Translate

17--انسانی پیدائش کا عمل---The process of human birth





باب نمبر 6: پیدائش                        


  الذی خلق فسوی والذی قدری فھدی
ترجمہ: وہ جس نے  تخلیق کیا، تناسب قائم کیا وہ جس نے  تقدیر بنائی اور ہدایت دی۔
مادی جسم کی پیدائش
نظریہ نمبر۔ رحم مادر میں  مادی جسم روح کے  پروگرام سے  ترتیب پا رہا ہے



80۔ پیدائش کا عمل


 ہم تخلیق کے  عنوان سے  تفصیلی وضاحت کر آئے  ہیں  کہ صرف پہلا انسان یا پہلا جوڑا" تخلیق " کے  عمل سے  گزرا تھا۔ اس کے  علاوہ کوئی انسان تخلیق کے  عمل سے  نہیں  گزرا۔ تمام تر انسان  "پیدا  " ہوتے  ہیں۔ یا"  پیدائش "کے  عمل سے  گزرتے  ہیں۔ اگرچہ انسان کی تخلیق کا تذکرہ پہلی دفعہ میں  نے  اس کتاب میں  کیا ہے  لیکن سائنسی تحقیقات کی بدولت پیدائش کے  عمل سے  تو آج سبھی واقف ہیں  لیکن یہاں  ہم پیدائش کے  کچھ مزید مراحل کا تذکرہ ایک نئے  انداز میں  اپنے  نئے  نظریات کے  ذریعے  کرنے  جا رہے  ہیں۔
آج ہر شخص جانتا ہے  کہ ہر بچہ ماں  کی کوکھ سے   ۹  ماہ کے  عرصہ میں  جنم لیتا ہے اور جدید سائنسی تحقیقات کے  ذریعے  ہم نے  اس  ۹  ماہ کے  دورانِ حمل کی تمام تر تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔ مثلاً   انزال کے  وقت جسم سے  خارج ہونے  والے  مادہ حیات (منی Semen  )  کی قلیل مقدار 300 سے  400 ملین اسپرمز (Sperms) یا اندازاً ایک مکعب سینٹی میٹر مادہ حیات میں  2کروڑ سپرمز(Sperms)  ہوتے  ہیں  ان کروڑوں  خلیوں  میں  سے  ہر ایک بچے  کی تشکیل کی صلاحیت رکھتا ہے  جب کہ ان کروڑوں  سپرمز(Sperms)  میں  سے  بمشکل ایک عورت کے  بیضے  میں  داخل ہو کر اسے  بارور کرتا ہے اور ایک خلیہ ایک ملی میٹر کا دس ہزارواں  حصہ ہے۔ فیلوپین ٹیوب  (Flopion Tube)سے  رحم تک آنے  میں  اس بارور بیضے  کو کم و بیش تین دن لگتے  ہیں۔ اس سفر کے  دوران یہ بیضہ بڑی تیزی کے  ساتھ مختلف خلیوں  میں  تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے  یہاں  تک کہ ان خلیوں  کا ایک گچھہ سا بن جاتا ہے  یہ گچھا چلتا ہوا رحم کے  استر تک پہنچتا ہے اور اس میں  داخل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس گچھے  میں  تقریباً دو سو خلیے  ہوتے  ہیں  جسے  اب  "جنین " (Embryo)کہتے  ہیں۔ اس وقت اس کی جسامت ایک نقطے  کے  برابر ہوتی ہے۔ جب بیضہ بارآور ہوتا ہے  تو یہ رحمی نالی کے  ساتھ ساتھ اس جگہ سے  گزرتا ہے  جہاں  کروموسوم کی تیاری اور خلیوں  کی تقسیم کا عمل جاری ہوتا ہے۔ یہ بارور بیضہ تقریباً ایک ہفتے  بعد رحم کی رطوبت دار جھلی (Endometrium) میں  اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ رحم میں  موجود جنین پر دو تہیں  ہوتی ہیں  ان میں  سے  اندرونی تہہ تو آگے  چل کر بچے  میں  تبدیل ہو جاتی ہے  جب کہ بیرونی تہہ بچے  کی آنول نال (Placenta) کی شکل اختیار کر لیتی ہے 
ابتدائی ہفتوں  میں  مضغہ یا جنین محض ایک چھوٹی سی مچھلی کی مانند نظر آتا ہے ، حمل کے  چوتھے  ہفتے  کے  آغاز پر اس کا برائے  نام دل بن کر دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ عصبی نظام اور اندرونی اعضاء بھی بننا شروع ہو جاتے  ہیں۔ اسی ہفتے  کے  اختتام پر دماغ، ریڑھ کی ہڈی، آنکھیں، کان اور ناک نیز گردے اور پھیپھڑے  بھی تشکیل پانے  لگتے  ہیں۔ وہ جنین جس کا آغاز ایک نقطے  سے  ہوا تھا، اب تقریباً تین ملی لیٹر 0.12"  تک بڑھ چکا ہوتا ہے اور اس کا وزن پانچ سو گنا زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ تیسرے  مہینے  کے  آخر تک یہ ایک واضع انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے  اس مرحلے  پر اس کو  (FETUS)  کہتے  ہیں۔ تین مہینے  کے  اس جنین کا وزن تقریباً ۲۸ گرام (ایک اونس) اور لمبائی ۷ سینٹی میٹر (2.75"  انچ )ہوتی ہے۔ اب اس کے  بازو اور ٹانگیں  بھی واضع ہو جاتی ہیں  جن میں  انگلیاں  بھی نظر آتی ہیں  اب یہ ٹانگوں  کو چلا سکتا ہے  انگلیوں  کو بند کر سکتا سر کو گھما سکتا اور اپنا منہ کھول اور بند کر سکتا ہے  چوتھے  مہینے  میں  یہ اپنے  بازو اور ٹانگیں  پھیلا بھی سکتا ہے  اب اس کی ماں  اپنے  پیٹ میں  بچے  کی نیند اور جاگنے  کو محسوس بھی کر سکتی ہے۔ اس مرحلے  پر وہ ہچکی بھی لیتا ہے۔ ساتویں  مہینے  میں  بچے  کی نمو کا آخری مرحلہ شروع ہوتا ہے  آٹھویں اور نویں  مہینے  میں  اس کے  جسم پر چربی بنتی ہے اور قدرت اس کے  اندرونی اور بیرونی اعضاء پر آخری نقاشی کرتی ہے۔ استقرارِ حمل کے  نویں  مہینے  میں بچے  کا وزن  2.25 سے  5.5 کلوگرام  ( 5 سے  12 پاؤنڈ) اور لمبائی 43  سے   56 سینٹی میٹر ( 17 سے  22 انچ) ہوتی ہے۔ یعنی نو ماہ پہلے  ایک نقطے  سے  آغاز کر کے  آج حرکت کرتا ہوا انسان وجود میں  آ گیا۔
لیکن کیا واقعی یہ سارا کارنامہ محض ایک نطفے  کا ہے ؟
یہ تو بتایا جاتا ہے  کہ ایک نطفے  سے  آغاز کر کے  کیسے  کیسے  مرحلوں  سے  گزر کر بچہ پیدائش کے  عمل سے  گزرتا ہے۔  یہ نہیں  بتایا جاتا کہ یہ اتنا پیچیدہ اتنا منظم نظام کیسے  انجام پا رہا ہے  سائنسدانوں  کا خیال ہے  کہ  پیدائش کایہ نو ماہ پر مشتمل تمام عمل خود کار ہے۔
یہ کیسا خود کار عمل ہے  جو قرنوں  سے  خود بخود جاری ہے  اس میں  کوئی خامی کوئی کمی پیشی نہیں  ہوتی یہ کیسی مشین ہے  جو خود بخود بے  نقص انسان تیار کیئے  ہی چلی جا رہی ہے۔ اگر دنیا کا سب سے  ذہین انسان یہ کہہ دے  کہ یہ سوئی خود بخود بنی ہے  تو یقیناً سب اس ذہین آدمی کو خبطی قرار دے  دیں  گے  کیونکہ کوئی یہ تسلیم نہیں  کر سکتا کہ سوئی خود بخود بھی بن سکتی ہے۔
جب ایک سوئی خود بخود نہیں  بن سکتی تو دنیا کی سب سے  پیچیدہ مشین جس کے  اسرار صدیوں  برس سے  کھلتے  ہی چلے  آ رہے  ہیں  وہ خود بخود کیسے  بن سکتی ہے۔ آخر وہ کیسے  لوگ ہیں جو یہ تسلیم کرنے  کو تیار نہیں کہ سوئی خود بخود بن سکتی ہے  لیکن یہ تسلیم کر لیتے  ہیں  کہ انسان خود بخود بن جاتا ہے اور کوئی اس کا بنانے  والا ڈیزائن کرنے  والا نہیں ہے۔
آج سب جانتے  ہیں  کہ خود بخود کچھ بھی نہیں  ہوتا اور اس حقیقت کی سب سے  بڑی گواہ خود جدید سائنس ہے  جدید سائنس نے  آج ہر قسم کے  اتفاقات کی سو فیصد نفی کر دی ہے۔ کائنات کا سب سے  چھوٹا وجود ہو یا بڑے  سے  بڑا وجود کچھ بھی اتفاقات کا نتیجہ نہیں  ہر وجود اپنی جگہ پر فٹ اور بڑا خاص ہے  سب کچھ پری پلینڈ اور سوچے  سمجھے  منصوبے  کا حصہ ہے  کسی بڑے  دماغ کی بڑی کارستانی۔ لہذا اتفاق سے  یا خود بخود کچھ نہیں  ہوتا
لہذا انسان کی پیدائش کا عمل بھی خود کار نہیں  بلکہ پری پلینڈ ہے اور باقاعدہ پروگرام کے  تحت بڑی سخت نگرانی میں  انسان پیدائش کے  طویل اور انتہائی مشکل مراحل سے  گزرتا ہے۔  اگرچہ بظاہر ہم سائنسی تحقیقات کی بدولت پیدائش کے  ہر عمل سے  پوری واقفیت حاصل کر چکے  ہیں  لیکن یہ معلومات ادھوری معلومات ہیں۔ کیونکہ جسم کو روح ترتیب دے  رہی ہے  جب کہ موجودہ پیدائشی عمل میں  روح کا کہیں  تذکرہ ہی نہیں  بلکہ سائنسدان کہہ دیتے  ہیں  کہ اس عمل میں  روح کی کہیں  گنجائش ہی نہیں۔ لہذا مادی جسم کی پیدائش کے  مراحل پہ بڑی بڑی کتابیں  تو موجود ہیں  لیکن ان میں  کہیں  بھی روح کا تذکرہ نہیں اور مادی جسم کی رحم مادر میں  پیدائش کا عمل روح کے  تذکرے  کے  بغیر کبھی بھی مکمل نہیں  ہو سکتا۔ لہذا اب یہاں  ہم پیدائش کے  عمل کو ایک نئے  انداز سے  متعارف کروا رہے  ہیں۔ اور اس نامکمل بیان کو روح کے  تذکرے  کے  ساتھ مکمل کرنے  جا رہے  ہیں۔
لہذا اب ہم مادی جسم کے  پیدائشی مراحل کو اپنے  نئے  نظریات کے  ذریعے  ایک نئے  انداز سے  پیش کرتے  ہیں۔


81۔ مادی جسم کی پیدائش کا آغاز


نظریہ نمبر۔ ﴿66﴾۔ ﴿ مادی جسم کی پیدائش کا آغاز نطفے  سے  ہوتا ہے۔ لیکن فقط نطفہ جسم تیار نہیں  کر سکتا انسان فقط چند گرام کے  نطفے  سے  وجود میں  نہیں  آ سکتا۔ نطفہ طویل اور پیچیدہ پیدائشی عمل کا فقط ایک جز اور ایک مرحلہ ہے۔ اور یہ مرحلہ بھی مادی جسم کی پیدائش کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ ﴾
آج تک کی تمام تر سائنسی و تجرباتی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے  کہ ہم فقط یہ جان پائے  ہیں  کہ چند گرام کے  نطفے  سے  انسان وجود میں  آ جاتا ہے۔
لیکن کیا یہ بالکل درست بات ہے؟   ہرگز نہیں !
انسانی تخلیق کے  دیگر مراحل روح، نفس اور پہلے  جسم کی تخلیق کا تذکرہ تخلیق کے  عنوان سے  ہم کر آئے  ہیں  لہذا تخلیق کے  عمل سے  گزرنے  والے  پہلے  جوڑے  کے  ذریعے  ہی پیدائش کے  عمل کا آغاز ہوا۔ لہذا اب ہر جسم پیدائش کے  ذریعے  ہی تخلیق پاتا ہے  لیکن یہ کام فقط نطفے  کا نہیں۔ نطفہ فقط ایک مرحلہ ہے  پیدائش کے  عمل کا۔ جب کہ پیدائش کے  بہت سے  دیگر مراحل طے  کر کے  انسانی مادی وجود مکمل ہوتا ہے ، کام کرتا ہے ، متحرک ہوتا ہے ، زندہ رہتا ہے۔ جب کہ موجودہ سائنس محض نطفے  کی کارکر دگی کو ہی جان پائی ہے۔ اب یہ کہ دینے  سے  کام نہیں  چلے  گا کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے  اب ہمیں  ان سوالات کے  جواب دینا ہوں  گے  کہ
کائنات کی یہ سب سے  پیچیدہ مشینری مادی جسم کیسے  خود کار ہے ؟کیسے  متحرک ہے ؟  اس کا اندرونی نظام کیسے  خود کار ہے ؟
یہ وجود کیسے  بن رہا ہے؟کیسے  ہر کل پرزہ اپنی جگہ فٹ بیٹھا ہے ؟
کیسے  ہر کام بڑے  موقع کی مناسبت سے  ہو رہا ہے؟
  کیسے  جسمانی اعمال ہو رہے  ہیں؟ اور اس انتہائی منظم اور خود کار سسٹم کو ہدایات کہاں  سے  مل رہی ہیں؟
کیسے  جنین کا تعین ہو رہا ہے؟ 
کیسے  جسم ایک دوسرے  سے  مشابہ بھی ہیں  مختلف بھی؟  کیسے  یہ مشینری متحرک ہے اور کیسے  موت کی صورت میں  خودکار حرکت خود بخود رک جاتی ہے ؟  یہ سب کیسے  ہو رہا ہے؟جسمانی تعمیر کا اتنا بڑا اتنا پیچیدہ منصوبہ ظاہر ہے  خود بخود یا اتفاقاً نہیں  ہو سکتا نہ ہی یہ سب محض نطفے  کا کمال ہے۔ جب کہ موجودہ سائنس محض نطفے  کی کارکردگی کو ہی جان پائی ہے۔ اب یہ کہ دینے  سے  کام نہیں  چلے  گا کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے  بلکہ نطفے  کی کار کر دگی کے  علاوہ مادی جسم کے  دیگر پیدائشی مراحل کو جاننا انہیں  الگ الگ شناخت کرنا انتہائی ضروری ہے  درحقیقت پیدائش کا عمل اتفاقاً یا خود بخود یا محض نطفے  سے  مکمل نہیں  ہوتا بلکہ پیدائش کا پورا عمل ایک بہت ہی خاص فارمولے  کے  تحت انجام پاتا ہے اور اب ہم یہاں  اسی خاص فارمولے  کو بیان کرنا چاہتے  ہیں۔ لہذا پیدائش کے  مخصوص عمل کو بیان کرنے  کے  لئے  یہاں  ہمیں  ایک پیدائشی فارمولہ پیش کرنا ہو گا۔


