہے۔ یہی مثال ہے  انتقال کی۔ بالکل اسی طرح انسانی شخصیت پر سے  (موت کی صورت)مادی جسم کا لباس اترنے  سے 
۱۔ انسانی شخصیت میں  کوئی تبدیلی نہیں  ہوئی۔
۲۔ موت کی صورت مادی جسم حرکت و عمل سے  عاری ہو گیا(اس شخصیت کے  جسم سے  نکل جانے  سے )
۳۔ لیکن محض مادی جسم حرکت و عمل سے  عاری ہوا ہے  انسان (روح+نفس)نہیں۔
۴۔ فرق محض یہ پڑا ہے  کہ مادی جسم کی موت کے  بعد انسان اب اس  مادی جسم کو ارادی حر کت و عمل کے  لئے  استعمال نہیں  کر سکتا۔ اس کے  باوجود
۵۔ موت کے  بعد انسانی خصوصیات میں  کوئی کمی واقع نہیں  ہوئی بلکہ مزید اضافہ ہو گیا۔ ہزاروں  گنا اضافہ۔
۶۔ لہذا مادی جسم کی موت کے  بعد جسم کا خاتمہ ہوا ہے  انسان کا اختتام نہیں  ہو گیا۔ بلکہ انسانی شخصیت میں  کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جس کی صورت کچھ یوں  بنی۔
موت سے  پہلے  کا انسان =(روح+نفس(لطیف اجسام)+مادی جسم)=زندہ انسان
موت کے  بعد کا انسان=روح+نفس(لطیف اجسام)=مردہ انسان
مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد اگرچہ اب انسان جسمانی اعمال انجام نہیں  دے  سکتا تو کیا ہوا۔ اب وہ نفس کی صورت موجود ہے۔
جسم میں  رہتے  ہوئے  وہ محدود صلاحیتوں  کا مالک تھا تو جسم سے  مفارقت کے  بعد اب وہی انسان لا محدود صلاحیتوں  کا مالک انسان ہے۔
لہذا موت کے  بعد انتقال کی صورت  انسانی صلاحیتوں  میں  کمی نہیں  اضافہ ہو ا ہے  اب مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد انسان منتقل تو ہو گیا لیکن سوال یہ ہے  کہ وہ کہاں  منتقل ہو گیا، اور جسم کو زمین پر چھوڑ کر آخر انسان جا کہاں  رہا ہے۔ 
اب یہاں  ہم انتقال سے  متعلق مذہبی معلومات کو ترتیب دیتے  ہیں                                                                                                          


                                                                                                                                                                      

122۔ انسان جا کہاں  رہا ہے

نظریہ نمبر 156  ۔ ﴿موت کے  فوراً بعد انسان اپنے  رب سے  ملاقات کرنے  جا رہا ہے۔ ﴾                                                                 
افلاطون موت کے  تجربات بیان کرتے  ہوئے  لکھتا ہے  کے  موت کے  وقت انسان کے  ذہن میں  ہوتا ہے  کہ ایک کشتی آئے  گی جوان کو اس دنیا کے  پار دوسرے  کنارے  تک لے  جائے  گی۔جہاں  انہیں  موت کے  بعد رہنا ہو گا۔ اس کے  خیال میں  یہ جسم ایک قید خانہ ہے  جب کہ موت ان قیود سے  آ زادی کا نام ہے۔ اور پھر انسان ایک وسیع تر جہان میں  پہنچ کر سکھ کا سانس لیتا ہے۔ موت کے  فوراً بعد آدمی کو اس کے  مستقبل سے  آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ مقدس ہستی اس کے  سامنے  اس کے  دنیا میں  کئے  ہوئے  اچھے                                 اور بُرے  اعمال کھول کر رکھ دیتی ہے۔                                                                                                   
پہلی بار افلاطون کی یہ تحریر پڑھ کر مجھے  لگا کہ افلاطون اس زمانے  کی کوئی مذہبی یا پھر کوئی روایتی الف لیلوی داستان بیان کر رہا ہے۔                              
لیکن برسوں  کی تحقیق، تجربات، مشاہدات، اور مسلسل غور و فکر کے  بعد آج میں بھی اسی الف لیلوی داستان کا نظارہ کر رہی ہوں۔ اور جدید تحقیقات بھی اسی حقیقت کی گواہی  دے  رہی ہیں اور مذاہب بھی انہی حقائق کی نشاندہی کرتے  آئے  ہیں۔ در حقیقت یہ داستان حقیقت پر مبنی ہے۔ لیکن ہمیشہ اس حقیقت سے  صرفِ نظر کیا گیا
 ہوا یوں  کہ روح و نفس سے  لا علمی کے  سبب اس داستان کو خلط ملط کیا جاتا رہا اور اسی خلط ملط سے  یہ داستان بری طرح الجھ گئی ہے۔ جب کہ آج یہاں  ہم اسی داستان کو ترتیب دیں  گے۔ آج ہم جدید تحقیقات کے  نتیجے  میں  نہ صرف یہ کہ فرشتوں ، جنات  وغیرہ کا مشاہدہ کر رہے  ہیں  بلکہ آج ہم انسان کی روح و نفس اور انسان کی موت کے  بعد کے  حالات کا بھی مشاہدہ کر رہے  ہیں۔ لہذا آج یہ کہنا غلط ہو گا کہ جسم کی موت اور مادی جسم سے  مفارقت کے  بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔ آج ہمیں  یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ موت کے  ساتھ ہی انسان کی منتقلی کے  انتظامات ہونے  لگتے  ہیں۔ لہذا انسان کو لینے  کے  لئیے فرشتے  آئے  ہیں                                         
 موت کے  بعد محض کشتی ہی نہیں  آئی بلکہ فرشتے  بھی آئے  ہیں لہذا اب ہم موت کے  بعد کے  حالات کو ترتیب دیتے  ہیں اور اس قصے  کو بالترتیب بیان کرتے  ہیں۔                                                                                                                          
لہذا انسان کی روح تو جسم سے  نکل گئی لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں  ہو جاتا بلکہ انسان کی روح نکالنے  کے  لئے  باقاعدہ فر شتے  آتے  ہیں۔ یہ فرشتے  فرشتہ صورت بھی ہو سکتے  ہیں (نیک لوگوں  کے  لئیے ) اور مجرموں  کے  لئے  تو یہ بیڑیاں  لائے  ہیں۔ بڑی وردیاں  پہن کر آئے  ہیں  یہ تو بالکل سپاہی لگ رہے  ہیں۔ مجرموں  کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ یہ فرشتے  جنہوں  نے  خالق کے  حکم کے  مطابق روح کو بڑے  وعدے  وعید کے  بعد جسم میں  ڈالا تھا کہ ایک مقررہ مدت پہ تمہیں  واپس آنا ہے۔ اب وہ روح نکالنے  آئے  ہیں  تو روح کو اس کا عہد یاد کراتے  ہیں  کہ یاد کرو تم نے  واپسی کا عہد کیا تھا۔ نیک لوگوں  کے  لئے  تو یہ لمحہ خوشی اور آزادی کا ہے  جب کہ بدوں  کے  لئے  گرفتاری و قید کا لمحہ ہے۔ لہذا نیک تو بخوشی واپسی کے  لئے  تیار ہیں جب کہ بدوں  کو تعامل ہے۔ ایسے  مجرموں  کے  لئے  گرفتاری کا آڈر آیا ہے  کہ نکالو اپنی روح اے  فرشتوں  ان کے  جوڑ جوڑ پر مار مار کر نکالو ان کی روح، انہیں  پکڑو گھسیٹو گرفتار کر لو۔ لہذا نیک لوگوں  کی روح تو با آسانی نکل جاتی ہے  جب کہ بدوں  کی بڑی دیر کانٹوں  پہ گھسٹتی ہے  کیونکہ فرشتے  زبردستی اسے  پکڑ کر گھسیٹ رہے  ہیں۔ اور بلا آخر فرشتے  روح کا یہ کنکشن کاٹ دیتے  ہیں۔ اور روح جسم سے  جدا ہو جاتی ہے۔ اب جسم تو مر گیا زمین ہی پہ رہ گیا اب یہ فرشتے  روح کو لے  کر چلے  ہیں سواری بھی آئی ہے ۔ جی ہاں  یہ فرشتے  پیدل نہیں بلکہ اپنے  ساتھ سواری بھی لائے  ہیں۔                                                                              
افلاطون کے  خیال میں  یہ سواری کشتی ہے۔ لیکن یہ سواری محض کشتی نہیں، ہاں  یہ سواری کشتی بھی ہو سکتی ہے، آبدوز، بس جہاذ یا راکٹ بھی ہو سکتی ہے۔         
دراصل فرشتے  ہر اچھی بُری روح کے  لئے  حسبِ مراتب سواری لائے  ہیں۔ اعلی مرتبہ شخصیت کے  لئے  شاہی سواری ہے، براق(برق رفتار)، یعنی راکٹ سے
بھی جدید اور تیز رفتار سواری جو طویل ترین سفر کو پلک جھپکتے  میں  طے  کر لے  گی۔                                                                     
یہ سواری راکٹ جہاز یا آبدوز بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی بس بھی ہو سکتی ہے اور افلاطون کے  مطابق کوئی کشتی بھی۔ ہو سکتا ہے  کسی کے  لئے  محض پہیوں  والی ریڑھی آئی ہو ہو سکتا ہے  کسی کو یہ لمبا طویل سفر چلتے  گھسٹتے  پیدل ہی طے  کرنا ہو۔ بحر حال سواری اعمال کی مناسبت سے  حسبِ مراتب ہی ہو گی۔

دیگر مسافر بھی  ہیں                                
اس سواری میں  ایک آپ ہی مسافر نہیں  ہے۔ اور بھی مسافر ہیں  سواری فُل ہے۔ اس سواری کے  تمام مسافر ہم مرتبہ ساتھی ہیں۔ کیونکہ محض ایک شخص کی موت نہیں  ہوئی بلکہ اس جیسے اور بھی بہت سے  لوگ فوت ہوئے  ہیں۔ یعنی یہ فرشتے  ایک ہی جیسے  ہم مرتبہ لوگوں  کو ایک سواری میں  بٹھا کر لے  جا رہے  ہیں۔ بُرے  لوگ ہیں  تو سواری بھی بُری ہے اور یہ مسافر اس بُری اور بد وضع سواری میں  ٹھنسے  ہوئے  پسینے  کی بو اور شور سے  گھبرا رہے  ہیں۔ کچھ روحیں  نیک اعمال کے  سبب خوشبو دار ہو گئیں  ہیں۔                                                                                         
جب کہ بُرے  لوگوں  کی بد اعمالیوں، گنا ہوں  نے  ان کے  نفوس کو بگاڑ دیا جسموں  کو گلا دیا۔ اب بد بو اُٹھ رہی ہے۔ یہ ہے  اعمال کی بو۔ انہیں  رب سے  ملاقات کے  لئے  لے  جانے  والے  فرشتے  ان کی اس خوشبو و بد بو سے  متاثر ہو رہے  ہیں۔ خوشبو والے  نیک شخص کو پسند کرتے  ہیں  توبدکی بدبو سے  گھبرا رہے  ہیں۔   
مسافر اور سفر ناگوار ہے۔ کچھ کو یوں  لگ رہا ہے  جیسے  وہ کسی بلیک ہول میں  گر رہے  ہیں، کچھ خود کو کسی خطرناک پہاڑپہ چڑھتا پاتے  ہیں۔                                                      
اچھے  لوگ ہیں  تو سواری بھی اچھی ہے اور سفر بھی اچھا ہے۔ سواری بڑی اچھی فرنشڈ، صاف ستھری اور کھلی ہے۔ سوار بڑے  اچھے، صاف ستھرے، سوٹڈ بوٹڈ ہیں۔ اچھی گاڑی روانی سے  اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ کوئی خوبصورت سیارہ آتا ہے  تو وہاں  گاڑی رک جاتی ہے۔ سب مسافر اس حسین منظر کا نظارہ کرنے  گاڑی سے  اُترتے  ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ موت کی صورت میں مادی جسم سے  مفارقت کے  فوراً بعد فرشتے  مختلف سواریوں پہ سوار کر کے  ان سواروں  کو با اہتمام کہاں  لے  جا رہے  ہیں۔                         
                                                                                                                                                                                  
 رب سے  ملاقات
فرشتے  روح کو جسم سے  نکالتے  ہی رب سے  ملاقات کے  لئے  لے  جا رہے  ہیں۔                                                                
لیکن کچھ بدبخت ایسے  ہیں کہ وہ مرتے  ہی ایسے  پھنستے  ہیں  کہ یہ رب سے  ملاقات بھی ان کے  نصیب میں  نہیں  ہوتی۔                                            
لہذا مرتے  ہی(جسم کی موت کے  بعد)انسان(اس کی روح)کو رب کے  سامنے  کھڑا کر دیا گیا۔                                                         
مر کر زندہ ہوئے  لوگوں  کا کہنا ہے  کہ ہماری ایک بزرگ ہستی سے  ملاقات ہوئی۔ نوٹ کر لیجیے  وہ بزرگ کوئی ہستی نہیں بلکہ وہ بزرگ جس سے  مر کر لوگ ملاقات کرتے  ہیں  سب سے  بزرگ تر یعنی ہم سب کے  خالق ہیں۔                                                                                 
 یعنی موت کے  بعد بزرگ ہستی سے  ملاقات دراصل رب سے  ملاقات ہے۔                                                                      
مرتے  ہی انسان اپنے  خالق کے  سامنے  کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اب انسان کا رب اس سے  سوال کرتا ہے۔                                                    
میرے  لئے  کیا (یعنی زندگی بھر کیا اچھے  اعمال کئے  )لائے  ہو۔؟                                                                              
اور پھر جواباً خالق نے  خود ہی انسان کو اس کی پوری زندگی دکھا دی ا ور انسان نے   چند لمحوں  میں اپنی پوری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ اپنی نظروں  کے  سامنے  ایسے  دیکھ لیا جیسے  وہ دنیا میں  اپنی نظروں  کے  سامنے  فلم چلتی دیکھتا تھا۔ آج یہاں ، اس وقت انسان کی بولتی بند ہو گئی  (آج اس کی زبان بند ہے  آج اس کے  ہاتھ پیر (اس کی حرکت و عمل کا اپنا ریکارڈ)گواہی دیں  گے )انسان نے  اپنی آنکھوں  سے  دیکھ لیا کہ اس کی اس ریکارڈ فلم میں  اس کی پوری زندگی کا ہر ہر عمل ہر حرکت ریکارڈ ہے  حتی کہ اس انوکھے  ریکارڈ میں  تو اس کی نیت اس کا ارادہ تک ریکارڈ ہے۔ اب کیا ہو گا۔ سوچ کر تو آیا تھا کہ رب کے  سامنے  یہ یہ جھوٹ بو لوں  گایہ بہانہ بنا دوں  گا، اپنے  اعمال کا قصور وار فلاں  کو ٹھہرا دوں  گا۔ لیکن اب اپنا یہ اعمال نامہ(ریکارڈ فلم)دیکھنے  کے  بعد تو کہنے  سننے  کو کچھ بچا ہی نہیں۔ (آج اپنا حساب کرنے  کے  لئے  تو خود ہی کافی ہے ) لہذا یہ ریکارڈ دیکھ لینے  کے  بعد دو باتوں  کا فیصلہ ہو گیا
۱۔ انسان کی پوری  زندگی کے  ریکارڈ سے  معلوم ہو گیا کہ یہ کس درجہ کا انسان ہے (اچھا ہے  یا بُرا انسان ہے )
۲۔ اس کے  انجام کا تعین ہو گیا کہ اچھا انجام ہے  یا بُرا۔
یہ سب انسان نے  خود ملاحظہ کر لیا اور یہ دیکھ کر بد انسان تو مایوس ہو گیا اب التجا کر رہا ہے  کہ ایک بار اسے  دوبارہ زند گی دے  دی جائے  تو وہ اچھے  اعمال کرے  گا لیکن اس کی اس التجا کو فضول قرار دے  کر رد کر دیا گیا ہے  اس لئے  کہ موجودہ زند گی اسی مقصد کے  لئے  دی گئی تھی جس میں  وہ ناکام رہا اور اب دوبارہ یہ مطالبہ کرنا بے  کار ہے  لہذا رب کے  سامنے  اس حاضری کے  بعد اب دو احکامات کا نفاذ ہوا ہے۔