82۔ پیدائشی فارمولہ

نظریہ نمبر:۔ ﴿67﴾۔ ﴿ہر مادی جسم کی پیدائش کا فارمولہ درج ذیل چار نکات پر مشتمل ہے۔
  ( ۱)۔ تخلیق        (2)۔ تناسب         (3)۔ تقدیر           )  (4۔  ہدایات
تمام تر انسانوں  کے  مادی اجسام کی پیدائش کا عمل اس چار نکاتی فارمولے  کے  تحت انجام پاتا ہے  یہ چاروں  نکات بھی مزید مراحل پہ مشتمل ہیں  جن کا تفصیلی تذکرہ آگے  آئے  گا۔
چار نکاتی فارمولے  کے  تحت کیسے  جسم پیدائش کے  عمل سے  دوچار ہوتا ہے اور یہ فارمولہ کہاں  سے  آیا؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
لہذا یہ کہہ دینا ہرگز کافی نہیں کہ پیدائش کا عمل محض ایک نطفے  سے  خود بخود مکمل ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ جاننا ضروری ہے  کہ چار نکاتی فارمولے  کے  تحت یہ پیدائش کا عمل کیسے  انجام پا رہا ہے۔
اب ہم  ہر انسان کے  پیدائشی عمل کے  اس چار نکاتی( تخلیق، تناسب، تقدیر، ہدایات )فامولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے 
لہذا مادر رحم میں  پیدائش کے  عمل میں  پہلا مرحلہ ہے  تخلیق کا۔

             ۱۔ تخلیق
                                   
                         مادی جسم کی پیدائش کا پہلا مرحلہ
                           ﴿روح جسم تخلیق کر رہی ہے ﴾

۱۔ تخلیق                         
  رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کا پہلا مرحلہ ہے  تخلیق
نظریہ نمبر۔ ﴿68﴾۔ ﴿نطفہ نہیں  بلکہ ر وح جسم تخلیق کر رہی ہے۔ ﴾
یہ روح ہی ہے  جو نطفے  سے  لے  کر جسم کی تکمیل تک ہر لمحہ جسم ترتیب دے  رہی ہے اور ہر لمحہ جسم تخلیق کر رہی ہے۔
روح خالق کائنات کا حکم (پروگرام ) ہے۔ یعنی سادہ لفظوں  میں  ہر جسم کا تخلیق کار خود خالق کائنات ہے۔
انرجی کے  ا ختلاط سے  خلیات اور خلیات کے  اختلاط سے  جسم بن رہا ہے۔
روح ہی وہ شے  ہے  جس سے  وجود عدم سے  وجود کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئیے  دیکھتے  ہیں روح  کے  پروگرام پر رحم مادر میں جسم کیسے  تخلیق پا رہا ہے 
۲۔ جسم کی تیاری
نظریہ نمبر:۔  ﴿69﴾۔ ﴿روح جسم کی تیاری کا پروگرام دے  رہی ہے۔ ﴾
  اگرچہ بظاہر یہ عمل فقط نطفے  کے  ذریعے  انجام پا رہا ہے  لیکن اس تمام عمل کا مکمل پروگرام روح مہیا کر رہی ہے۔ نطفہ درحقیقت جسم کی تیاری کا پہلا نہیں  دوسرا مرحلہ ہے۔
روح بچے  کی جسمانی تیاری کا مکمل فارمولہ مکمل پروگرام ہے۔ جیسا پروگرام ہے  جیسی ہدایات ہیں  ویسا ہی بچہ تیار ہو گا۔
مرد، عورت، کالا یا گورا، لمبا، چھوٹا، خوبصورت یا بدصورت جیسا روح کا پروگرام جسم کی تیاری کے  لئے  ملا ہے  ویسی ہی تخلیق ترتیب پا کر انسانی صورت میں  ظاہر ہو گی۔ نطفے  سے  لیکر آخری مرحلے  تک جسمانی پیدائش کا تمام پروگرام روح کا پروگرام ہے۔ یعنی ہر لمحہ خالق مخلوق کو تخلیق کر رہا ہے  اپنے  ذاتی ارادے اور ذاتی اختیار اور ذاتی پروگرام (روح ) کے  ذریعے۔ لہذا چند گرام کے  نطفے  سے  آغاز کر کے  جس پیدائشی عمل سے  گزر کر پورا انسان ابھر کر سامنے  آتا ہے  اس پیدائشی عمل کا تمام تر دارومدار روح پر منحصر ہے۔
 محض نطفے  کی کارکردگی کو سامنے  رکھا جائے اور وہ اپنا کام پورا کرے اور جسم تیار ہو جائے  پھر بھی روح کی عدم موجودگی سے  یہ تخلیقی عمل تکمیل نہیں  پا سکتا۔ مثلاً تخلیقی عمل کے  مکمل ہونے  کے  باوجود ؛
(1)   بچہ مردہ پیدا ہو گا۔ (روح کی عدم موجودگی کے  سبب)۔
اور اگر روح پورا پروگرام نہ دے  تو بچہ مردہ ہونے  کے  ساتھ ساتھ
(2)   ادھورا پیدا ہو گا۔ لہذا روح
(1)۔ روح اس جسم کی زندگی بھی ہے 
(2)۔ انسانی جسم کی مکمل تیاری کا پروگرام بھی دے  رہی ہے  یا انسانی جسم تیار کر رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے  کہ روح یہ کام کیسے  کر رہی ہے۔ ہم نے  یہاں  یہ کہا ہے  کہ جسم روح تیار کر رہی ہے۔
جب کہ سائنسدانوں  کا خیال یہ ہے  کہ جسم کروڑوں  سیلز سے  مل کر بنتا ہے  جیسے  عمارت بلاکس سے  بنتی ہے  ایسے  ہی جسم سیلز سے  بنتا ہے  اسی لئے  وہ سیلز کو جسمانی بلڈنگ کے  بلاکس کہتے  ہیں۔ سائنسدانوں  کا یہ خیال درست ہے  لیکن یہ مکمل بیان نہیں  ہے۔ کروڑوں  سیلز سے  مل کر جسم تو بنتا ہے  لیکن کیسے؟ 
سیل جسم کا بہت چھوٹا یونٹ ہے  جسے  مائیکرواسکوپ کی مدد سے  دیکھا جاتا ہے۔ سائنسدانوں  نے  سیل کے  مرکز میں  نیوکلیس کے  اندر کروموسوم اور کروموسومDNA   پر مشتمل ہے  دریافت کر لیا ہے۔ اور اب DNA   کی تفصیلات سامنے  آ رہی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مختلف اقسام کے  خلیے  مختلف طریقوں  سے  اپنے  اپنے  کام انجام دے  رہے  ہیں۔  لیکن کیسے؟  کیسے  ہرخلیہ اپنا اپنا کام خود بخود کر رہا ہے ؟  نظام عصبی کیسے  کام کر رہا ہے ؟  DNA کے  پاس معلومات کہاں  سے  آئیں؟  رگ، پٹھے، دل، گردے  سب کیسے  اپنے  اپنے  کام میں  لگے  ہوئے  ہیں؟
یہ سب تو انسان سے  بھی زیادہ سمجھدار ہیں  کوئی غلطی نہیں  کرتے  ایسا کام کر رہے  ہیں  کہ ایک انتہائی پیچیدہ مشینری (جسم) خود بخود کام کر رہی ہے۔ اور وہ کیا وجوہات ہیں  کہ یہ انتہائی خودکار مشینری فقط موت کی صورت میں  ہر قسم کا کام بند کر دیتی ہے ، دل، جگر، گردے، پھیپھڑے ، نظام عصبی، خلیے  سبھی کچھ تو ہے  ٹھیک ٹھاک ہے  اپنی جگہ موجود ہے  اپنی جگہ قائم ہے  پھر یہ حرکت کیوں  رک گئی ہر خلیے  ہر عضو نے  اپنا کام کیوں  بند کر دیا؟  کیسے  کروڑوں  خلیوں  سے  مل کر بننے  والا مضبوط جسم فقط موت کی صورت میں  بے  نشان ہو گیا بالکل ایسے  جیسے  تھا ہی نہیں۔
کیا واقعی کروڑوں  سیلز کے  جڑنے  سے  انسانی جسم بنتا ہے ؟  کیا ہم ایسے  سیلز اکھٹے  کر کے  انسان تشکیل دے  سکتے  ہیں؟
حقیقت یہ ہے  کہ یہ جسمانی عمارت سیلز  تیار نہیں  کر رہے  بلکہ یہ جسمانی عمارت روح تعمیر کر رہی ہے۔
لیکن کیسے؟
مادہ پرست تو آج بھی اس سامنے  کی دریافت شدہ سائنسی حقیقت یعنی روح کو جھٹلا دیتے  ہیں اور کہہ دیتے  ہیں  کہ مادی جسم میں  روح کی کہیں  کوئی گنجائش نہیں۔
جب کہ ہم یہاں  نہ صرف مادی جسم اور روح کے  تعلق کی مسلسل وضاحت کریں  گے  بلکہ یہ بھی بتائیں  گے  کہ روح جسم کیسے  تیار کر رہی ہے۔

۳۔ جسم کی ترتیب:
نظریہ نمبر:۔ ﴿70﴾۔   ﴿دو اجسام کو یکجا کر کے  ترتیب دینے  والی روح ہے۔ ﴾
یعنی خلیے  نہیں  بلکہ روح جسم ترتیب دے  رہی ہے۔ دو خلیوں  کو روح مرکب کرتی ہے  اس کے  علاوہ دو اجسام کو مرکب کر کے  جسم ترتیب دینے  کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں  ہے۔
یعنی روح  (انرجی Energy  ) خلیوں  کو مرکب کر کے  اجسام ترتیب دے  رہی ہے۔
جب کہ سائنسدانوں کا خیال ہے  کہ جسم کروڑوں  سیلز سے  مل کر بنتا ہے  جیسے  عمارت اینٹوں  سے  بنتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں  ہے۔
سیلز محض جسم کی اینٹیں  تو ہیں لیکن صرف اینٹوں  سے  عمارت کی تعمیر ممکن نہیں  اگر ان اینٹوں  کے  درمیان انہیں  جوڑنے  والا مسالہ نہ ہو۔ اس مسالے  کے  بغیر صرف اینٹوں  سے  پوری عمارت کھڑی نہیں  ہو سکتی۔ اینٹیں  تو فقط ایک جز ہیں  عمارت کی تعمیر کا۔
اسی طرح سیلز بھی فقط ایک مرحلہ ایک جز ہے  جسمانی عمارت کی تعمیر کا اور فقط اس ایک جز سے  پوری جسمانی عمارت مکمل نہیں  ہو سکتی جب تک ان سیلز کو جوڑنے  والی روح (Energy)   نہ ہو۔
روح کے  بغیر سیلز یکجا ہو کر جسمانی عمارت تعمیر نہیں  کر سکتے۔
یہ روح ہی ہے  جو خلیوں  کو باہم مربوط کر رہی ہے  یہ روح ہی ہے  جو کروڑوں  خلیوں  کو ترتیب دے  کر باہم مربوط کر کے  جسمانی عمارت تعمیر کر رہی ہے۔

۴۔ جسم کا نقشہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿71﴾۔   ﴿جسم کا نقشہ جسم کی تیاری کا تمام پروگرام روح فراہم کر رہی ہے۔ ہر خلیے  کے  پاس روح کا پروگرام ہے  جس کے  مطابق ہر خلیہ وجود پاہا ہے اور اپنا کام کر رہا ہے۔ ﴾
خلیہ جسم کا بہت چھوٹا یونٹ ہے  جسے  مائیکروسکوپ کی مدد سے  دیکھا جاتا ہے  سائنسدانوں  نے  اس ننھے  وجود کی اندر کی دنیا بھی دریافت کر لی ہے۔
اتنے  ننھے  وجود میں  اتنی پیچیدگی اور اس کے  پاس اتنی معلومات کہاں  سے  آئیں؟
مختلف قسم کے  خلیے  مختلف قسم کے  کام سر انجام دے  رہے  ہیں۔ ہر خلیہ کے  پاس روح کا پروگرام ہے  ہر خلیہ اسی پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ ہر خلیے  کو اس کے  کام کا پروگرام دے  رہی ہے  روح