 -123دو احکامات

اب اس حاضر انسان کے  لئے  رب نے  دو احکامات جاری کیئے  ہیں۔
۱۔ اس حاضر شخص کے  اعمال کا ریکارڈ(اعمال نامہ)، ریکارڈ روم(علیین یاسجیین) میں  محفوظ کر دو۔
۲۔ اس شخص کو حساب کے  دن( یومِ حشر) تک کے  لئے  ایک عارضی رہائش گاہ (برزخ) میں  منتقل کر دیا جائے۔
لہذا انسان نے  پوری زندگی اپنی مرضی سے  جو بھی اعمال سر انجام دیئے   اس کا پورا ریکارڈ  موت کے  بعد محفوظ کر دیا گیا اب انسان اس ریکارڈ میں  کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں  کر سکتا۔ یہ ریکارڈ دو مختلف جگہوں  پر محفوظ کیئے  گئے  ہیں۔

124۔ علیین

جن کے  اعمال  اچھے  ہیں  ان کے  لئے  الگ ریکارڈ روم ہے ، جس کا نام علیین ہے۔ اس ریکارڈ روم میں اچھے  لوگوں  کی زندگی کی ریکارڈ سی ڈیز(ڈیٹا) محفوظ کی گئی ہیں۔

125۔ سجیین

جن کے  اعمال بُرے  ہیں  ان کے  لئے  الگ ریکارڈ روم ہے ، جس کا نام سجیین ہے۔ اس ریکارڈ روم میں بُرے  لوگوں  کی زندگی کی ریکارڈ سی ڈیز محفوظ کی گئی ہیں۔
اب انسان کے  اعمال کا ریکارڈ تو علیین اور سجیین یعنی ریکارڈ روم میں  محفوظ کر دیا گیا ہے  اب انسان کسی دوسرے  تیسرے  جنم کی فرضی داستان کے  ذریعے  اس ریکارڈ میں  ذاتی ارادے  سے  کوئی رد و بدل نہیں  کر سکتا جب تک انسان زندہ تھا جب تک وہ اپنے  اعمال نامے  میں  رد و بدل کر سکتا تھا اچھے  اعمال کر کے  اسے  اچھا ریکارڈ بنا سکتا تھا لیکن مادی جسم کی موت کے  بعد یہ ریکارڈ اس سے  لے  کر ریکارڈ روم میں  محفوظ کر دیا گیا ہے  لہذا اب انسان اس ریکارڈ میں  کوئی رد و بدل نہیں  کر سکتا اب یہ ریکارڈ اچھا بُرا جیسا بھی ہے  اسی ریکارڈ کے  مطابق حساب کے  دن اس سے  حساب لیا جائے  گا۔ اعمال کا ریکارڈ تو محفوظ ہو گیا اب دیکھنا یہ ہے  کہ باقی انسان کہاں  گیا۔



126۔ انسان کہاں  منتقل ہو گیا

موت کے  بعد انسان کو عارضی طور پر برزخ میں  منتقل کر دیا گیا ہے۔ اور انسان برزخ میں  حساب کا دن آنے  تک عارضی قیام کرے  گا۔ موت کے  بعد انسان منتقل تو ہو گیا لیکن آخر انسان کہاں  منتقل ہو گیا۔؟سوال یہ ہے  کہ یہ برزخ کیا ہے۔؟ اور یہ برزخ کہاں  ہے۔؟ اور مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کہاں۔؟اور کس صورت۔؟ اور کن حالات میں  موجود ہے۔؟

127۔ عالمِ برزخ(نفس کی دنیا)

انسانی مادی نظر کے  سامنے  ایک پردہ حائل ہے  یہی پردہ برزخ ہے۔
یعنی برزخ کہیں اور نہیں  اسی زمین پر موجود ہے   لیکن مادی آنکھ اسے  دیکھ نہیں  پا رہی مادی آنکھ کی راہ میں  ایک پردہ حائل ہے  اور اسی پردے  کی موجودگی کے  سبب زندہ لوگوں  کو اپنے  قریب موجود پردے  کے  پیچھے  اپنے  مُردہ عزیز و اقارب نظر نہیں  آ رہے۔ اس غیر مُرئی پردے  نے  ایک ہی زمین پر موجود زندہ و مُردہ لوگوں  کو دو الگ الگ جماعتوں  میں  تقسیم کر رکھا ہے۔ اس برزخی پردے  کی دنیاوی مثال سمندری پانی کی ہے  سمندر کے  پانی میں  میٹھا اور کھارا پانی ساتھ ساتھ ہوتے  ہیں  لیکن ان کے  درمیان ایک غیر مُرئی پردہ حائل ہوتا ہے  جس کی وجہ سے  ایک ہی جگہ پر موجود مائع کھارا اور میٹھا پانی ایک دوسرے  سے  الگ رہتا ہے اور مکس نہیں  ہوتا۔ ایسی ہی غیر مرئی دیوار زندہ اور مردہ انسانوں  کے  درمیان حائل ہے  یہی پردہ برزخ ہے۔ جسم کی موت کے  بعد انسان اس پردے  کے  دوسری طرف داخل ہو جاتا ہے  اب انسان مادی جسم سے  باہر ہے  اب اس کی نظر وسیع ہے  اب اس کی نظر میں  کوئی پردہ حائل نہیں، اصل میں  یہ پردہ ہماری اپنی نظر کی راہ میں  حائل ہے ، اس لئے  کہ برزخی دنیا روشنی کی فضا ہے اور ہماری نظر ہماری ہی زمین پر موجود روشنی کی اس لطیف فضا اور اس روشنی کی لطیف فضا میں  موجود روشنی کے  اجسام کی صورت موجود اپنے  عزیزو اقارب اور دیگر روشنی کی اشیاء کا مشاہدہ نہیں  کر سکتی جب کہ دنیا میں  ہی کچھ لوگ جن کی نظر کی وسعت زیادہ ہوتی ہے  وہ برزخی دنیا اور برزخی لوگوں  کا مشاہدہ کرتے  ہیں، مخصوص عبادت وریاضت کے  ذریعے  بھی اپنے  اندر روشنی کا مہیج بڑھا کر ہم اس برزخی دنیا کا اور اپنے  مُردہ رشتہ داروں  کا مشاہدہ کر سکتے  ہیں۔ اب جب کہ انسان جسم کی موت کے  بعد مادی کثیف لباس اُتار کر اسی برزخی دنیا میں  اس برزخی پردے  کے  دوسری طرف آ گیا ہے، یعنی اب چونکہ انسان خود روشنی کے  جسم کی صورت میں  روشنی کی فضا میں  موجود ہے  لہذا اب اس کی نظر وسیع ہے  اب  انسان اپنی روشنی کی وسعتِ نظر سے  پوری روشنی کی دنیا بلکہ مزید دنیاؤں  کے  نظارے  کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے  کہ یہ برزخ کہاں  ہے



128۔ عالمِ برزخ (نفس کی دنیا)کہاں  ہے 

جہاں  انسان کا جسم ہے  وہیں  انسان کا برزخ قائم ہو گیا ہے۔
مادی جسم کی موت کے  بعد ہر مذہب کے  لوگ اپنے  اپنے  رواج کے  مطابق مردہ جسم کا انتظام کرتے  ہیں  کچھ مردہ جسم کو زمین کے  نیچے  قبر میں دفنا دیتے  ہیں ، کچھ جسم کو جلا کر اس کی راکھ دریا میں  بہا دیتے  ہیں، کچھ جسم کو چیل کووں  کی خوراک بننے  کے  لئے  الگ رکھ دیتے  ہیں، اور کچھ بھوکے  انسان مُردوں  کو بھی کھا جاتے  ہیں۔ بہر حال جسم کے  ساتھ جو بھی ہو اسے  اس کی موجودہ حالت میں  قبر میں  رکھا جائے  یا جلا دیا جائے  یا ذروں  کی صورت میں  بکھیر دیا جائے  یا وہ چیل کووں یا انسانوں  کے  پیٹ میں  چلا جائے۔ جسم جہاں  بھی ہو گا وہیں  اس کا برزخ قائم ہو جائے  گا۔

129۔ برزخ(نفس کی دنیا) میں  انسانی صورت

برزخ میں  انسانی صورت درج ذیل ہو گی
برزخ میں  انسانی صورت =  مُردہ جسم +نفس +روح =انسان
مُردہ جسم جہاں  بھی ہے  باقی انسان یعنی نفس اور روح بھی وہیں  موجود ہیں۔ (لہذا اس برزخی رہائش گاہ میں  پورا انسان یعنی مردہ مادی جسم( چاہے  وہ کسی بھی صورت میں  ہو)نفس، روح سب موجود ہے۔ اب اس رہائش گاہ میں  جسم مُردہ حالت میں  موجود ہے  لہذا انسان اب اس مُردہ جسم کا استعمال نہیں  کر سکتا اب انسان مادی جسم سے  اعمال سرانجام دے  کر اپنے  اعمال نامے  میں  کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں  کر سکتا اعمال نامہ جسم کی موت کے  ساتھ ہی انسان سے  لے  لیا گیا ہے  جیسے  امتحان گاہ میں  پیپر کا ٹائم ختم ہوتے  ہی پیپر واپس لے  لیا جاتا ہے۔ لہذا یومِ حساب کے  لئے  انسان نے  جو بھی اعمال کرنے  تھے  وہ مادی جسم میں  رہتے  ہوئے  کر لئے  اب جسم کی موت کے  بعد ایک پیپر کی طرح انسان سے  اس کا تیار کردہ اعمال نامہ واپس لے  لیا گیا ہے اور اسی کے  مطابق اب اس سے  حساب ہو گا لہذا مادی جسم برزخی رہائش گاہ میں  بے  کار پڑا ہے۔ اب جو انسان نفس کی صورت متحرک ہے  تو اپنے  انہیں  اعمال کے  حساب سے  متحرک ہے  جو وہ دنیا میں  زندگی میں  کر آیا ہے۔ اچھے  عمل کئیے  تھے  تو نفس ان اچھے  اعمال سے  صحت مند، فعال اور متحرک ہو گیا ہے۔ برے  عمل کئیے  تھے  تو گنا ہوں  سے  نفس بیمار اور مردہ جسم کی طرح بے  کار پڑا ہے۔
 جسم کی موت کے  بعد جہاں  بھی جسم ہے  وہیں  پر باقی انسان بھی موجود ہے  اگر جسم قبر میں  ہے  تو اس جسم کی روح اور نفس بھی یہیں  موجود ہیں  لہذا جہاں  جسم ہے  وہیں ہے   پورا انسان۔ لہذا برزخ میں  انسانی صورت درجِ ذیل ہے۔
برزخ میں  انسانی صورت =  مُردہ جسم +نفس +روح =انسان

130۔ برزخی (نفس کی)رہائش گاہ

لہذا جہاں  انسان کا جسم ہے  وہیں  اس کی برزخی رہائش گاہ کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ انسان کے  اعمال کے  مطابق انسان کی اس عارضی رہائش گاہ کو ترتیب دے  دیا گیا ہے۔ یہ رہائش گاہ بالکل ویسی ہی ہے  جیسی دنیا میں  تھی یعنی جیسا انسان کا گھر دنیا میں  تھا ویسا ہی گھر برزخ میں  ہو گا۔ عموماً ہر شخص کی برزخی رہائش گاہ اس کے  اعمال کے  مطابق ہوتی ہے  لہذا اعمال عمومی ہیں  تو برزخی رہائش گاہ دنیاوی رہائش گاہ کی ہی صورت ہو گی لیکن اگر اعمال اچھے  یا بہت اچھے  ہیں  تو یہ برزخی رہائش گاہ اعمال کے  حساب سے  اچھی اور بہت اچھی ہو گی۔ اگر اعمال برے  ہیں  تو رہائش گاہ بھی اسی مناسبت سے  ہو گی۔ یعنی برزخی رہائش گاہ اعمال کے  حساب سے  حسبِ مرتبہ دی جائے  گی۔

131۔ برزخ(نفس کی دنیا) کیسی ہے

برزخ  رنگ و روشنی کی نرم و لطیف دنیا ہے۔ یہاں  بشمول انسان سب کچھ وہی ہے  جو سب کچھ دنیا میں  موجود تھا، فرق یہ ہے  کہ مادی دنیا میں  سب کچھ مادی تھا یہاں  سب کچھ رنگ و نور سے  بنا ہوا ہوتا ہے۔
دراصل انسان اور (ہر مادی شے  )جسمانی مادی جسم کی موت کے  بعد اپنا یہ مادی کثیف جسم اپنے  اوپر سے  اُتار دیتا ہے اور یہ کثیف لباس اُتارنے  کے  بعد اب انسان ہے  تو وہیں  موجود لیکن اپنی لطافت اور موجودہ روشنی کی ہیئت کی وجہ سے  مادی آنکھ سے  اوجھل ہو گیا ہے  یہ ایسے  ہی ہے  جیسے  کوئی انسان ہمارے  درمیان ہی موجود ہے  لیکن اس نے  کوئی سلیمانی ٹوپی پہن لی ہے  اس لئے  ہمارے  درمیان ہونے  کے  باوجود نظر نہیں  آتا۔ لہذا برزخ بھی ایک باریک پردے  کے  پیچھے  ہم سے  تھوڑا سا اوپر ہمارے  ہی سیارۂ زمین پر موجود ہے، ہاں  بس ہم اپنی کوتاہ نظری کی بدولت اسے  دیکھ نہیں  پا رہے 
اب انسان برزخی دنیا میں اپنی برزخی رہائش گاہ پر عارضی قیام کرے  گا اور یہ برزخی زندگی نفسی زندگی ہے۔




132۔ نفسی زندگی

 برزخی زندگی نفسی (AURA)زندگی ہے۔ مادی جسم تو موت کا شکار ہو گیا جب کہ نفس (AURA)ابھی زندہ اور متحرک ہے اور موت کے  بعد کی زندگی نفسی زندگی ہے۔
یہاں  عالمِ برزخ میں  اگرچہ انسان کا جسم بھی اس کی برزخی رہائش گاہ میں  ہی موجود ہے  لیکن یہ مُردہ جسم انسان نے  پُرانے  کپڑے  کی طرح اپنے  جسم سے  اُتار دیا ہے  لہذا اب یہ مادی جسم برزخی رہائش گاہ  کے  ایک کونے  میں  کسی بے  کار بوسیدہ کپڑے  کی طرح پڑا ہے۔ لہذا اس برزخی رہائش گاہ میں  پورا انسان یعنی مادی جسم( چاہے  وہ کسی بھی صورت میں  ہو)نفس، روح سب موجود ہے۔ اب اس رہائش گاہ میں  جسم مُردہ حالت میں  موجود توہے  لیکن انسان اب اس مُردہ جسم کا استعمال نہیں  کر سکتا اب انسان مادی جسم سے  اعمال سرانجام دے  کر اپنے  اعمال نامے  میں  کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں  کر سکتا اعمال نامہ جسم کی موت کے  ساتھ ہی انسان سے  لے  لیا گیا ہے  جیسے  امتحان گاہ میں  پیپر کا ٹائم ختم ہوتے  ہی پیپر واپس لے  لیا جاتا ہے۔ لہذا یومِ حساب کے  لئے  انسان نے  جو بھی اعمال کرنے  تھے  وہ مادی جسم میں  رہتے  ہوئے  کر لئے  اب جسم کی موت کے  بعد ایک پیپر کی طرح انسان سے  اس کا تیار کردہ اعمال نامہ واپس لے  لیا گیا ہے اور اسی کے  مطابق اب اس سے  حساب ہو گالہذا مادی جسم برزخی رہائش گاہ میں  بے  کار پڑا ہے۔ اب جو انسان نفس کی صورت متحرک ہے  تو اپنے  انہیں  اعمال کے  حساب سے  متحرک ہے  جو وہ دنیا میں  زندگی میں  کر آیا ہے۔ لہذا برزخ میں  انسان کی زندگی نفسی زندگی ہے اور یہ زندگی انسان کے  دنیاوی اعمال کے  نتیجے  کی مناسبت سے  ہے۔