DNA-5 کی معلومات:
نظریہ نمبر:۔  ﴿72﴾۔ ﴿ DNA  کے  پاس معلومات روح کی معلومات ہیں۔ ﴾
جسم کروڑوں  سیلز سے  مل کر بنتا ہے۔ سیلز کے  مرکز میں  نیوکلیئس ہوتا ہے۔ نیوکلیئس کے  اندر کروموسوم (Chromosomes)۔ کروموسوم  DNA  یعنی ڈی اوکسی رائبو نیوکلیئک ایسڈ پر مشتمل ہوتا ہے  اسی DNA کو جین بھی کہتے  ہیں۔ ہمارے  جسم کے  بارے  میں  تمام معلومات DNA   میں  چھپی ہوئی ہیں۔ اس لئے  ماہرین اسے  کتاب زندگی "Book Of Life"   کہتے  ہیں۔ مثلاً  اس جین میں  آپکے  بالوں  کا رنگ، آنکھوں  کی پتلیوں  کا رنگ، جسم اور چہرے  کے  خدوخال۔ آپ کا قد، جسم میں  سیلز کی تقسیم، ہڈیوں ، گوشت، پٹھوں  کی ساخت غرض جسم کے  حوالے  سے  تمام معلومات DNA   میں  درج ہوتی ہیں۔ جسمانی معلومات کے  ساتھ بعض وراثتی عادات و اطوار بھی ریکارڈ ہوتی ہیں۔ سائنسدان  DNA  کو جسم کی ڈائیریکٹری قرار دیتے  ہیں  جسے  وہ ابھی تک پڑھ نہیں  سکے  ہیں۔ صرف ایک سیل میں  موجود  DNA  کی تفصیلات لکھنے  کیلئے  اخبار کے  ایک لاکھ صفحات سیاہ کرنے  ہوں  گے  ایک انسانی DNA  کے  لئے   3  ارب  10 کروڑ الفاظ درکار ہوں  گے۔  DNA  چار اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔
(1)                     (G - Guanine)
(2)                     (T - Thymine)
(3)                     (C - Cytocine)
(4)                     (A - Adenine)
ان اجزا ء کو جنیوم کہا جاتا ہے۔ انہی کے  الٹ پلٹ سے  جسم کی پوری عمارت بنتی ہے۔ مثلاً کون کون سے  کوڈ سے  ہڈیاں  بنتی ہیں  کون کون سے  کوڈ سے  رگ پٹھے، بال، خون، ناخن اور دیگر اعضا کون سے  کوڈ سے  ہوتی ہے۔ ان کوڈز کے  سیٹ کو جنیوم پروجیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کے  اندر جنیوم کے  تیس لاکھ جوڑے  ہوتے  ہیں  جو تقریباً50   سے 100    خلیاتی جینز میں  مرتسمCode   ہوتے  ہیں  لیکن ابھی ان کوڈز کو پڑھنے  کی کوشش جاری ہے۔
DNA کے  پاس اتنی معلومات کہاں  سے  آئیں۔
DNA کے  پاس معلومات روح کی معلومات ہیں  لہذا جسم کا ہر خلیہ اسی روح کے  پروگرام پر اپنا اپنا کام انجام دے  رہا ہے  روح ہر خلیے  کو اس کا پروگرام مہیا کر رہی ہے۔

6۔ نظام عصبی:
نظریہ نمبر:۔ ﴿73﴾۔  ﴿نظامِ عصبی روح کے  پروگرام پر کام کر رہا ہے۔ روح نظام عصبی کو قائم اور متحرک رکھے  ہوئے  ہے۔ ﴾
جسم انسانی ہڈیوں  کے  ڈھانچہ سے  پیوستہ عضلات و اعصاب کا مجموعہ ہے  جوخلیات سے  مرکب ہے۔ اگرچہ خلیات بناوٹ کی اکائی کے  لحاظ سے  یکساں  ہوتے  ہیں لیکن کارکردگی کے  لحاظ سے  مختلف مثلاً  اعصابی خلیے ، گوشت کے  خلیے اور ہڈی کے  خلیے  اپنے  اپنے  کام اپنے  اپنے  طریقوں  سے  سر انجام دیتے  ہیں۔  زندہ رہنا، مختلف افعال سرانجام دینا اور مناسب وقت پر آنے  والے  نئے  خلیوں  کے  لئے  جگہ خالی کرنا پرانے  خلیوں  کی خودکشی ان ذہنی احکامات کے  تحت ہوتا ہے  جو خودکار اعصابی نظام Parasympathetic System   کے  تحریکی اشاروں  کی صورت میں  انہیں  موصول ہوتے  رہتے  ہیں۔ یہ اشارے  خلیے  کو تین اطراف سے  موصول ہوتے  ہیں۔ اول خود خلیے  کا نیوکلیئس اور اس میں  موجود DNA اور جینز دوسرا دیگر خلیے اور ان کا ترسیلی نظام، تیسرا اعصابی خلیے اور ان کا ترسیلی نظام۔ یہ تمام ترسیلی نظام دو طرفہ کام کرتے  ہیں  یعنی دماغ اور مختلف مقامات پر واقع مراکز سے  احکامات کی وصولی اور خلیوں  کو ترسیل، خلیوں  کے  حالات، احکامات کی تعمیل بصورت عمل و رد عمل کے  ذریعے  متعلقہ کارٹیکس کو مطلع رکھنا۔ یہ تمام اعصابی افعال کیمیائی برقی قوت سے  تشکیل پاتے  ہیں۔ ان برقی کیمیائی لہروں  کی رفتار عام برقی لہروں  سے  بہت کم ہوتی ہے۔ یہ رو عصبانیوں  سے  گزر کر حرام مغز کو اور وہاں  سے  دماغ کو پہنچتی ہے اور وہاں  سے  حرکی اعصاب میں  منتقل ہو جاتی ہے۔ مختصراً جانداروں  میں  نظام عصبی کی بدولت کام کرنے  یا روکنے  کی سکت اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے  کہ وہ کیا چیز ہے  جو اس نظام عصبی کو قائم اور متحرک رکھے  ہوئے  ہے۔ اور کیسے؟  خلیوں  کو تین اطراف سے  موصول ہونے  والے  تحریکی اشارے  دماغ اور مختلف مقامات پر واقع مراکز سے  احکامات کی وصولی اور خلیوں  کو ترسیل اور خود خلیہ اور DNA کی معلومات یہ سب روح کی بدولت ہے۔ یہ سارا نظام روح کے  مرتب پروگرام پر کام کر رہا ہے۔

۷۔ خلیہ مادہ اور روح:
نظریہ نمبر:۔ ﴿74﴾۔  ﴿خلیہ اور جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ مادہ اور روح ہے۔ ﴾
خود جسم اور جسم کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا یونٹ اور بڑے  سے  بڑا یونٹ مادہ اور روح  (Energy)  ہے۔
لہذا ہر خلیہ ہر یونٹ اسی روح  (انرجی)  سے  زندہ ہے  متحرک ہے اور جب اس خلیے  میں  سے  یہ روح یہ انرجی نکل جاتی ہے  تو یہ خلیہ مردہ ہو جاتا ہے  جسے  ہم خلیے  کی خودکشی کہتے  ہیں  اب خلیہ وہ کام سر انجام نہیں  دے  سکتا جو وہ روح کے  پروگرام پہ انجام دے  رہا تھا۔ لہذا
(1)  ہر خلیہ یا جسم کا ہر چھوٹا بڑایونٹ روح اور مادہ ہے۔
(2)   ہر خلیہ یا جسم کا ہر چھوٹا بڑایونٹ روح  (Energy)  سے  زندہ ہے۔
(3)    ہر خلیے  کے  پاس حرکت و عمل کا پروگرام ( روح کا پروگرام ) ہے۔
۸۔ جسم میں  روح:
نظریہ نمبر:۔ ﴿75﴾۔  ﴿روح (Energy)   پورے  جسم میں  ہر جگہ موجود ہے۔ ﴾
جسم کے  ہر عضو، ہر یونٹ ہر ذرے  میں  روح ہے۔
پورے  جسم میں  ہر جگہ روح موجود ہے۔
 DNA کے  پاس روح کا پروگرام موجود ہے۔
نظام عصبی کو تحریک دینے  والی روح ہے۔
ہر خلیے  ہر عضو کے  پاس روح کا پروگرام ہے۔ جس پہ وہ عمل پیرا ہے اور  روح کی انرجی سے  زندہ اور متحرک ہے۔
دو خلیوں  کو مرکب کر کے  جسم تعمیر کرنے  والی بھی روح ہے۔
 AURA میں  بھی روح ہے۔
جسم کی زندگی روح ہے۔
جسم کا فیول روح ہے۔
حرکت و عمل کا پروگرام روح ہے۔
پورے  جسم کے  ہر عضو ہر ذرے  کی زندگی اور حرکت و عمل کا مکمل پروگرام روح ہے۔
لہذا جسم میں  روح ہر جگہ موجود ہے۔

۹۔ انفرادی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿76﴾۔  ﴿جسم کے  ہر چھوٹے  بڑے  یونٹ کے  پاس انفرادی روح  (Energy)  ہے۔ ﴾
 جسم کے  ہر بڑے  سے  بڑے  عضو اور ہر چھوٹے  سے  چھوٹے  یونٹ چاہے  وہ خلیہ ہو یا عضو سب کے  پاس اپنی انفرادی انرجی (روح)ہے۔
لہذا جسم کے  ہر یونٹ کے  پاس اپنی انفرادی روح (زندگی، انرجی)ہے  جسم کے  ہر یونٹ کے  پاس اپنا انفرادی حرکت و عمل کا پروگرام ہے  ہر خلیہ اپنا کام جانتا ہے  ہر خلیے  کے  پاس حرکت و عمل کا اپنا انفرادی پروگرام موجود ہے  روح کی صورت میں۔ اسی اپنے  اپنے  انفرادی پروگرام کے  تحت جسم کا ہر عضو ہر یونٹ زندہ ہے، متحرک ہے۔ اپنا اپنا کام سرانجام دے  رہا ہے۔ لہذا خود جسم اور جسم کا ہر بڑا یا چھوٹا یونٹ
(1)   مادہ اور روح ہے۔
(2)   روح کے  ذریعے  زندہ ہے۔
(3)   روح کے  پروگرام پر عمل پیرا ہے۔
(4)   روح کی عدم موجودگی سے  مردہ ہے۔
(5)   ہر یونٹ اسی روح  (انرجی)  کی ایک (مادی) صورت ہے
 یعنی درحقیقت خلیہ اور ہر یونٹ (چاہے  وہ بڑا ہو یا انتہائی چھوٹا)فقط   انرجی  (روح) ہے۔

۱۰۔ جسم کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿77﴾۔  ﴿پورے  جسم میں  ایک ہی روح  (Energy)  ہے۔ ﴾
یہ بھی عجیب بات ہے  کہ جسم کے  ہر ذرے  ہر عضو ہر چھوٹے  بڑے  یونٹ کے  پاس اپنی اپنی انفرادی روح (حرکت و عمل کا پروگرام) ہے  یعنی جسم کا ہر ذرہ اپنی انفرادی حیثیت، اپنا ذاتی حرکت و عمل کا پروگرام اپنی ذاتی زندگی اور اپنی انفرادی روح رکھتا ہے۔ اور جسم کے  لا شمار ذروں  میں  تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود پورے  جسم کی ایک ہی واحد روح ہے۔
یعنی جسم کا ہر یونٹ اپنی اپنی انفرادی روح بھی رکھتا ہے اور پورے  جسم میں  بھی ایک ہی روح (Energy) ہے۔
اور یہی پورے  جسم کی "ایک روح" جسم کے  ہر عضو ہر ذرے  کو انفرادی روح ( زندگی، انرجی، حرکت و عمل کا پروگرام) بھی دے  رہی ہے اور یہی روح ہر ذرے  کی انفرادی روح میں  تقسیم ہونے  کے  باوجود بھی واحد ہی ہے  ناقابل تقسیم ہے۔ اور ہر حالت میں  اپنی وحدانیت بھی برقرار رکھے  ہوئے  ہے۔ لہذا
(1)   جسم کے  ہر ذرے  ہر یونٹ کے  پاس انفرادی روح  (Energy  پروگرام) ہے۔
(2)   پورے  جسم میں  بھی ایک ہی انفرادی واحد روح ہے۔
(3)   یہی واحد روح جسم کے  ہر یونٹ میں بھی ہر یونٹ کی انفرادی روح (انرجی، پروگرام) کی صورت میں  بھی موجود ہے۔

۱۱۔ روح کا مرکز
نظریہ نمبر:۔ ﴿78﴾۔  ﴿جسم میں  روح کا مرکز دل ہے۔ ﴾
یا یوں  کہنا درست ہو گا کہ جسم کے  ہر یونٹ میں  روح کا  "ہر مرکز "  ( ہر دل)  ہے۔
اس بات کو سمجھنے  کے  لئے   "روح" ، "ہر مرکز" اور  "ہر دل"  کا جاننا ضروری۔ (اگرچہ ہم اس کی مسلسل وضاحت کرآئے  ہیں )۔
روح انرجی ہے۔
ہر مرکز۔ ہر مرکز سے  مراد جسم کے  ہر چھوٹے  بڑے  یونٹ کا درمیان یا اس کا مرکز ہے۔
ہر دل۔ اور ہر یونٹ کا مرکز ہی در اصل جسم کے  ہر چھوٹے  بڑے  یونٹ کا دل ہے۔
جسم کے  ہر یونٹ کے  ہر مرکز کو یہاں  ہم نے  ہر دل کہا ہے
اسکا مطلب یہ ہے  کہ جسم کے  ہر چھوٹے  سے  چھوٹے  یونٹ کے  مرکز میں  روح (Energy)  ہے 
یعنی جسم کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا یونٹ مادہ (جسم) اور روح (Energy) پر مشتمل ہے۔
لہذا جسم کے  ہر یونٹ کے  مرکز میں  روح  (Energy)  ہے۔ لہذا جسم میں  روح کا ہر مرکز اپنی جگہ دل ہے۔
صرف جسم کے  ہر مرکز میں  ہی دل نہیں  ہے  بلکہ مجموعی جسم کا مرکز بھی دل ہی ہے۔
اور پورے  مجموعی جسم میں  روح کا مرکز وہ دل ہے  جو سینے  کے  بائیں  جانب دھڑک رہا ہے۔ اور یہ مجموعی جسم کا دل تمام مرکزوں  کا مرکز ہے۔ یعنی جسم میں اور جسم کے  ہر مرکز کو سپلائی ہو رہی انرجی (روح) کا مین پاور اسٹیشن یا مرکز یہی دل ہے  یہیں  سے  انرجی ( روح) تمام جسم کے  تمام تر مراکز(تمام دل) کو سپلائی ہو رہی ہے۔
لہذا جسم میں  روح (Energy)  کا مرکز یہی مرکزی دل ہے۔ جو جسم کے  ہر مرکز کا مرکز ہے۔ یعنی جسم کے  ہر یونٹ کے  مرکز کا مرکز دل ہے اور دل روح کا مرکز ہے۔
سادہ الفاظ میں  یوں  کہنا ہو گا کہ جسم کے  ہر ذرے  میں  روح ہے اور جسم کے  ہر ذرے  کی روح کا مرکز دل ہے  یعنی دل وہ پاور اسٹیشن ہے  جہاں  سے  انرجی جسم کے  ہر یونٹ  کے  مرکز کو سپلائی ہو رہی ہے۔ یہ روح جس کا مرکز دل ہے  اگرچہ روح کا مرکز دل ہے  لیکن جسم کے  ہر ذرے   کے  مرکز یا دل میں  موجود روح اپنے  مرکز(دل) میں  نہیں  ہے۔ جسم کے  ہر ذرے  میں  موجود روح جسم میں  ہے  ہی نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے  کہ یہ جسم کے  ہر ذرے  کے  مرکز میں  موجود روح خود کہاں  ہے۔
۱۲۔ جسم کی روح خود کہاں  ہے 
نظریہ نمبر:۔ ﴿79﴾۔  ﴿پورے  جسم کے  اندر ہر خلیے  ہر ذرے  میں  موجود روح جسم میں  نہیں  ہے  بلکہ جسم سے  باہر ہے۔﴾
اگرچہ روح کا مرکز دل ہے  لیکن روح دل میں  نہیں  ہے۔ اگرچہ پورے  جسم میں  ہرجگہ ہر خلیے  ہریونٹ کے  مرکز میں  روح  (Energy) اور اس کا پروگرام موجود ہے اور ہر خلیہ ہر عضو روح کے  اسی پروگرام پر عمل پیرا ہے  لیکن یہ جسم کی روح جسم میں  ہر جگہ موجود ہونے  کے  باوجود بذات خود جسم کے  اندر نہیں  ہے   بلکہ یہ جسم سے  باہر ہے۔ یہ بھی شائد عجیب اور سمجھ میں  نہ آنے  والی بات ہے  کہ روح جسم کے  ہر یونٹ میں  موجود بھی ہے  لیکن جسم کے  باہر بھی ہے۔ یعنی روح خود تو جسم کے  باہر ہے  لیکن اس کی انرجی اس کا پروگرام جسم کے  ہر گوشے  میں  موجود ہے۔ اس کی مثال بجلی کے  نظام کی سی ہے۔  مثلاً
سارے  گھر میں  بجلی دوڑ رہی ہے  گھر کے  اندر کی ہر شے  اسی بجلی سے  متحرک ہے  فریج کے  اندر بھی بجلی ہے  پنکھے اور ٹی وی میں  بھی لیکن ہر شے  میں  موجود بجلی کہیں  باہر سے  آ رہی ہے  مین بورڈ  بھی اسکا منبع نہیں  ہے  بلکہ گھرکے  اندر دوڑنے  والی بجلی کہیں  باہر سے  آ رہی ہے۔
لہذا جسم کے  اندر دوڑنے  والی بجلی جسم کے  ہر عضو ہر یونٹ میں  موجود بجلی (روح) بھی دراصل باہر سے  آ رہی ہے۔ اگرچہ جسم میں  اس کا مرکز دل ہے  لیکن اس مرکز میں  روح خود موجود نہیں  بلکہ 
روح جسم میں  نہیں  روح جسم کے  باہر ہے۔

۱۳۔ انسان کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿80﴾۔  ﴿کائنات کے  ہر انسان کے  پاس اپنی انفرادی روح ہے ﴾
دنیا میں  اربوں  انسان ہیں۔ ہر انسان کے  اندر انفرادی روح ہے۔ مثلاً جو روح  (Energy) میرے  یعنی  "روبینہ نازلی"  کے  جسم میں  ہے  وہ روح  (Energy) میرے  جسم اور حرکت و عمل کا ایک مکمل پروگرام ہے  ایک مکمل مقداری فارمولہ ہے۔
میرے  اندر یہ روح یہ انرجی ایک انفرادی مقداری فارمولہ ہے۔ اتنی مقدار کا اور ایسا ہی مقداری فارمولہ یا حرکت و عمل کا پروگرام کوئی اور نہیں  ہو سکتا۔
کسی بھی رابعہ رضوی یا سلیم یا درخت یا پہاڑ کا مقداری فارمولہ  "روبینہ نازلی"  کے  مقداری فارمولے  سے  مختلف مقداری فارمولہ ہے۔
ان فارمولوں  میں  چاہے  تھوڑا ہی فرق ہو لیکن فرق ضرور ہے۔ اور یہی مقداری فرق انفرادیت پیدا کر رہا ہے   روبینہ نازلی  یا  رابعہ رضوی میں۔ یا مرد اور عورت میں  انفرادیت بھی اسی فارمولے  کے  فرق سے  ظاہر ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ اسی فرق کے  سبب جڑواں  بچوں  میں  حد درجہ مماثلت کے  باوجود انفرادیت برقرار رہتی ہے 
اگر ہر وجود کے  مقداری فارمولے  میں  یہ فرق نہ ہو تو دو انسانوں  میں  ہم فرق نہیں  کر سکتے  یا دو جنسوں  میں  فرق کرنا ممکن نہ رہے  یا درخت اور پہاڑ کو الگ سے  شناخت کرنا دشوار ہو۔ لہذا ہر وجود ایک مکمل اور منفرد فارمولہ ہے۔
اور ہر فارمولے  کی انرجی (روح) کی مقدار میں  واضع فرق ہے۔ لہذا کائنات کے  ہر شخص کی روح واحد اور منفرد روح ہے۔

۱۴۔ تمام انسانوں  کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿81﴾۔ ﴿تمام انسانوں  میں  ایک ہی روح  (Energy) ہے۔ ﴾
اگرچہ ہر انسان کے  پاس انفرادی روح ہے اور ہر روح ایک الگ اور منفرد مقداری فارمولہ ہے اور ہر مقدار ہمیشہ اپنی انفرادیت اور وحدانیت برقرار رکھتی ہے 
پھر بھی ہر جسم کی انفرادی روح اور ہر جسم کے  ہر یونٹ کی انفرادی روح میں  تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود تمام انسانوں  میں  فقط ایک ہی روح  (Energy)ہے۔ اور یہ ایک ہی روح ہر حیثیت میں  اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے   یعنی۔
(1)   تمام انسانوں  کی روح بھی واحد ہے۔
(2)   ہر جسم کی روح بھی واحد ہے۔
(3)   جسم کے  ہر ذرے  کی روح بھی واحد ہے۔
(4)   یعنی ایک ہی روح تمام انسانوں کی ہر انفرادی روح کی صورت میں  بھی موجود ہے اور ہر ذرے  کی انفرادی روح کی صورت میں  بھی موجود ہے۔
 ۱۵۔ کائنات کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿82﴾۔  ﴿پوری کائنات یا کائناتوں  کی ایک ہی روح  (Energy) ہے۔ ﴾
اگرچہ جسم کے  ہر یونٹ کے  پاس انفرادی روح (Energy)ہے اور ہر جسم کی بھی اپنی انفرادی روح (Energy)ہے  اور تمام انسانوں  کی بھی ایک ہی روح (Energy)ہے اور پوری کائنات کی بھی ایک ہی روح (Energy)ہے۔
 ہر جسم کی انفرادی روح اور جسم کے  ہر یونٹ کی انفرادی روح اور کائناتوں  کی روح میں  تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود کائنات کی روح واحد ہے۔
کائنات اور اس کا ہر ذرہ وہ بڑے  سے  بڑا وجود ہو یا چھوٹے  سے  چھوٹا ذرہ تمام میں  ایک ہی روح (Energy)ہے۔ اور ہر ذرے  کی روح منفرد روح ہے اور ہر حالت میں  اپنی انفرادیت اور اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے۔ اور ہر ذرے  کی وحدانیت اور انفرادیت برقرار رہنے  کے  باوجود اور انرجی تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود اجتماعی حیثیت میں  بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے۔ یعنی
(1)   جسم کے  ہر ذرے  کی روح(Energy) بھی واحد ہے۔
(2)   ہر جسم کی روح(Energy) بھی واحد ہے۔
(3)   تمام انسانوں  میں  بھی ایک ہی واحد روح (Energy)ہے۔
(4)   کائنات کے  ہر وجود میں  واحد روح (Energy)ہے۔
(5)   پوری کائنات میں  ایک ہی روح(Energy) ہے ، اور یہ پوری روح واحد ہے۔
لہذا یہ کہنا درست نہیں  کہ انسان میں  کوئی اور روح(Energy) ہے  جانور میں  کوئی اور روح (Energy)درخت میں  کوئی اور یا انسانوں  کی روح اعلی ہے اور حیوانات میں  کوئی کمتر روح ہے۔ ہر وجود میں  ایک ہی روح((Energyہے  ہاں  لیکن ہر وجود کی روح (Energy)کی مقدار میں  فرق ہے   ہر وجود کی روح (Energy)کی مرکب حالت میں  فرق ہے۔ ہر وجود کا پروگرام منفرد اور مختلف پروگرام ہے۔ اور اسی انفرادیت کی وجہ سے  کائنات کا ہر وجود دوسرے  سے  مختلف ہے  منفرد ہے۔ انسانوں  کا پروگرام منفرد ہے  درختوں  کا الگ، جانوروں  کا الگ لہذا کائنات کا ہر وجود اسی انفرادی پروگرام کی وجہ سے  منفرد ہے۔ لہذا ایک ہی روح (Energy)مختلف اور منفرد موجودات کی صورت میں  ہمارے  سامنے  موجود ہے۔
ایک ہی روح (Energy)پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی صورت میں  موجود ہے  کیسے؟

۱۶۔ روح کا منبع
نظریہ نمبر:۔ ﴿83﴾۔ ﴿روح کا منبع پاور اسٹیشن ہے۔ ﴾
یہ ہمارے  جسم کی روح جو جسم کے  ہر یونٹ میں  بھی ہے  دل میں  بھی ہے اور جسم کے  باہر بھی  ہر جگہ موجود ہے  اس روح کا منبع ایک مین پاور اسٹیشن ہے۔
جیسے  گھر کے  اندر بجلی ہر شے  کے  اندر ہے  یہ بجلی مین بورڈ سے  نہیں  پھوٹ رہی بلکہ کہیں  باہر تاروں  کھمبوں  کے  ذریعے  گھر میں  آ رہی ہے۔ تاریں  کھمبے  بھی اس بجلی کا منبع نہیں  بلکہ یہ بجلی کہیں  مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے  یہی مین پاور اسٹیشن اس بجلی کا منبع ہے۔
اسی طرح روح کا منبع بھی ایک مین پاور اسٹیشن  ہے۔

۱۷۔ واحد روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿84﴾۔ ﴿ کائنات کے  ہر وجود کی روح واحد (Energy)(نا قا بل تقسیم)ہے۔ ﴾
 نظریہ نمبر۔ ﴿85﴾۔ ﴿پوری کائنات میں بھی ایک ہی روح (Energy)ہے۔ انرجی اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے۔﴾
﴿روح (Energy)اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے اور کائنات کی تمامتر موجودات میں  منقسم ہونے  کے  باوجود بھی اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے۔ ﴾
ایک ہی روح یا واحد روح کائنات کی واحد روح کیسے  ہر ذرے  کی حیثیت میں  بھی واحد ہے اور اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے  اب ہم اس کی وضاحت کرتے  ہیں۔
روح کی تعریف میں  ہم یہ بتا آئے  ہیں  کہ روح انرجی ہے  توانائی ہے۔ اور یہ توانائی   (Energy)  واحد ہے۔
یہ توانائی مرکب نہیں  ہے۔
اس انرجی کے  علاوہ توانائی کی جتنی بھی اقسام سے  ہم واقف ہیں  وہ مرکب توانائیاں  ہیں۔ لہذا کائنات کا ہر وجود اسی واحد انرجی کے  مرکبات کا مجموعہ ہے۔
فقط کائنات کی یہ اصل "انرجی"  (روح) ہی غیر مرکب ہے۔ یعنی پوری کائنات میں  ایک ہی انرجی ہے۔ یہاں  ہم نے  انرجی کی دو حیثیتوں  کا تذکرہ کیا ہے
(1)   اجتماعی حیثیت
(2)   انفرادی حیثیت
(1)   اجتماعی حیثیت:  انرجی اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے۔ لہذا پوری کائنات میں  ایک ہی روح (Energy)ہے۔
(2)   انفرادی حیثیت:  ہر ذرے  میں  انفرادی روح ہے  ہر ذرہ اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے اور یہ وحدانیت کہیں  نہیں  ٹوٹتی اسی انفرادیت کے  سبب ہم  مرد عورت، درخت، پہاڑ غرض کائنات کی ہر شے  کو انفرادی حیثیت میں  شناخت کرتے  ہیں۔
یعنی ایک ہی روح مختلف مقداروں  میں  منقسم بھی ہے ، مختلف مقداروں  میں  مرکب بھی ہے  پھر بھی تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود ہر وجود میں  بھی واحد ہے اور اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے  یعنی روح (Energy) کی وحدانیت انفرادی یا اجتماعی کسی حیثیت میں  نہیں  ٹوٹتی۔
یہ شائد نہ سمجھ میں  آنے  والی بات ہے  لیکن ہم اس کی وضاحت ایک سادہ سی مثال سے  کرتے  ہیں۔
ہمارے  گھر میں  بجلی آ رہی ہے  پورے  گھر میں  دوڑ رہی ہے  گھر کی ہر شے  فریج پنکھے ، ٹی وی وغیرہ سب اسی بجلی سے  چل رہے  ہیں  ہم یہ نہیں  کہہ سکتے  کہ بلب میں  کوئی اور بجلی ہے اور ٹی وی میں  کوئی اور ایک ہی بجلی ہر وجود میں  مختلف مقداروں  میں  موجود ہے  (اسی طرح ایک ہی روح جسم کے  ہر ذرے  میں  موجودہ ہے )۔
یہ بجلی تاروں  کھمبوں  کے  ذریعے  ہمارے  گھر میں  دوڑ رہی ہے۔ یہ تاریں  اور کھمبے  بھی بجلی کا منبع نہیں  بلکہ یہ کہیں  مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے۔ یعنی مین پاور اسٹیشن سے  لیکر ہمارے  گھر تک جو بجلی کا سلسلہ ہے  وہ تمام ایک ہی سلسلہ ہے  یوں  نہیں  کہ کھمبوں  میں  کوئی اور بجلی مین پاور اسٹیشن میں  کوئی اور گھر میں  کوئی اور ہے  بلکہ بجلی ایک ہی ہے اور یہ تسلسل کہیں  ٹوٹا نہیں  لہذا ایک ہی بجلی ہر وجود میں  مختلف مقدار میں  موجود بھی ہے اور مختلف قسم کی موجودات کو حرکت میں  بھی رکھے  ہوئے  ہے۔
بالکل ایسا ہی تسلسل ہے  کائنات میں  کائناتی انرجی(روح) کا لہذا ایک ہی مین پاور اسٹیشن سے  ایک ہی انرجی(روح) پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کو مختلف مقداروں  میں  میسر آ رہی ہے  نہ کم نہ زیادہ۔
اور یہ تسلسل برقرار ہے  انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی لہذا
(1)   واحد روح (یا ایک ہی انرجی(Energy))۔
(2)   ہر وجود میں  انفرادی حیثیت میں  بھی موجود ہے۔
(3)  اور اجتماعی حیثیت میں  اپنی واحدانیت بھی برقرار رکھے  ہوئے  ہے۔