133۔ مقید نفس

مادی زندگی میں بُرے  اعمال کرنے  والے  بُرے  انسان کا نفس موت کے  بعد مقید نفس ہے۔
زندگی میں  اعمال بُرے  تھے  تو نفس آزاد نہیں  بلکہ برزخی رہائش گاہ میں  مقید ہے۔ یہ قید اس کی دنیاوی مجرمانہ سر گرمیوں  کا نتیجہ ہے   جیسے  ایک مجرم کو جُرم کے  بعد بطورِ سزا جیل میں  ڈال دیا جاتا ہے  اسی طرح نفس کو زندگی کی بد اعمالیوں  کے  صلے  میں  برزخ میں  اس کی برزخی رہائش گاہ میں  قید کر دیا گیا ہے۔

134۔ آزاد نفس

جس شخص کے  دنیا میں  اعمال اچھے  تھے  اس کا نفس برزخ میں  آزاد ہے اور نفس برزخی دنیا میں  اپنے  ان اچھے  اعمال کی وجہ سے  صحت مند، فعال اور متحرک ہو گیا ہے۔ لہذا اپنے  اعمال کے  مطابق کائناتوں  کی سیر کرتا پھر رہا ہے۔
 عالمِ برزخ میں  انسان اب نفس کی صورت متحرک ہے۔ لہذا برزخی زندگی نفسی زندگی ہے۔ اور نفس محض مفروضہ نہیں  بلکہ جسم ہے  لطیف جسم اور نفس محض جسم بھی نہیں  بلکہ اجسام کے  مجموعے  کویہاں  ہم نے  نفس کہا ہے۔ یعنی تمام تر اجسام نفس ہیں  اور برزخ میں  انسان چونکہ اب نفس کی صورت میں  موجود ہے  اب دیکھنا یہ ہے  کہ انسان اپنے  ان تمام تر اجسام کے  ساتھ برزخ میں  کیسے اور کیا کر رہا ہے۔
نفس کے  اجسام۔ باطن مجموعہ ہے   روح +نفس کا اور نفس مجموعہ ہے  تمام تر اجسام کا لہذا تمام تر باطنی اجسام نفس کے  زُمرے  میں  آئیں  گے  جب کہ مشاہدہ کرنے  والے  ان لطیف اجسام کو روح یا روح کے  حصے  یا ماورائی یا باطنی مخلوق یا کچھ اور کہ دیتے  ہیں  یہ سب ان کی ذاتی اختراعات ہیں  دراصل یہ تمام لطیف اجسام نفس کے  اجسام ہیں جس کی ہم پچھلے  صفحات میں  وضاحت کر آئے  ہیں۔

135۔ اجسام کی تعداد

نظریہ نمبر۔ ﴿157﴾۔ ﴿اعمال مجسم ہو جاتے  ہیں  لہذا ایک شخص کے  جتنے  زیادہ مسلسل اور اچھے  اعمال ہیں  اتنے  ہی اس کے  باطنی اجسام ہیں ﴾
اب سوال یہ ہے  کہ ان نفسی اجسام کی تعداد کیا ہے۔
ماضی میں اور آج بھی مشاہدہ کرنے  والے  جو بھی اور جتنا بھی مشاہدہ کرتے  ہیں  اپنے  اسی مشاہدے  کے  مطابق وہ ان لطیف اجسام کی تعداد کا تعین کرتے  ہیں۔ مثلاً بعض کا خیال ہے  کہ یہ لطیف اجسام روح کے  حصے  ہیں  جن کی تعداد تین ہے، کچھ کا خیال ہے  کہ یہ چکراز یا سبٹل باڈیز ہیں  جن کی تعداد سات ہے ، کوئی یہ کہنے  کی کوشش کر رہا ہے  کی یہ لطیف نفسی اجسام دراصل باطنی مخلوقات ہیں  جن کی تعداد سولہ ہے۔ در حقیقت یہ تمام اندازے  باطن سے  لاعلمی پر مبنی غلط اندازے  ہیں۔ لہذا مشاہدہ کرنے  والا جو ذاتی مشاہدہ کرتا ہے   وہ اپنے  اس مشاہدے  کو اپنے  الفاظ میں  بیان کر دیتا ہے۔ لہذا باطنی اجسام کا مشاہدہ تو ٹھیک ہے  لیکن یہ اس کا ذاتی مشاہدہ ہے  جس کا اطلاق ہر شخص پر نہیں  ہو گا دوسری بات یہ ہے  کہ مشا ہدے  کے  بیان کے  یہ الفاظ بھی اس کے  ذاتی الفاظ ہیں  جو علمی معیار پر پورے  نہیں  اُترتے  جن کی کوئی علمی حیثیت نہیں  ہے۔ حقیقت میں
ہر پیدا ہونے  والے  عام شخص کے  پیدائشی طور پر نفس کے  تین اجسام ہوتے  ہیں (۱۔ مادی جسم، ۲۔ روشنی کا جسم، ۳۔ نور کا جسم)جب کہ عملی یعنی اعمال کی زندگی میں  قدم رکھنے  کے  بعد اچھے اور مستقل  اعمال کرنے  والے  لوگوں  کے  یہ مستقل اعمال مزید اجسام کی صورت میں  ظاہر ہوتے  ہیں، یعنی اچھے  لوگوں  کے  مزید نفسی اجسام بھی ہوتے  ہیں۔ یہ عملی  نفسی اجسام کتنے  ہوتے  ہیں  کیسے  ہوتے  ہیں۔ تو جواب یہ ہے  کہ جس شخص کے  جتنے  اچھے  مستقل اعمال ہو گے  اتنے  ہی اس کے  اجسام ہوں  گے، لہذا کسی شخص کے  باطنی اجسام کا تعین وہی شخص کر سکتا ہے  جو اسکا مشاہدہ کرتا ہے۔ محض اندازے   سے  کسی یا ہر شخص کے  باطنی اجسام کا تعین کرنا غلطی ہے اور ایک شخص کے  باطنی اجسام کی تعداد کو ہر شخص کے  باطنی اجسام کی تعداد قرار دینا بھی بڑی غلطی ہے۔ لہذا اب یہاں  ہم باطنی اجسام کی تعداد کا صحیح معیار قائم کرتے  ہیں۔
۱۔ ہر انسان کے  پیدائشی باطنی اجسام کی تعداد=روشنی کا جسم+نور کا جسم
۲۔ موت کے  بعد ہر شخص کے  باطنی اجسام کی تعداد=اعمال کے  حساب سے  ہو گی جتنے  اچھے اور مستقل اعمال ہوں  گے  اتنے  ہی باطنی اجسام زیادہ ہوں  گے۔
کچھ لوگوں  نے  اپنے  اعمالِ بد سے  اپنے  پیدائشی اجسام(روشنی و نور کے  اجسام)کو بھی خراب کر لیا لہذا یہ بھی مادی جسم کی طرح موت کے  بعد نیم مُردہ حالت میں پڑے  ہیں  اپنی  بد اعمالیوں  کے  نتیجے  میں  اپنی پرواز کی قدرتی صلاحیتوں  سے  بھی ہاتھ دھو بیٹھے  ہیں جب کہ اچھے  اعمال والوں  کے  اچھے  اعمال نے  ان کے  نہ صرف موجودہ روشنی و نور کے  اجسام کی صلاحیتوں  میں  اضافہ کیا ہے  بلکہ ان کے  مزید اعمال مزید اجسام کی صورت میں  ان کے  ساتھ ہیں  لہذا موت کے  بعد اچھے  لوگوں  کی صلاحیتوں  میں  بے  تحاشا اضافہ ہو گیا ہے  لہذا موت کے  بعد اب تو وہ ہواؤں  میں  اُڑتے  پھر رہے  ہیں