۱۸۔ روح کہاں  ہے ؟
نظریہ نمبر:۔ ﴿86﴾۔  ﴿روح بیک وقت ہر جگہ موجود ہے۔ ﴾
یہ روح (Energy)خالق کائنات کا حکم ہے اور اسی حکم سے  تمام کائنات اور اس کی تمام تر موجودات مسلسل متحرک ہیں۔ یہ حکم انرجی ہے  یہ انرجی حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی حکم انرجی یا روح سے 
ہر وجود اسی روح (Energy)سے  وجود ہے۔
ہر وجود اسی روح (Energy)سے  تخلیق ہو رہا ہے۔
؂ہر وجود اس کی عدم موجودگی سے  فنا ہو رہا ہے۔
ہر وجود اسی روح (Energy)سے  زندہ ہے۔
ہر وجود اسی روح(Energy) سے  متحرک ہے۔
ہر وجود اسی روح (Energy)کا ایک مقداری و مرکب فارمولہ ہے۔
یہی روح (Energy)مختلف مرکب حالتوں  میں  مختلف موجودات (وجود) ہے۔
یہ تمام موجودات جو انرجی ہی کی مختلف مرکب حالتیں  ہیں  یہ موجودات انرجی ہی کی ایک شکل (AURA) سے  متحرک ہیں۔
 خود کار مشینری روح (Energy)کے  پروگرام سے  متحرک ہے۔
 نظام عصبی کو تحریک دینے  والی روح (Energy)ہے۔
 DNAکے  پاس روح (Energy)کا پروگرام ہے۔
ہر خلیے  میں  روح(Energy) اور اس کا پروگرام موجود ہے۔
 AURA میں  بھی روح (Energy)ہے۔
 دو خلیوں  کو مرکب کر کے  جسم بنانے  والی روح (Energy)ہے۔
جسم کے  ہر جوڑ ہر خلیے  میں  روح (Energy)اور اس کا پروگرام ہے۔
 روح (Energy)ہی کے  پروگرام سے  جسم کو جسمانی اعمال کی ہدایات وصول ہو رہی ہیں  جس سے  جسمانی عمل کی عملی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔
جب روح ((Energyخود ہی خود سے  مرکب ہو کر مختلف روپ دھارتی ہے  تو مختلف موجودات کی صورت میں  ظاہر ہوئی جس کو کبھی ہم مادہ کہتے  ہیں  کبھی پلازمہ، کبھی گیس، کبھی پانی، کبھی ہوا، کبھی آگ، کبھی درخت، کبھی پہاڑ، کبھی صحرا، کبھی دریا، کبھی جانور، کبھی انسان۔  جب یہ موجودات انرجی کے  خارج ہونے  سے  فنا ہو جاتی ہیں  یا جب انرجی یہ مرکب حالت چھوڑدیتی ہے  تو یہ موجودات فنا ہو جاتی ہیں  تو فقط پیور انرجی باقی رہ جاتی ہے اور یہی پیور انرجی ہی حقیقت ہے  باقی تمام موجودات مفروضے  ہیں۔
لہذا روح خالق کائنات کا حکم ہے  یہ حکم حرکت کا منظم و مسلسل پروگرام ہے اور اسی روح سے  مرکب تمام موجودات اسی حکم کے  منظم پروگرام پر عمل پیرا ہیں  لہذا ہر وجود کی موجودگی، حرکت و عمل، زندگی، ارادی و غیر ارادی اعمال کا منبع یہی روح ہے۔
 لہذا روح (Energy)جسم تخلیق کر رہی ہے۔ جسمانی مشینری کو چلا رہی ہے۔ اسی روح (Energy)کے  جسم میں  ہونے  کو ہم زندگی کہتے  ہیں اور اسی روح (Energy)کے  جسم میں  نہ ہونے  کو ہم موت کہتے  ہیں، اسی روح (Energy)کی تخلیق کو ہم جسم کہتے  ہیں اور اسی روح (Energy)کے  نہ ہونے  سے  اسی جسم یا انسان کا کہیں  نشان بھی باقی نہیں  بچتا۔ یعنی خود جسم انرجی کی ایک ہیت ایک مظاہرہ یا انرجی کا ایک مرکب ہے۔ یعنی جسم انرجی ہے  درحقیقت۔  (یعنی رب کا حکم)
کائنات اور اس کی تمام تر موجودات  بشمول انسان واحد انرجی کے  مختلف مظاہرے  ہیں کائنات کی واحد حقیقت انرجی ہے  جو رب کا حکم ہے۔
یعنی کائنات اور اس کی تمام تر موجودات  بشمول انسان خالق کا حکم (پروگرام، انرجی)ہے۔

۱۹۔ روح کائنات سے  مربوط ہے
نظریہ نمبر﴿87﴾۔ ﴿روح پوری کائنات سے  مسلسل مربوط ہے۔ ﴾
پاور اسٹیشن کی انرجی نزول کر رہی ہے  یہی انرجی مختلف موجودات کی شکل دھار رہی ہے  یہی انرجی ہر وجود میں  مختلف مقدار میں  موجود ہے  یعنی ہر وجود میں  پاور اسٹیشن سے  ہر لمحہ مربوط ہے۔
جیسے  بجلی مین پاور اسٹیشن سے  کھمبوں  تاروں  کے  طویل سلسلے  سے  ہوتی ہوئی ہمارے  گھر تک پہنچ رہی ہے اور پورے  گھر میں  روشنی ہے  فریج ٹی وی، بلب غرض گھر کی ہر شے  اسی سے  چل رہی ہے  متحرک ہے۔  یعنی بلب جو روشن ہے  اس میں  بجلی مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے۔ یعنی یہ بلب مین پاور اسٹیشن کی بجلی سے  روشن ہے  لیکن یہ بجلی کے  تمام تر وسیع سلسلے  سے  مربوط بھی ہے  ایسا نہیں  ہے  کہ گھر میں  فقط بلب مین پاور اسٹیشن کی بجلی سے  روشن ہے ، ایسا نہیں  ہے  ریفریجریٹر کسی اور ذریعے  سے  متحرک ہے  بلکہ جو بجلی بلب میں  ہے  وہی ٹی وی میں  بھی ہے ، اسی سے  ریفریجریٹر چل رہا ہے  وہی بجلی پنکھے  میں  ہے  وہی تاروں اور کھمبوں  میں  ہے  ہر وجود اسی بجلی کے  سلسلے  کا تسلسل ہے۔
لہذا روح جوکہ بذات خود انرجی ہے اور یہ روح پاور اسٹیشن کے  طویل سلسلے  سے  مربوط ہے  روح کائنات کے  ہر وجود سے  مربوط ہے۔ پاور اسٹیشن کی انرجی نزول کر کے  ایک طویل سلسلے  کے  تحت ہر وجود تک پہنچ رہی ہے اور کائنات کاہر وجود بشمول انسان انرجی کے  اس تسلسل سے  مسلسل مربوط ہے۔
۲۰۔ واحد حقیقت
نظریہ نمبر۔ ﴿88﴾۔ لہٰذا ا کائنات اور اس کی تمامتر تخلیقات( موجودات بشمول انسان )
کی ایک ہی حقیقت ایک ہی اصل ہے اور وہ ہے  انرجی(Energy)(روح یا رب کا حکم)۔ ﴾
کائنات کا ہر وجود اسی انرجی (Energy)کی مختلف شکلیں  یا مرکبات ہیں۔
ہر وجود انرجی (Energy)کے  ایک ہی تسلسل کا حصہ ہے اور اس سے  مسلسل مربوط ہے۔
روح(Energy) ہر لمحہ کائناتی اجسام تخلیق کر رہی ہے۔
مادی جسم بھی روح(رب کا حکم(پروگرام) کی تخلیق ہے۔
یعنی کائنات اور کائنات کی تمام تر موجودات رب کا حکم(پروگرام) ہیں۔ اسی حکم پر عمل پیرا اور اس سے  مسلسل مربوط ہیں۔
کائنات کی اصل کائنات کی واحد حقیقت کائنات کا تخلیقی مادہ  واحد انرجی (Energy)ہے  جو رب کا حکم ہے  یعنی
جو کچھ بھی موجود ہے  یا وجود رکھتا ہے  سب رب کا حکم(پروگرام) ہے
ابتدا میں پیدائش کے  عنوان کے  ساتھ ہم نے  یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مادر رحم میں  نطفہ نہیں  بلکہ روح جسم تخلیق کر رہی ہے  اب یہاں  تک پہنچ کر ہم اس نظریے  کی تفصیلاً وضاحت کر چکے  ہیں۔ تخلیق کے  عنوان سے  یہ وضاحت تو ہم کر آئے  ہیں  کہ رحم مادر میں  پورا انسان خود بخود یا محض نطفے  سے  نہیں  بلکہ روح کے  پروگرام کے  عین مطابق تر تیب پا رہا  ہے۔ اب یہاں  ہم یہ وضاحت کریں  گے  کہ روح کا یہ پروگرام کیا ہے اور کیسے  روح کے  پروگرام کے  مطابق جسم ترتیب وتخلیق پا رہا ہے۔

۲۱۔ جسمانی ساخت 
نظریہ نمبر:۔ ﴿89﴾۔  ﴿پیدائش کے  عمل میں  جسمانی ساخت روح کے  دو پروگراموں  سے  ترتیب پا رہی ہے۔ ﴾
         (1)   موروثی پروگرام۔
         (2)    ذاتی پروگرام۔
لہذا اب ہم یہاں  یہ وضاحت کریں  گے  کہ روح کا یہ پروگرام (جسمانی ترتیب کا فارمولہ)دو حصوں  پر مشتمل ہے۔ لہذا پیدائش کے  عمل میں  رحم مادر میں  جسمانی ساخت روح کے  پروگرام سے  تو ترتیب پا رہی ہے اور یہ روح کا پروگرام دو حصوں  پر مشتمل ہے۔
جسمانی ساخت سے  ہماری مراد مادی جسم یا پوری جسمانی شخصیت ہے  جس میں  جنس کا تعین، قد کاٹھ، رنگ و روپ اس کے  علاوہ عادات و اطوار کردار وغیرہ یعنی پوری انسانی شخصیت
یہ جسمانی ساخت ہر شخص کی مختلف ہے۔ اگرچہ دنیامیں  اربوں  انسان ہیں  لیکن ہر انسان دوسرے  سے  مختلف ہے  حالانکہ سب انسان ہیں اور ایک جیسے  جسم رکھتے  ہیں  لیکن ایک ہی طرز کے  تمام اجسام ایک دوسرے  سے  مختلف ہیں۔ اور ہر انسان میں  یہ اختلاف اور انفرادیت پیدائش کے  عمل میں  ہی مکمل ہو جاتی ہے  آئیے  دیکھتے  ہیں  کے  ہر انسان کے  اندر  پیدائش کے  عمل میں  یہ انفرادیت کیسے  جنم لے  رہی ہے۔  جسمانی پیدائش کا عمل نو ماہ کے  عرصے  پر مشتمل ہے اور یہ نو ماہ کا عرصہ دو ادوار پر مشتمل ہے  لہذا انسانی جسم کی تیاری کا عمل روح کے  دو مختلف پروگراموں  سے  ترتیب پا رہا ہے۔ اور یہی روح کے  دو مختلف پروگرام ہر انسان کو مختلف بنا رہے  ہیں۔

(۱)۔ موروثی پروگرام
نظریہ نمبر:۔ ﴿90﴾۔  ﴿120دن تک بچے  کا جسم موروثی پروگرام (روح) سے  ترتیب پاتا ہے۔ ﴾
اسی موروثی پروگرام کے  تحت انسان وراثتی خصوصیات رکھتا ہے اور اسی روح کے  موروثی پروگرام کے  تحت ہر انسان نسل در نسل انسان ہے۔
یہ موروثی پروگرام بچے  کے  والدین کا پروگرام ہے  جو والدین کے  جراثیم سے  بچے  میں  منتقل ہو رہا ہے۔ ماں اور باپ دونوں  کے  جراثیم اپنی اپنی انفرادی روح (انرجی، پروگرام ) رکھتے  ہیں۔
لہذا یہ جراثیم یکجا ہو کر جسم کی ترتیب کا کام شروع کرتے  ہیں  تو یہ کام ماں اور باپ کے  پروگراموں  پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہذا موروثی پروگرام میں  نطفے  کی کارکردگی نمایاں  ہے اور یہ نطفہ اپنا کام کر رہا ہے  ماں  باپ کے  روح کے  پروگراموں  پر۔ اور ماں اور باپ کے  جراثیموں  کے  ذریعے  بچے  کے  اندر ماں اور باپ کی وراثت منتقل ہو رہی ہے۔ اور ماں  کے  شکم کے  ذریعے  یہ وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی ہی چلی آ رہی ہے۔ لہذا
 وراثتی نوعی قانون
نظریہ نمبر:۔ ﴿91﴾۔  ﴿پیدائشی وراثت پہلی ماں  کی کوکھ سے  منتقل ہو رہی ہے اور آخری انسان تک منتقل ہو گی﴾
لہذا یہ موروثی خصوصیات کا پروگرام ماں  کی کوکھ سے  ہر انسان میں  منتقل ہوتا ہے۔ موروثی پروگرام کائنات کی پہلی ماں  سے  چلا ہے اور آخری انسان تک منتقل ہو گا – اور اسی نسل در نسل وراثتی منتقلی کا نتیجہ ہے  کہ
(1)   ہر انسان دوسرے  انسان کی طرح انسان ہی ہوتا ہے  لہذا ابتدا کا انسان بھی ویسا ہی انسان تھا جیسا کہ آج کا انسان ( ابتداء کا انسان حیوان تھا  یا انسان کا بتدریج ارتقاء ہوا یہ نظریہ  ہر قسم کے  نوعی قانون کے  خلاف ہے )۔
(2)   اسی وراثتی منتقلی کی وجہ سے  انسان اپنے  والدین سے  مشابہت رکھتا ہے۔
(3)   اسی  وراثتی منتقلی کی وجہ سے  انسان اپنے  خاندان سے  مشابہت رکھتا ہے۔
(4)   اسی وراثتی منتقلی کے  سبب سے  انسانوں  میں  تقاضے  مشترک ہیں۔
لہذا وراثتی منتقلی کے  سبب ہی انسان کی جسمانی ساخت چال ڈھال، انداز، کردار اس کے  آباء و اجداد سے  مشابہ ہوتے  ہیں۔ دراصل یہ موروثی پروگرام ابتداء کے  انسان یا پہلی ماں  سے  چل رہا ہے اور انتہا کے  انسان تک منتقل ہو گا  یعنی یہ موروثی پروگرام ماں  کے  پیٹ سے  نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ لہذا موروثی قانون کے  مطابق
کائنات کا پہلا انسان بھی آج کے  انسان جیسا انسان ہی تھا اور تمام انسان ایک ہی جوڑے  کی نسل ہیں اور یہ نوعی تسلسل آخری انسان تک منتقل ہو گا
لہذا  رحم مادر میں پیدائش کے  ابتدائی  120  دن ہر انسان کا جسم اسی نسل در نسل موروثی پروگرام یعنی والدین کے  جراثیم سے  ترتیب پاتا ہے۔

۲۔ ذاتی پروگرام 
نظریہ نمبر:۔ ﴿92﴾۔  ﴿120  دن بعد رحم مادر میں  بچے  کے  جسم کو ذاتی پروگرام (روح) مل جاتا ہے۔ یعنی باقی  150  دن بچے  کا جسم اپنے  ذاتی پروگرام(اپنی روح) سے  ترتیب پاتا ہے۔ ﴾
لہذا  120  دن بعد بچے  کا جسم اسی ذاتی پروگرام (روح ) سے  ترتیب پاتا ہے۔ ذاتی پروگرام انسان کی ذاتی شخصی انفرادیت کا پروگرام ہے  لہذا رحم مادر میں باقی کے 150 دن جسم اسی ذاتی پروگرام(اپنی روح) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی ذاتی پروگرام کی وجہ سے۔
ایک انسان تمام انسانوں  کی طرح ہونے  کے  باوجود اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے۔
ہر انسان دوسرے  انسان سے  مختلف ہوتا ہے  اس کی ذات، صفات، شکل، رنگ و روپ، قد کاٹھ، کالا گورا، کردار غرض ہر شے  دوسرے  انسان سے  مختلف اور منفرد ہوتی ہے  اسی انفرادیت کے  سبب ہم ہر انسان کو دوسرے  انسان سے  امتیازی حیثیت میں  شناخت کرتے  ہیں  ہر انسان میں  انفرادیت روح کے  ذاتی پروگرام یا ذاتی روح سے  آتی ہے۔
جنس۔ جنس کا تعین بھی روح کے  پروگرام کے  مطابق ہوتا ہے۔ جو روح کا پروگرام ہو گا وہی جنس تخلیقی تکمیل تک پہنچے  گی یعنی مرد ہو یا عورت مکمل مرد یا مکمل عورت نامکمل مرد یا نا مکمل عورت۔
ادھورا یا پورا زندہ یا مردہ، گورا یا کالا، لمبا یا چھوٹا، خوبصورت یا بدصورت۔ ان سب باتوں  کا تعین روح کے  پروگرام سے  ہوتا ہے۔
نطفے  کی کارکردگی یا وراثتی اضافے  کے  ساتھ جیسا روح کا پروگرام ہو گا ویسی ہی صورت تخلیقی عمل سے  گزر کر سامنے  آئے  گی اور یہ روح خالق کا علم یا حکم ہے۔ یعنی جو خالق کا حکم ہو گا وہی صورت ہو گی۔ یعنی خالق نے  جو کینوس پہ رنگ بکھیرے  وہی تصویر ابھری۔ جو خالق نے  چاہا اور جیسا چاہا ویسی ہی تخلیق سامنے  آتی ہے۔
لہذا ہر انسان کی جسمانی شخصیت دو حصوں  پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ اپنی شخصیت میں  اپنے  آباؤ اجداد سے  بھی مشابہت رکھتا ہے اور اسی کے  ساتھ اربوں  انسانوں  کے  درمیان اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھتا ہے  یعنی اپنی انفرادی شخصیت کا مالک بھی ہوتا ہے۔
لہذا موروثی خصوصیات نطفے (موروثی پروگرام) کے  ذریعے  اس میں  منتقل ہوتی ہیں اور ذاتی خصوصیات ذاتی روح کے  ذریعے۔ یوں  روح کے  دو پروگراموں  سے  انسان کی شخصیت اور اس کی ظاہری جسمانی ساخت ترتیب پاجاتی ہے۔

 تخلیقی خلاصہ 
یہاں  ہم تذکرہ کر رہے  ہیں  رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کے  عمل کا لہذا ہم نے  پیدائش کے  عنوان کی ابتدا کرتے  ہوئے  مادی جسم کے  پیدائشی فار مولے  کے  جو چار نکات پیش کیئے  تھے  اس میں  سے  ایک نکتہ تخلیق کی اب یہاں  وضاحت مکمل ہوئی یہاں  مادی جسم کی پیدائش کے  حوالے  سے  ہم نے  یہ وضاحت کی ہے  کہ مادی جسم کے  سب سے  چھوٹے  ذرے  سے  لے  کر پورے  وجود تک تخلیقی عمل سر انجام دے  رہی ہے  روح  یعنی روح مادی جسم تخلیق کر رہی ہے۔ ماں  کی کوکھ میں  مادی جسم کس فارمولے  کے  تحت ترتیب پا رہا ہے  اب اس فارمولے  کے  ایک مرحلے  تخلیق کی وضاحت تو ہو گئی  لہذا اب ہم اس پیدائشی فارمولے  کے  دوسرے   نکتے  یا مرحلے  کی وضاحت کرتے  ہیں  تناسب کے  عنوان سے۔


(2)                ۔ تناسب
                 رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کا دوسرا مرحلہ ہے  تناسب


نظریہ نمبر:۔ ﴿93﴾۔  ﴿ رحم مادر میں پیدائش کے  ہر مرحلے  میں  مادی جسم میں توازن اور تناسب قائم کر رہی ہے  روح۔﴾
جسمانی مشینری انتہائی پیچیدہ مشینری ہے  اس کے  باوجود متوازن ہے۔ پیدائش کے  ہر مرحلے  میں  مادی جسم میں توازن اور تناسب قائم کر رہی ہے  روح
اربوں  انسان ہیں  ہزاروں  پیدا ہو رہے  ہیں۔ ہر ہر پیدا ہونے  والا ایک مخصوص طریقے اور ترتیب سے  پیدا ہو رہا ہے اور جسم کو بہت ہی مناسب انداز میں  ترتیب دے  رہی ہے  روح۔ اور ایسے  ترتیب دے  رہی ہے  کہ اربوں  انسان پیدا ہو چکے  ہیں جو سارے  کے  سارے  انسان ہیں  ایک جیسے  بھی ہیں اور ایک دوسرے  سے  مختلف بھی ہیں اور متناسب بھی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ جسمانی مشینری کو روح کیسے  متوازن اور متناسب کر رہی ہے۔ روح جسم کو ہزا رہا طریقے  سے  متناسب بنا رہی ہے  جن میں  سے  کچھ کا یہاں  ہم تذکرہ کرتے  ہیں۔

۱۔ خلیوں  میں  تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿94﴾۔ ﴿ خلیوں  کو بڑے  تناسب سے  بلڈنگ بلاکس کی طرح ترتیب دے  رہی ہے  روح۔ ﴾
اگرچہ کروڑوں  خلیوں  سے  جسم بنا ہے  یہ تو سب جانتے  ہیں  مگر ابتداء میں  محض ایک جرثومے  سے  آغاز ہوتا ہے۔ پھر ماں اور باپ کے  جرثومے  مل کر بچے  کے  جسم کا آغاز کرتے  ہیں۔ اور ان جرثوموں  کو بلڈنگ بلاکس کی طرح جسمانی صورت میں  تخلیق و ترتیب دے  رہی ہے  روح یہ ایک سے  دو۔  دو سے  چار بڑھ رہے  ہیں  پھیل رہے  ہیں  ترتیب پا رہے  ہیں  روح کے  پروگرام کے  عین مطابق۔ یعنی خلیوں  کے  تناسب کا پروگرام دے  رہی ہے  روح، خلیوں  کو متناسب کر رہی ہے  روح۔  سائنسدانوں  کے  مطابق خلیے  جسم ترتیب دے  رہے  ہیں
جی ہاں  خلیے  ہی بلڈنگ بلاکس کی طرح جسم ترتیب دے  رہے  ہیں لیکن یہ کام وہ خود بخود نہیں  کر رہے  بلکہ خلیے  جسم ترتیب دے  رہے  ہیں  روح کے  پروگرام کے  عین مطابق

۲۔ اعضا ء کا تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿95﴾۔  ﴿اعضاء کو متناسب کر رہی ہے  روح﴾
اعضاء چھوٹے  بڑے  نہیں  ہیں۔ کم یا زیادہ نہیں  ہیں۔ اربوں  انسان ہیں  ہر انسان میں  یہ اعضاء موجود ہیں  ہر عضو کی مخصوص ساخت اور خصوصیات ہیں ہر عضو اپنی جگہ صحیح اور فٹ بیٹھا ہے۔ ہر عضو کو جسم کی عین مناسبت سے  ترتیب دے  رہی ہے  روح۔
لہذا  اعضاء ایک دوسرے  سے  ہم آہنگ بھی ہیں اور اپنا اپنا انفرادی کام بھی جانتے  ہیں۔
مثلاً دل جگر گردے  ہر عضو کی مخصوص ساخت ہے  ہر عضو کا اپنا مخصوص کام ہے  ہر عضو معتدل ہے  اپنے  کام میں  یہ نہیں  ہے  کہ دل اپنی رفتار سے  زیادہ دھڑک رہا ہے  یا گردے  باقی جسم کے  مقابلے  میں  کم کام کر رہے  ہیں۔ ہر عضو پوری جسمانی مطابقت کے  مطابق ٹھیک ترتیب پا رپا ہے  کام کر رہا ہے اور اعضاء میں  یہ ہم آہنگی اور تناسب پیدا کر رہی ہے  روح۔ ہر عضو کو  انفرادح ترتیب بھی دے  رہی ہے  اپنا انفرادی کام بھی سمجھا رہی ہے اور تمام اعضاء کو جسمانی مناسبت سے  بھی متوازن رکھے  ہوئے  ہے۔ لہذا ہر عضو جسم کی عین مناسبت سے  بالکل صحیح ہے  اپنی جگہ فٹ ہے۔ لہذا اعضاء کو صحیح تناسب سے  ترتیب دے  رہی ہے  روح۔

۳۔ جسمانی نظام میں  تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿96﴾۔  ﴿جسمانی نظام میں  تناسب پیدا کر رہی ہے  روح﴾
انسانی جسم ایک انتہائی پیچیدہ مشینری ہے اور اس پیچیدہ مشینری کا اندرونی وبیرونی نظام انتہائی متناسب ہے  کوئی بدنظمی کوئی بے  قاعدگی نہیں  ہر عضو اپنا مخصوص کام سرانجام دے  رہا ہے۔ ایسا نہیں  کہ کھانے  کا عمل تو واقع ہو گیا نظام انہضام بند ہے  یا دوران خون کام نہیں  کر رہا یا گردے  اپنے  کام سے  کوتاہی کر رہے  ہیں، یا ہاتھ بے  مقصد ہلے  جا رہے  ہیں، یا منہ چلے  جا رہا ہے۔ ایسا کچھ نہیں  ہے  بلکہ ہر اندرونی و بیرونی عضو ہر وقت اپنے  مخصوص کام میں  مصروف ہے اور جسم کا ہر کام بڑے  موقع کی مناسبت سے  اپنے  وقت پر پروگرام کے  عین مطابق انجام پا رہا ہے۔
 اور دنیا کی یہ سب سے  پیچیدہ مشینری خودکار ہے  کیونکہ بظاہر یہ لگتا ہے  کہ اسے  کوئی چلا نہیں  رہا بلکہ یہ خود چل رہی ہے۔ جب کہ ایسا ہے  نہیں  بلکہ اس خود کار مشینری کو روح چلا رہی ہے  یہ جسمانی مشینری خود کار طریقے  سے  کام کر رہی ہے  روح کے  پروگرام پر جیسے  کمپیوٹر اپنے  مخصوص پروگرام پر خودکار کام کرتا ہے۔ اور روح خالق کا حکم ہے  لہذا خالق خود اس مشینری کو چلانے اور متحرک کرنے  والے  ہیں  لہذا بظاہر خود کار نظر آنے  والا پورا اندرونی و بیرونی جسمانی نظام روح کے  پروگرام کے  عین مطابق انتہائی متوازن اور متناسب ہے۔ جسمانی انتہائی پیچیدہ مشینری میں  اس نظام کو قائم کر رہی ہے  روح۔ اور جسمانی نظام میں  اس تناسب کو برقرار بھی رکھے  ہوئے  ہے  روح۔
لہذا جسم کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا یونٹ انفرادی طور پر بھی منظم ہے اور اجتماعی حیثیت میں  بھی منظم ہے اور پیدائشی مراحل میں  ہر جسم کے  اندر یہ تناسب پیدا کر رہی ہے  روح۔