136۔ روشنی کا جسم

نظریہ نمبر۔ ﴿158﴾۔ ﴿مادی جسم کی موت کے  بعد اب انسان روشنی کے  جسم کی صورت موجود ہے  
 مادی جسم کی موت کے  بعد اب انسان اپنے  مادی جسم سے  نکل کر اپنے  روشنی کے  لطیف جسم (نفسAURA) کے  اندر موجود ہے۔ یہی انسان جب مادی جسم اور مادی ذرات میں  قید تھا تو ان ذرات کے  بوجھ تلے  دبا زمین سے  چپکا ہوا تھا انسان کے  پاؤں  زمین پر ٹکے  ہوئے  تھے  وہ  اس وزن کو اُٹھائے  زمین پر گھسٹتا تھا لیکن جسم کی موت کے  بعد اب انسان نے  اپنے  اوپر سے  یہ بوجھ اُتار دیا ہے  اب انسان زمین سے  ذرا سا بلند ہو گیا ہے  اب وہ زمین پر چلتا نہیں  ہے  اب وہ اپنے  نفس کے  جسم کے  ساتھ ہوا میں  پرواز کرتا ہے  انسان کا یہ نفسی جسم روشنی کا جسم ہے اور انسان اب اس روشنی کے  جسم کے  ساتھ روشنی کی فضاء میں  موجود ہے  اب انسان کی رفتار روشنی کی رفتار ہے  لہذا اب انسان اپنے  نفس کے  اجسام کے  ساتھ کسی راکٹ کی طرح پرواز کرتا ہے  اور ہواؤں  فضاؤں  میں  اُڑتا ہوا کائنات کے  سیاروں  کی سیر کرتا پھرتا ہے۔ کچھ عرصہ روشنی کے  جسم میں  رہ کر انسان اس لباسِ جسم کو بھی اپنے  اُوپر سے  اُتار دے  گا جیسے  اس نے  کچھ عرصہ مادی دنیا میں  مادی جسم کے  ساتھ بسر کیا پھر مادی جسم کی موت کے  بعد اس جسم کو اُتار دیا اسی طرح کچھ عرصہ روشنی کے  جسم کے  ساتھ انسان روشنی کی دنیا میں  رہے  بسے  گا پرواز کرے  گا پھر اپنی مدتِ حیات پوری کر کے  یہ روشنی کا جسم بھی مر جائے  گا تو انسان اس جسم کو بھی اپنے  اُوپر سے  اُتار دے  گا۔ مادی جسم بھی مر گیا روشنی کا جسم بھی مر گیا لیکن انسان ابھی بھی موجود ہے  ابھی تک انسان کا اختتام نہیں  ہوا۔

137۔ نور کا جسم

نظریہ نمبر۔ ﴿159﴾۔ ﴿اب روشنی کے  جسم کی موت کے  بعد انسان کا اختتام نہیں  ہو گیا بلکہ اب انسان نور کے  جسم کے  اندر نور کی فضا میں موجود ہے۔ ﴾
اب انسان روشنی کی فضا سے  ذرا اور اُوپر اُٹھ کر نور کی فضا میں  آ گیا ہے  جیسے  وہ مادی جسم سے  نکل کر تھوڑا اُوپر اُٹھ کر روشنی کی فضا میں  داخل ہو گیا تھا اسی طرح اب اس نے  اپنے  اُوپر سے  روشنی کا لبادہ بھی اُتار دیا اب وہ مزید لطیف ہو کر ایک درجہ اور اوُپر اُٹھ آیا ہے  کچھ عرصہ انسان اس نور کے  جسم کے  ساتھ نور کی دنیا میں  رہے  بسے  گا پھر اپنی مدتِ حیات پوری کر کے  یہ نور کا جسم بھی مر جائے  گا اور اس جسم کو بھی انسان اپنے  اُوپر سے  اُتار دے  گا۔ لیکن اس جسم کی موت کے  بعد بھی انسان کا اختتام نہیں  ہوا ابھی بھی انسان موجود ہے  لہذا



138۔ تمام باطنی لطیف اجسام (نفس AURA)فانی ہیں

نظریہ نمبر۔ ﴿160﴾۔ ﴿تمام اجسام مر جاتے  ہیں۔ روح باقی رہ جاتی ہے۔ ﴾
جب کہ باطن کا مشاہدہ کرنے  والے  باطنی اجسام کو روح تصور کر کے  ان لطیف اجسام کو لا فانی تصور کرتے  ہیں۔ جب کہ درحقیقت تمام باطنی لطیف اجسام  نہ تو روح ہیں  نہ ہی روح کے  حصے  نہ ہی یہ لطیف باطنی اجسام کوئی مخلوق ہیں  بلکہ یہ تمام اجسام محض نفس ہیں اور تمام باطنی اجسام اپنی مدت حیات پوری کر کے  مر جاتے  ہیں۔
برزخ کے  اندر یونہی لباسِ جسم بدلتے  بد لتے  زینہ بہ زینہ اوپر چڑھتے  چڑھتے  ایک مقام پر انسان ہر لباسِ جسم اپنے  اُوپر سے  اُتار دے  گا اور ہر جسم کے  بغیر محض روح کی صورت رہ جائے  گا، روح میں  کوئی تغیر و تبدل نہیں   نہ ہی روح مرتی ہے  یہ جوں  کی توں اور اتنی ہی اور ویسی ہی رہتی ہے۔ روح انرجی ہے اور ہر  شخص کی روح واحد انرجی ہے ، اور ہر انفرادی انرجی(روح) نے  ایک واحد انرجی(پاور اٹیشن کی انرجی یعنی خالق سے  آغاز کیا تھا، یعنی خالق کے  حکم(انرجی)نے  یکلخت منتشر ہو کر تمام تر ارواح کی صورت اختیار کی تھی اور اسی انرجی کے  پروگرام سے  انسان کی تخلیق و پیدائش کے  مراحل مکمل ہوئے  تھے  اب  فنا کے  مراحل طے  کر کے  جو یہ واحد انرجی باقی بچی ہے  تو اب دوبارہ یہ انر جی(روح) اپنے  منبع (پاور اسٹیشن ) میں  ضم ہو جائے  گی یہی روح کی منزل ہے، یعنی روح جہاں  سے  آئی تھی یا چلی تھی وہیں  پہنچ گئی، یعنی روح رب سے  جا ملی۔ اب انسان نے  جہاں  سے اور جیسے  ابتدا کی تھی جہاں  سے اور جیسے  آیا تھا بالکل اسی ترتیب سے  واپس اپنی منزل پر جا پنہچا اب جیسے  ابتدا میں  واحد انرجی کے  سوا کچھ نہیں  تھا اب بھی واحد انرجی کے  سوا کچھ نہیں  ہے  اب کہیں  انسان کا نشان بھی نہیں  ہے
لہذا مادی جسم مادی دنیا میں  منتشر ہو گیا
روشنی کا جسم روشنی کی دنیا میں  منتشر ہو گیا
نور کا جسم نور کی فضا میں  بکھر گیا
روح رب سے  جا ملی
اب یہاں  انسان کا اختتام ہوا۔ انسان  جو روح، نفس(اجسام)، جسم کا مجموعہ تھا، اب اس وقت نہ روح ہے  نہ جسم نہ نفس۔ اب پورے  انسان کا کہیں  نشان بھی نہیں  ایسے  جیسے  وہ کبھی تھا ہی نہیں
جب مُراقبہ و مشاہدہ کرنے  والے  مر جانے  والوں  کو جسم کی موت کے  بعد لطیف اجسام کی صورت میں  برزخ  یعنی ایک لطیف فضا میں موجود پاتے  ہیں  تو نفس کے  اجسام کو نئے  اجسام اور برزخی نفسی دنیا کو نئی دنیا تصور کر لیتے  ہیں  وہ جسم کی موت کو تو انسان کا اختتام تصور کرتے  ہیں  لہذا انسان کے  اختتام کے  بعد ان کے  خیال میں  ان دیگر لطیف اجسام کی ایک نئی اور انوکھی لطیف فضا میں  موجودگی کا مطلب ہے  دوسرا جنم، یعنی وہ انسان جس کا موت کی صورت میں  اختتام ہو گیا وہ اب نئے  جسم کے  ساتھ نئی دنیا میں  پھر جی اُٹھا ہے۔ یہ سب باطل گمان ہیں  جو مذہبی اطلاعات کو سمجھنے  کی کوشش میں  قائم کئیے  گئے  در حقیقت ایسا کچھ نہیں  ہے۔ انسان جسمانی موت کے  بعد عملی زندگی کا اختتام ہو گیا ہے  اب انسان یومِ حساب کے  انتظار میں  برزخ میں  مخصوص حالات میں  کچھ دیر کو رُک گیا ہے۔ لہذا برزخ کا یہ عارضی قیام دوسرا جنم نہیں  بلکہ ایک انسان کے  پہلے  جنم کی واپسی کی روداد ہے  جو مذاہب نے  صحیح بیان کی تھی لیکن انسان نے  اسے  بُری طرح اُلجھا کر خلط ملط کر کے  ان اطلاعات کو نت نئے  فلسفوں (آواگون، کرما، چکرا، ارتقائ)کی صورت میں  بیان کیا خلاصہ یہ ہے  کہ آج تک کا انسان ان مذہبی اطلاعات کو نہ تو خود ہی سمجھ سکا ہے  نہ ہی سمجھا سکا ہے  اپنے  ان غلط نظریات (آواگون، ارتقاء، کرما، چکرا)کو آج تک ثابت تو کر نہیں  سکا لیکن اپنے  ان نظریات کو مذہبی عقیدے  تصور کر کے  ان سے  دستبردار بھی نہیں  ہو پا رہا۔ آج ہم نے  یہاں  وضاحت کر دی ہے  کہ یہ نظریات نہ تو مذہبی عقیدے  ہیں  نہ ہی سائنسی نظریات ہیں محض غلط فہمیوں  پر مبنی غلط تاریخی مفروضے  ہیں  جن کی کوئی مذہبی یا سائنسی حقیقت نہیں  ہے۔



139۔ برزخ انتظار گاہ ہے

 برزخ دراصل ایک انتظار گاہ ہے اور اس انتظار گاہ میں فیصلے  کا دن آنے  تک انسان کو رُک کر انتظار کرنا ہے۔ جیسے  کوئی مسافر ویٹنگ روم میں  بیٹھ کر ٹرین کے  آنے  کا انتظار کرتا ہے  ایسے  ہی انسان برزخ میں  رُک کر منتظر ہے  حساب کے  دن کا یعنی برزخ ایک انتظار گاہ ہے  یہ کوئی مستقل رہائش گاہ نہیں  ہے۔ سوال یہ ہے  کہ یہاں  انسان کو  برزخ میں ٹھرا کر کیوں  انتظار کروایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ ابھی کچھ لوگ تو مر چکے  ہیں  برزخ میں  داخل ہو گئے  ہیں  لیکن ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں اور ابھی مر کر برزخ میں  داخل نہیں  ہوئے  لہذا باقی تمام لوگوں  کی مر کر برزخ میں  منتقلی تک انتظار کرنا ہے اور یہ برزخی انتظار قیامت پر ختم ہو گا۔

140۔ قیامت

زندگی ابتداء سے  جاری ہے اور ایک سے  دو دو سے  چار یہ ہمیشہ بڑھتی پھولتی رہی ہے اور رہے  گی کوئی حادثہ کوئی نسل کُشی زندگی کا خاتمہ نہیں  کر سکتی۔ ہاں لیکن ایک خدائی حکم یکلخت ہر قسم کی زندگی کو ختم کر دے  گا، یہی قیامت ہے  قیامت کا مطلب ہے  ایک خدائی حکم کے  ذریعے  یکلخت ہر قسم کی زندگی کا اختتام۔ جب قیامت کی صورت میں ہر موجودہ شے  کا اختتام ہو جائے  گا تو سب انسان(اور اس کے  ساتھ ہی تمام موجودہ اشیاء ) بھی مر کر برزخ میں  داخل ہو جائیں  گے  اس کے  بعد اگلا مرحلہ شروع ہو گا۔ اگلا مرحلہ ہے  دوبارہ زندگی۔

141۔ دوبارہ زندگی

انسان سے  اس کے  اچھے  بُرے  اعمال کا حساب لینے  کے  لئے  اسے  دوبارہ زندگی دی جائے  گی۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں  ہے  جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے  کہ جس خالق نے  انسان کو پہلی بار محض اپنے  حکم (انرجی، روح) سے  ترتیب وار تخلیق کیا تھا وہی خالق (جب اس کی  منشا ہو گی )دوبارہ اپنے  ایک حکم سے  اسی انسان کو اسی ترتیب سے   دو بارہ ترتیب دے  دے  گا۔ اور خالق کو یہ سب کرنے  کے  لئے  محض حکم(پروگرام) دینا ہو گا اور اس حکم کے  عین مطابق اسی پرانے  انسان کی ترتیب و تخلیق کا پرا جیکٹ مکمل ہو جائے  گا لہذا
۱۔ نور کی فضا سے  نور کے   وہی ذرات جو نور کے  جسم کی موت کی صورت نور کی فضا میں  منتشر ہوئے  تھے   سے  نور کے  جسم کی دوبارہ یکجائی ہو گی اور وہی پرانا نور کا جسم دوبارہ موجود ہو جائے  گا اسی طرح 
۲۔ روشنی کی فضا سے  روشنی کے  وہی ذرات جو روشنی کے  جسم کی موت کی صورت روشنی کی فضا میں  منتشر ہوئے  تھے   سے  روشنی کے  جسم کی دوبارہ یکجائی ہو گی اور وہی پرانا روشنی کا جسم دوبارہ موجود ہو جائے  گا اسی طرح
 ۳۔ مادی زمین سے  مادی جسم کے   وہی ذرات جو مادی جسم کی موت کی صورت مادی زمین میں  منتشر ہوئے  تھے   سے  مادی جسم کی دوبارہ یکجائی ہو گی اور وہی پرانا مادی جسم دوبارہ موجود ہو جائے  گا لہذا
جس جس فضا میں  جس جس زمین پر انسان نے  اپنا لباس جسم اتارا تھا اس اس فضا سے  یہی ذرات دوبارہ اکھٹے  کر کے  وہی پرانا انسان دوبارہ تشکیل دے  دیا جائے  گا۔
یہ ہے  انسان کا دوسرا جنم اور دوبارہ زندگی (اور اس دوبارہ زندگی میں  انسان وہی پرانا انسان ہے ) اور یہ دوسرا جنم انسان کو اس کی عملی زندگی کے  اختتام کے  بعد  ملا ہے اور یہ دوسرا جنم انسان کو اپنی پہلی زندگی کا حساب دینے  کے  لیے  ملا ہے۔ لہذا اب انسان کو زندگی میں  کیے  ہوئے  ہر عمل کا حساب دینا ہو گا۔
یہ ہے  یوم حساب، آج انسان سے  اس کے  ایک ایک عمل(جو اعمال نامے  میں  ریکارڈ ہیں )کا حساب ہو گا، اوراسی اعمال نامے  کے  حساب سے  یہ تعین بھی ہو چکا ہے  کہ یہ انسان کیسا انسان ہے۔ نفس امارہ ہے  یا نفس لوامہ ہے  یا نفس مطمئنہ ہے  انسان کی حیثیت کے  تعین کے  بعد اسی حیثیت کے  حساب سے  انسان کو جنت یا جہنم بھیج دیا جائے  گا۔
یہ ہے  انسان کا آخری ٹھکانہ یعنی جنت۔
یہیں  سے  انسان نے  اپنے  سفر کا آغاز کیا تھا اور با لا آخر طویل مسافت طے  کر کے  انسان پھر اپنے  ٹھکانے  (جنت)پر واپس آ پہنچا ہے۔