۴۔ جسمانی ساخت میں  تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿97﴾۔ ﴿ ہر جسم میں  انفرادی تناسب قائم کر رہی ہے  روح﴾
دنیا میں  اربوں  انسان ہیں  سب کے  تقریباً ایک ہی نوعیت کے  اجسام ہیں۔ اجسام کی مشینری، اعضاء اجزائے  ترکیب سب ایک ہی جیسے  ہیں  لیکن تناسب کا اتنا حسین امتزاج ہے  اجزائے  ترکیبی کا وہ فارمولہ ہے  کہ ہم ہر جسم کو الگ سے  شناخت کرتے  ہیں۔ یہ نہیں  کہ تمام جسم ایک جیسی مشینری ہونے  کی وجہ سے  گڈمڈ ہو رہے  ہیں۔ ایک جیسی مشینری ہونے  کے  باوجود ہر وجود دوسرے  سے  الگ ہے  ہم ہر وجود کو دوسرے  سے  الگ شناخت کرتے  ہیں۔ یہ مرد ہے  یہ عورت، یہ احمد ہے  یہ مریم  جب کہ اگر انسان ایک جیسی مشینریاں  بنائے  تو ایک جیسی لاتعداد مشینریوں  میں  سے  ہر ایک کو علیحدہ شناخت کرنا ناممکن ہے  جب کہ اربوں  اجسام میں  انفرادی تناسب قائم کر رہی ہے  روح جو کہ رب کا حکم ہے  !  لہذا انسان یہ نہیں  کر سکتا جب کہ خالق نے  یہ خصوصیت محض اپنی مشینری انسان میں  رکھی ہے۔

۵۔ انواع میں  تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿98﴾۔  ﴿انواع میں  تناسب قائم کر رہی ہے  روح جو رب کا حکم ہے  یعنی انواع میں  تناسب قائم کیا ہے  خالق نے 
دنیا میں  اور کائنات میں  بے  شمار موجودات لاتعداد انواع ہیں  سب کا نظام الگ اور متناسب ہے  ہر نوع اپنا انفرادی نظام رکھتی ہے  لہذا انسان کے  انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور شیر کے  شیر کا اور درخت کے  بیج سے  درخت اگتا ہے۔ اور ہر نوع کا نظام انتہائی متناسب ہے۔ اور انواع میں  تناسب قائم کر رہی ہے  روح۔
جسمانی ساخت میں  بھی یہی حد درجہ کا تناسب قائم ہے  جس کی وجہ سے  انسان تمام انواع میں  منفرد ہے۔
اپنی ذاتی حیثیت میں  منفرد ہے۔
ہر عضو منفرد اور متناسب ہے۔
جسمانی نظام میں  تناسب قائم ہے۔
اور ہر انسان متوازن و مناسب بالکل ٹھیک پورا انسان ہے۔
مادی جسم کو منفرد بنانے  کے  لئے  ہزار ہا قسم کے  تناسب قائم کر رہی ہے  روح۔ جن میں  سے  چند کا یہاں  ہم نے  تذکرہ کر دیا لہذا مادی جسم میں  پیدائش کے  دوسرے  مرحلے  میں  روح جسم میں  تناسب قائم کر رہی ہے  اس کی تو وضاحت ہو گئی اب مادی جسم کی پیدائش کا تیسرا مرحلہ ہے  تقدیر۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کے  تیسرے  مرحلے  میں روح  تقدیر کے  عنوان سے  کیا کر رہی ہے۔



(3)                  ۔ تقدیر
                                        ہر کام مقرر تقدیر ہے
                        مادی جسم کی پیدائش کا تیسرا مر حلہ ہے  تقدیر


۱۔ تقدیر کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿99﴾۔  ﴿تقدیر کتاب زندگی ہے  جس میں  انسان کی پوری زندگی درج ہے۔ (روح کی ایک صورت یہی مرتب شدہ کتاب ہے 
( ہم روح کی تعریف میں  یہ وضاحت کر آئے  ہیں  کہ روح زندگی ہے  انرجی ہے ، حکم ہے، اور مرتب پروگرام بھی ہے  اور روح کے  اسی مرتب پروگرام کو یہاں  ہم نے  تقدیر کہا ہے اور اب یہاں  ہم روح کی ایک اور خصوصیت یعنی تقدیر(مرتب پروگرام) کی وضاحت کریں  گے  کہ کیسے  مادی جسم کے  پیدائشی مراحل میں  روح کا یہ مرتب پروگرام یعنی تقدیر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے  اپنے  اندر اس کے  ہر جینز ہر یونٹ میں  لکھا ہوا ہے۔ جیسے  کمپیوٹر خود بخود کام کرتا ہے  لیکن اپنے  اندر درج پروگرام(ہارڈ ڈسک) کے  عین مطابق یعنی کمپیوٹر میں  پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے  مطابق کام کرتا ہے  انسان کے  پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر خود کار حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔
لہذا رحم مادر میں  آغاز پیدائش کے  120  دن بعد نئے  تشکیل پانے  والے  جسم کے  ہر یونٹ کو یہ تحریری پروگرام (تقدیر)یعنی ذاتی جسمانی تعمیر اور ذاتی حرکت و عمل کا پروگرام مل جاتا ہے 
یہ تحریری پروگرام روح کے  ذریعے  پورے  جسم کو وصول ہوتا ہے اور اسی روح کے  ذریعے  جسم کے  ہر یونٹ کو اس کی حرکت و عمل کا مکمل پروگرام وصول ہو جاتا ہے  یہی پورے  جسم اور جسم کے  ہر یونٹ کی حرکت و عمل کا تحریری پروگرام جو ہر یونٹ کے  مرکز میں  تحریر ہے۔ یہی تقدیر ہے۔
120  دن تک تو جسم نطفے  سے  پرورش پاتا رہا یعنی ماں اور باپ کے  جرثوموں  سے  لہذا 120   دن تک تو جسم والدین کے  جرثوموں  کے  پروگراموں  کے  مطابق ترتیب پاتا رہا۔
لیکن 120  دن بعد زیر تعمیر جسم کو اپنا ذاتی  تعمیر کا پروگرام یعنی تقدیر مل گئی ہے۔ اب اس کا  باقی جسم اسی اپنے  ذاتی پروگرام سے  ترتیب پائے  گا۔
اور یہی ذاتی پروگرام اس انسان کے  اندر( اربوں  انسانوں  کے  درمیان) انفرادیت پیدا کرے  گا۔
لیکن کتابِ زندگی محض جسمانی ترتیب کا پروگرام ہی نہیں  ہے  بلکہ یہ کتاب انسان کی پوری زندگی کی کہانی(مسودہ) ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ اس کتابِ زندگی(تقدیر) میں  جسمانی ترتیب کے  پروگرام کے  علاوہ کیا کیا لکھا ہے۔  تقدیر کتاب زندگی یعنی ایک تحریر تو ہے  لیکن اس مرتب کتا ب میں  کیا لکھا ہے۔
۲۔ تقدیر میں  کیا تحریر ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿100﴾۔  ﴿یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ان چار ابواب کے  عنوانات درج ذیل ہیں۔
 (۱)عمل
(۲)رزق
(۳)عمر
(۴)انجام
لہذا کتاب تقدیر میں  ان چار عنوانات چار ابواب کے  تحت تحریری مواد موجود ہے۔ ﴾
 اب دیکھنا یہ ہے  کہ ان چار عنوانات کے  تحت چار ابواب کے  اندر کیا تحریر ہے۔ لہذا تقدیر کا پہلا باب ہے  عمل آئیے  دیکھتے  ہیں  اس باب میں  عمل کے  عنوان کے  ساتھ کیا تحریر ہے


(1)

(1) عمل
نظریہ نمبر:۔ ﴿101﴾۔  ﴿کتاب زندگی (تقدیر)میں  انسان کا ہر عمل لکھا ہوا(ریکارڈ) ہے۔ ﴾
 ماں  کے  رحم میں  ۱۲۰ دن کے  بعد سے  لے  کر موت تک انسان نے  جوبھی حرکت اور جو بھی عمل کرنا ہے  وہ تمام پروگرام اس کتاب زندگی میں  تحریر ہے۔ جو چاہے  اپنی روح کی آنکھ سے  پڑھ لے۔
لہذا  120  دن بعد جب رحم مادر میں  بچے  کے  جسم میں  روح داخل ہوتی ہے   تو اس کا باقی جسم اسی ذاتی تحریر سے  تشکیل پاتا ہے۔ اس تعمیر کا سارا پروگرام اور پوری زندگی کی جسمانی حرکت و عمل کا پروگرام تقدیر میں  درج ہے۔
   ہاتھ ہلانا ہے ، چلنا ہے ، بیٹھنا ہے ، کھانا ہے ، سونا ہے ، جاگنا ہے۔ غرض ماں  کے  رحم میں  ۱۲۰ دن کے  بعد سے  لے  کر موت تک انسان جو بھی حرکت اور جو بھی عمل کرتا ہے  وہ اس کتاب زندگی میں  تحریر ہے۔   120 دن بعد رحم مادر میں  بچے  کے  جسم میں  روح داخل ہوتے  ہی ہاتھوں  پیروں  کی حرکت شروع ہو جاتی ہے   لہذ ارحم مادر میں  ہی بچہ سننے  چونکنے اور محسوس کرنے  لگتا ہے۔ ایسا وہ غیر ارادی طور پر کرتا ہے اور بچے  کی یہ غیر ارادی حرکت و عمل کتاب زندگی میں  لکھی تحریر کی وجہ سے  ہے  لہذا پوری زندگی انسان اسی پروگرام کے  مطابق ارادی و غیر ارادی حرکت و عمل کرتا ہے۔ انسان کی پوری زندگی کا ہر عمل و حرکت کتاب زندگی میں  تحریر ہے اور اس تحریر کے  ذریعے  جسمانی عمل کیسے  واقع ہو رہا ہے  یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے  لہذا جسمانی عمل کیسے  واقع ہو رہا ہے  اس کا ذکر آگے  آئے  گا۔
ابھی جسمانی تعمیر کا فارمولہ مکمل نہیں  ہوا لہذا جب ہم مکمل فارمولے  سے  آگاہی حاصل کر لیں  گے  تبھی ہم یہ سمجھنے  کے  قابل ہوں  گے  کہ کتاب زندگی یعنی تقدیر میں  درج تحریر کے  ذریعے  کیسے  ذاتی جسمانی عمل واقع ہو رہا ہے۔ فی الحال ہمیں  یہ جاننا ہے  کہ کتاب زندگی میں  کیا کیا لکھا ہے۔