142۔ انسان کائناتی مسافر ہے

سائنسدان ہمیشہ یہی کہتے  رہے  ہیں  کہ انسانی زندگی کے  لیے  موضوع سیارہ فقطز مین ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے  کہ انسان کائناتی مسافر ہے اور کائنات میں  بہت سے  سیارے  ہیں  کہیں  گرمی ہے  کہیں  برف جمی ہے  کہیں  پانی ہے  کہیں  پانی نہیں  ہے، غرض کائنات میں  لا شمار سیارے  ہیں اور ہر سیارہ فضا اور عناصر یعنی ماحول کے  اعتبار سے  مختلف اور منفرد سیارہ ہے اور انسان کی تخلیق کائناتوں  کی ساخت کے  عین مطابق ہے   یعنی انسان کائناتوں  کے  ہر سیارے  پہ جانے  رہنے  سہنے  کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت انسان زندگی میں  بھی استعمال کر سکتا ہے اور زندگی کے  بعد بھی۔ زندگی میں  اختیاری کوشش تو انسان کی انتہائی محدود ہے  لہذا کہا جاتا ہے  کہ انسان چاند پر جا پہنچا ہے۔ یعنی مادی انسان کی پہنچ ابھی تک چاند تک ہی ہو پائی ہے۔
لیکن غیر اختیاری طور پر انسان اپنی آدھی زندگی اپنی روح اور نفس کے  ذریعے  حالت نیند میں  کائنات کی سیر میں  بسر کرتا ہے  سارے  جہان میں  اڑتا پھرتا ہے اور اپنی اس حقیقی کائناتی سیاحت کو خواب کہہ کر مذاق میں  اڑا دیتا ہے۔ مادی جسم کی موت کے  بعد بھی انسان اپنے  اعمال کے  مطابق اپنے  نفوس کے  مختلف اجسام کے  ذریعے  کائنات کے  مختلف سیاروں  کی سیر کرتا پھرتا ہے، مختلف سیاروں  پر انسان رہتا بستا ہے  ہر جسم اپنی مدت حیات پوری کر کے  مر جا تا ہے اور روح لباس جسم بدلتے  بدلتے  ہر سیارے  کی سیر کرتے  کرتے   با لا آخر ہر لباس جسم اتار کر فقط روح رہ جاتی ہے اور یہ انفرادی روح بھی اجتماعی واحد انرجی(پاور اسٹیشن) میں زم ہو جاتی ہے۔ لہذا یہاں  انسان کا خاتمہ ہو ا۔ انسان جہاں  سے اور جیسے  آیا تھا ویسے  ہی اور وہیں  پہنچ گیا۔
یہ ہے  انسان کے  طویل ترین سفر کی مختصر روداد۔ دنیا بھر کے  افسانے  بگھارنے  والے  صدیوں  کے  انسان کی اپنی روداد آج  اس کتاب میں  ہم نے  بیان کی ہے۔
اس طویل انسانی روداد کا خلاصہ درج ذیل ہے



143۔ انسانی کہانی

 ۱۔ انسان کا کہیں  نام و نشان بھی نہیں  تھا لہذا سب سے  پہلے  انسان خالق کے  علم  میں  محض ایک پروگرام کی صورت میں  ظاہر ہوا اور جب خالق اپنے  اس پروگرام پر عمل پیرا ہوا تو اس نے  یہ پروگرام(حکم) جاری کر دیا لہذا اس پروگرام کے  عین مطابق انسانی تخلیق کا  مرحلہ وار عمل شروع ہوا لہذا پہلے  مرحلے  میں 
۲۔ واحد انرجی  کے  یکلخت انتشار سے  ہر  انفرادی، روح، نے  جنم لیا اس کے  بعد ترتیب وار
۳۔ پروگرام کے  عین مطابق انسان کا باطن، بھی ترتیب پا گیا۔ اس کے  بعد
۴۔ پہلے  انسان کے  ، مادی جسم، کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ اس کے  بعد
  ۵۔ روح، نفس، مادی جسم کو یکجا کر دیا گیا اور یوں  پہلا انسان جیتی جان ہوا
۶۔ انسان کا جوڑا (اس کی بیوی)  پیدا کیا گیا۔
۷پہلے  جوڑے  سے  پیدائش کے  عمل کا آغاز ہو ا اور نوعی تسلسل  کے  ذریعے  نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
۸۔ اور آج کی موجودہ  تمام نسل انسانی اسی پہلے  خالق کے  تخلیق کردہ جوڑے  کی نسل ہے۔



144۔ انسانی سفر کے  پانچ ادوار


انسان کا یہ کائناتی سفر پانچ ادوار پر مشتمل تھا۔ یہ پانچ ادوار درج ذیل ہیں
۱۔ عالم امر۔ خالق کے  علم میں (یعنی سب سے  پہلے  انسان ایک پروگرام کی صورت ہارڈ ڈسک(خالق کے  علم میں )میں  موجود تھا۔
۲۔ عالم ارواح۔ ہر انسان کا انفرادی پروگرام یعنی روح
۳۔ عالم مادی۔ روح  +نفس  +جسم  =انسان
۴۔ مردہ جسم +روح+عالم برزخ۔ نفسی زندگی=روح +نفس(لطیف اجسام)  =انسان
عالم آخرت۔ دوبارہ زندگی = مادی جسم + روح +نفس(لطیف اجسام)  =انسان
انسان کے  اس کائناتی سفر کی روداد کو اس کتاب میں  میں  تفصیلاً بیان کر آئی ہوں  اب ہم اس تفصیلی روداد کو ایک مختصر نقشے  سے  ظاہر کرتے  ہیں۔



145۔ انسانی زندگی کا سفر آغاز تا اختتام


                                    واحد انرجی سے /
                                    ۔ ۔ ۔ /۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ /             /دوبا رہ زندگی
                                    /                                        اب پھر فقط واحد انرجی رہ گئی انسان                    /
                               ارواح کی پیدائش                                    کا کہیں  نشان بھی نہی                        حساب، کتاب، سزا، جزا ء                                                                                                                                                       
                                      /                                      اب روح پھر واحد انرجی میں  مل گئی                          /             
                              نفوس کی تخلیق      
                                       /                                                  /                                    جنت، جہنم(آخری ٹھکانہ)
                        پہلے  مادی جسم(آدم) کی تخلیق                               روح (انرجی)کی واپسی
                                        /                                                 /
                               حوا کی پیدائش                                       واحد روح(انرجی) رہ گئی  
                                       /                                                 /
                              پہلا جوڑا مکمل ہوا                                     نفوس(لطیف اجسام) کی موت
                                        /                                               /
                                        
                        پہلے  جوڑے  سے  پیدائش کا آغاز                              برزخی زندگی(نفسی زندگی)
                                        /                                               /
                    پیدائش کے  ذریعے  نوعی تسلسل کا قیام                                 مادی جسم کی موت
 /                                               /
                              
 موت          ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴿انتقال﴾۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   انسان کی واپسی
                                                

1 comment:

  1. بہت بہت شکریہ قابل صد احترام محترمہ روبینہ صاحبہ سلامت رہیئے ۔ آپ نے بےانتہا محنت اور محبت سے مجھ جیسی طالب علم کے لئے اتنا سادہ لکھا کہ میں مسحور ہو کر پڑھتی رہی ۔۔ جزاک اللہ ۔۔ الحمدوللہ

    دعاگو

    ڈاکٹر نگہت نسیم

    ReplyDelete