(۲)رزق
نظریہ نمبر:۔ ﴿102﴾۔ ﴿انسان کا رزق بھی تقدیر میں  لکھا ہے۔ ﴾
یعنی ہر انسان کا مخصوص رزق اس کی تقدیر میں  لکھا ہے۔ یہ رزق کتنا ہے  کہاں  سے  ملے  گا کب ملے  گا سب لکھا ہے۔ حتی کہ رزق پہ بھی لکھا ہے  کہ اسے  فلاں  کھائے  گا اور اس فلاں  کے  علاوہ اس کو کوئی دوسرا کھا نہیں  سکتا۔ اب اسی لکھے  ہوئے  کے  مطابق انسان اپنے  رزق کو پانے  کی کوشش کرتا ہے۔ کسی کو کم ملے  گا کسی کو زیادہ یہ ہے  رزق کے  مالک کی منصفانہ تقسیم اور کائنات کے  کاروبار کو چلانے  کا منفرد طریقہ۔ لہذا اسی انفرادی تقسیم سے  کوئی امیر ہے  کوئی غریب کوئی فقیر ہے  کوئی بادشاہ غرض زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کاروبار چل رہا ہے۔ اگر یہ منصفانہ تقسیم نہ ہو تو کاروبار حیات نہ چلے۔ ہر شخص کا مخصوص رزق اس کی تقدیر میں  لکھا ہوا ہے۔ لیکن اس کو حاصل کرنے  کے  لئے  کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً ایک بیت المال ہے  جہاں  ہر شخص کے  نام کا رزق پڑا ہے  تو انسان کوشش کرے اور جا کر اپنا رزق وصول کر لے۔
کچھ لوگ تھوڑی سی کوشش سے  اپنا حصہ وصول کر لیتے  ہیں کچھ زیادہ کوشش کر کے  اپنا حصہ وصول کرتے  ہیں۔ وہ زیادہ کوشش زیادہ حاصل کرنے  کے  لئے  کرتے  ہیں لیکن زیادہ نہیں  پا سکتے  کیونکہ ہر شخص امیر بننا چاہتا ہے  مگر باوجود کوشش کے  ہر شخص امیر نہیں  ہو سکتا ایسے  دنیا کا کاروبار نہیں  چل سکتا  لہذا زیادہ کوشش سے  بھی انسان اپنا حصہ ہی وصول کرتا ہے  لہذا دنیا کے  سارے  کام چھوڑ کر صرف رزق کے  پیچھے  بھاگنا بھی عقل مندی نہیں  ہے۔ لیکن بعض ایسے  کاہل ہوتے  ہیں  کہ اپنا حصہ بھی وصول نہیں  کرتے  ہاتھ پہ ہاتھ دھرے  ہی بیٹھے  رہتے  ہیں لہذا ایسے  فقیروں  کا حصہ کوئی اﷲ کا بندہ بھیک کی صورت میں  ان کی جھولی میں  ہی ڈال جاتا ہے  لیکن یہ بات اچھی نہیں  یہ قابل شرم بات ہے  انسان کو حتی المقدور کوشش تو کرنی ہی چاہیے  تاکہ وہ اپنی روزی با عزت طریقے  سے  حاصل کر سکے۔
بعض دفعہ بعض مہربان لوگ اپنے  حصے  کے  رزق سے  زیادہ پا لیتے  ہیں  اس کی وجہ یہ ہے  کہ وہ دوسروں  کی مدد کرتے  ہیں  لہذا اضافی رزق دراصل ان لوگوں  کا رزق ہے  جو دوسروں  کی مدد پر صرف کرتے  ہیں  یعنی دوسروں  کے  کام آ کر ان کی مدد کر کے  انسان اضافی رزق پاسکتا ہے۔ یعنی دوسروں  کا رزق جو وہ اپنے  ہاتھوں  سے  ان میں  تقسیم کرتا ہے۔
رزق لکھا ہوا ہوتا ہے  وہ مل ہی جائے  گا اور جتنا لکھا ہے  اتنا ہی ملے  گا۔ لیکن مختلف لوگ اپنے  ہی رزق کو دو مختلف طریقوں  سے  حاصل کرتے  ہیں۔ کچھ صحیح طریقوں  سے  کوشش کرتے  ہیں  تو کچھ لوگوں  کی کوشش غلط ہوتی ہے۔
لہذا صحیح کوشش سے  اپنی قسمت کے  رزق کو کچھ لوگ حلال رزق میں  بدل لیتے  ہیں۔ اور کچھ لوگ غلط طریقے  اختیار کر کے  اپنی قسمت کے  رزق کو حرام کر لیتے  ہیں۔ لہذا اپنا مقدر اپنا رزق بھیک میں  نہ مانگیئے  نہ ہی اس کے  حصول کے  لئے  24  گھنٹے  دیوانے  بنے  رہیئے۔ دنیا میں اور بھی مفید کام ہیں۔
لہذا رزق تقدیر میں  لکھا ہے  اسے  حاصل کیجئے  مثبت کوشش سے  کم وقت میں  اگر رزق میں  اضافہ کرنا چاہتے  ہیں  تو اپنے  جیسے  دوسرے  غریب انسانوں  کی مدد کیجئے۔
(۳)عمر
نظریہ نمبر:۔ ﴿103﴾۔   ﴿کتابِ زندگی کے  کل صفحات تقدیر میں  تحریر ہیں۔ ﴾
ماں  کے  پیٹ سے  زندگی کے  اختتام تک کتنی عمر ہے  یہ تقدیر میں  تحریر ہے۔ ﴾
انسان کی زندگی ایک کتاب یا ایک فلم کی مانند ہے  چھوٹی کتاب ہے  یا موٹی ایک گھنٹے  کی فل ہے  یا تین گھنٹے  کی۔ اور انسان اسی مقرر فلم یا کتاب( تقدیر) کے  مطابق مقرر زندگی گزارتا ہے۔ اور جب یہ کتاب ختم ہو جاتی ہے  تو زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔
اسی طرح انسانی زندگی کسی کتاب یا فلم کی مانند ہے  ہر انسان کی کتاب کے  صفحات تقدیر میں  تحریر ہیں  ہر انسان کی زندگی کی فلم کے  گھنٹے  تقدیر میں  درج ہیں۔ کوئی لمبی عمر کا ہے  تو کوئی چھوٹی عمر کا۔ لہذا ہر دن زندگی کی کتاب کے  یہ صفحے  پلٹتے  ہیں اور انسان ان صفحات پے  لکھی اپنی زندگی اپنی تقدیر اپنی مرضی سے  جیتا ہے اور بلآخر یہ کتاب زندگی ایک دن ختم ہو جاتی ہے اور جب تقدیر کی یہ تحریر ختم ہوتی ہے  تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ہر دن یہ صفحات نہ پلٹیں  انسان کو زندگی گزارنے  کا  یہ مرتب پروگرام نہ ملے   تو انسان کے  اندر کسی بھی حرکت و عمل کا پیدا ہو نا محال ہے۔ یہ پروگرام انسان کو ملتا ہے  تو وہ اس پروگرام میں  رد و بدل کر کے  اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے۔ انسان یہ کتاب (تقدیر) خود نہیں  لکھتا بلکہ اسی خالق کی ودیت کردہ کتابِ زندگی کے  مسودے  میں  ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔
لہذا خالق کی ودیعت کردہ یہ کتاب زندگی کسی کی مختصر ہے  تو وہ جوانی میں  ہی مر جاتا ہے  کوئی ساٹھ ستر یا سو سال اور بعض تو دو سو سال کی عمر بھی پا لیتے  ہیں اور پچھلے  زمانوں  میں  تو لوگ ہزاروں  برس کے  ہوتے  تھے۔
لہذا جتنی عمر کتاب زندگی میں  درج ہے  اتنی ہی انسان کی عمر ہے۔ کتاب میں  جتنے  صفحات ہیں  اتنے  ہی انسان ماہ و سال دنیا میں  بسر کرے  گا۔ جب انسان کی زندگی کی یہ تحریر ختم ہو جاتی ہے  تو انسان کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے  کتابِ زندگی کے  اوراق میں  اضافہ نہیں  کر سکتا۔ یعنی تقدیر میں  اس کی واپسی کا ٹائم بھی تحریر ہے۔ لہذا نسان ایک مخصوص مدت کی پہلے  سے  مقرر کردہ زندگی جیتا ہے۔ لہذا ماں  کے  پیٹ سے  زندگی کے  اختتام تک کی تمام کتاب تقدیر میں  تحریر ہے اور جب یہ تحریر ختم ہو جاتی ہے  تو انسان کی زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔
(۴)انجام
نظریہ نمبر:۔ ﴿104﴾۔  ﴿انسان کے  اپنے  اندر اس کی تقدیر میں  اسکا انجام بھی لکھا ہواموجود ہے۔ ﴾
چونکہ انسان خالق کی تخلیق خالق کا علم ہے  لہذا خالق یقیناً جانتا ہے  کہ ہر شخص ذاتی ارادے  سے  کیا کیا عمل کرے  گا لہذا انسان کے  خالق نے  انسان کے  اندر اس کا انجام بھی لکھ دیا۔
جب کہ انسان کا علم ابھی اس حد تک نہیں  پہنچا کہ وہ اپنے  ہی ارادوں  کو جان لے۔ انسان اس انجام کو اپنے  ذاتی ارادوں  سے  پہنچتا ہے  انسان کو ہر عمل کی مثبت اطلاع ملتی ہے  لیکن وہ اس اطلاع پر عمل ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے۔ (جس کا تفصیلی ذکر آگے  آئے  گا عمل کے  عنوان سے )
اگر انسان کی پوری زندگی کے  مجموعی اعمال برے  ہیں  تو وہ برا انسان ہے  لہذا اس کا انجام بھی بد ہے۔
 زندگی میں  زیادہ اچھے  عمل کرنے  والے  کا انجام یہ ہوا کہ وہ پاس ہے  وہ اچھا انسان ہے۔ پاس یا فیل یہی نتیجہ، نتیجہ آنے  سے  پہلے  ہی لکھا ہے  تقدیر میں۔
اور یہ نتیجہ امتحانِ زندگی سے  پہلے  لکھا ہے  خالق نے  اپنے  علم سے  اس لئے  کہ وہ ہر شخص کواور  اس کے  ذاتی عمل کو (جسے  خود ہر شخص نہیں  جانتا) پہلے  سے  جانتا ہے۔
اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں  ہے  کیونکہ خالق اس لئے  سب کچھ جانتا ہے  کہ سب کچھ اسی کا ہے  اسی نے  سب کچھ پیدا کیا ہے۔ تو جس نے  پیدا کیا، جس کی ملکیت ہے  وہ کیوں  نہ جانے۔ درحقیقت تمام موجودات اور مخلوقات خالق ہی کا علم ہیں۔  

۳۔ تقدیر کے  دو حصے
نظریہ نمبر:۔ ﴿105﴾۔  ﴿تقدیر انسان کی پوری زندگی کی مرتب کتاب تو ہے  لیکن انسان اس تحریر شدہ کتاب کا پابند نہیں  ہاں  اس پوری کتاب میں  درج چند قوانین کا وہ پابند ہے۔ ﴾
جس طرح ریاست میں  انسان اپنی مرضی سے  رہتا ہے  وہ کسی کا پابند نہیں  ہوتا لیکن ریاست میں  اپنی مرضی سے  رہنے  بسنے  کی باوجود اس پر کچھ ریاستی قوانین لاگو ہوتے  ہیں  جن کی اسے  پابندی کرنا ہوتی ہے  مثلاً وہ کسی کو قتل نہیں  کر سکتا، کسی کی چیز نہیں  چھین سکتا یعنی ریاست کے  قوانین کا وہ پابند ہے  لیکن قوانین کی پابندی کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ ریاست کا غلام یا پابند ہے  یا اس کی پوری زندگی اسی پابندی پر مشتمل ہے۔ یہ پابندی محض چند ضروری قوانین تک محدود ہے  وہ بھی ریاست کے  نظم و ضبط کے  قیام کے  لئے  اس ریاست میں  انسان پوری طرح آزاد ہے۔
اسی طرح انسان کے  اندر جو تحریر (تقدیر) ہے  وہ اس کا پابند نہیں  لیکن کچھ قوانین ہیں  جو اس پہ لاگو آتے  ہیں  جن کا وہ پابند ہے۔ لہذا اسی ترتیب سے  تقدیر (کتاب زندگی) کے  دو حصے  ہیں۔
(۱)    مرتب پروگرام                (۲)    لازمی قوانین

(1)   مرتب پروگرام                   
نظریہ نمبر:۔ ﴿106﴾۔  ﴿تقدیر انسان کی پوری زندگی کی تحریری کتاب ہے  جس میں انسان کی پوری زندگی تحریر ہے  لیکن انسان اسکا پابند نہیں  ہے 
 انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے  اپنے  اندر اس کے  ہر جینز ہر یونٹ میں  لکھا ہوا ہے۔ جیسے  کمپیوٹر میں  پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے  مطابق کام کرتا ہے  انسان کے  پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔
مثلاً تقدیر میں  تحریر ہے  کہ
دوپہر کو ایک بجے  بھوک لگے  گی لہذا کھانا کھانا چاہیئے  اسی تقدیر میں  لکھے  کے  مطابق دوپہر کو ایک بجے  بھوک لگے  گی اور کھانے  کی خواہش بیدار ہو گی۔ اب انسان اپنی تقدیر میں  لکھے  اس پہلے  سے  ترتیب شدہ پلان کا پابند نہیں  انسان اپنی مرضی کا مالک ہے  لہذا چاہے  توا س ترتیب شدہ پلان کی ترتیب بدل دے  یعنی ایک بجے  کھانا نہ کھائے  یا کھانے  کے  بجائے  کچھ اور کھا لے  یا کھائے  ہی نہ۔ لہذا ہو گا وہی جوا نسان کی مرضی ہے۔
لہذا انسان کی مرضی وہ تقدیر کی فطری پروگرام پر عمل کر لے  یعنی ایک بجے  کھانا کھا لے
اس کی مرضی تقدیر کے  اس مرتب پروگرام میں  رد  و بدل کر لے  یا اس پہ عمل ہی نہ کرے۔
اگر انسان اپنی مرضی سے  اسی تقدیری پروگرام پر عمل کرتا ہے  تو یہ فطری طرز زندگی ہے  یہ عمل صحیح ہے  اگر اس کے  مدمقابل کوئی دوسرا مثبت عمل کرتا ہے  تو وہ بھی صحیح ہے۔ لیکن اس تقدیری پروگرام پر عمل درآمد کے  لئے  وہ کوئی منفی طریقہ اختیار کرتا ہے  تو یہ غیر فطری طرز عمل ہے۔  جو غلط ہے۔ لہذا انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پورا پروگرام تو اس کے  اندر تحریر ہے  لیکن انسان اس تحریر کا پابند نہیں  بلکہ انسان عمل کے  لئے  آزاد ہے۔

 ۲۔ لازمی قوانین
نظریہ نمبر:۔ ﴿107﴾۔  ﴿انسان عمل کے  لئے  آزاد ہے  تو تقدیر میں  تحریر چند قوانین کا پابند بھی ہے۔ ﴾
جن میں  سے  چند کا یہاں  ہم ذکر کرتے  ہیں۔
(i)   جسمانی ساخت:   رحم مادر میں  جیسا بھی انسانی جسم تیار ہوتا ہے  یہ محض انسان کی تقدیر ہے، رنگ، قد کاٹھ، دل گردے  ان کے  کام جیسے  بھی ہیں  یہ انسان کی تقدیر ہے  لہذا انسان ذاتی ارادے  سے  خود اپنی شخصیت میں  ترمیم و اضافہ نہیں  کر سکتا۔
انسانی ارادے  کے  بغیر مرد یا عورت کا فرق یعنی جنس کا تعین تخلیقی عمل کے  دوران ہوتا ہے  کسی عضو میں  کمی پیشی بھی ہو سکتی ہے  عموماً ٹھیک مرد اور ٹھیک عورت پیدا ہوتے  ہیں  لیکن کوئی جنسی معذوری بھی ہو جاتی ہے ، جسم میں  کوئی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے ، کوئی کالا ہوتا ہے  کوئی گورا، کوئی موٹا کوئی پتلا، کوئی اندھا کوئی لنگڑا کوئی پیدائش کے  وقت ہی مرجاتا ہے  کوئی لمبی عمر جیتا ہے۔ یہ سب تقدیر کا پروگرام ہے  جو تقدیر کی صورت میں  تحریر ہے  جو خالق کا حکم ہے۔
(نوٹ:۔  اگرچہ آجکل جنیٹک کے  ماہرین جینز کو الٹ پلٹ کر کتاب زندگی کی ترتیب بدل دیتے  ہیں  لیکن اس سے  کچھ زیادہ مثبت نتائج برآمد نہیں  ہو سکتے )۔
(ii)    خود کار مشینری:۔   جسمانی مشینری خودکار سسٹم کے  تحت متحرک ہے اور اس مشینری کے  پاس اور مشینری کے  ہر عضو ہر یونٹ کے  پاس تحریری پروگرام موجود ہے  لہذا ہر عضو اسی تقدیر کے  پروگرام پر عمل پیرا ہے۔  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔
لہذا اس جسمانی سسٹم میں  انسانی ارادے  کا عمل دخل نہیں  بلکہ یہ روح کا تقدیری پروگرام ہے  لہذا ہر یونٹ اپنے  تحریری پروگرام کا پابند ہے۔ اور جسم کا خود کار اندرونی سسٹم کتاب تقدیر کے  عین مطابق ہے۔ لہذا تقدیر روح کا تحریری پروگرام ہے  جو خالق کا حکم ہے  اسی سے  یہ خود کار مشینری متحرک ہے  اسی حکم سے  بند ہو گی نہ کہ انسان کے  ذاتی ارادہ سے۔
کچھ مزید قوانین
بعض جگہ انسان تقدیر کے  کڑے  قوانین کی زد میں  ہے  مثلاً موت زندگی یہ انسان کے  اختیار میں  نہیں  کہ وہ نہ مرے  یا پیدا ہی نہ ہو یا جوانی میں  نہ مرے  یا سب لوگ امیر ہونا چاہتے  ہیں  یہ بھی ممکن نہیں  بعض دفعہ ہزار کوشش کے  بعد بھی انسان کے  ہاتھ خالی رہتے  ہیں۔ زمینی مادی قوانین کے  مطابق تو جو کام جو کوشش کی ہے  اس کا رزلٹ آنا چاہیے  لیکن عموماً ایسا نہیں  ہوتا۔ پیدائش کے  وقت، پیدائش کے  بعد، عملی زندگی میں  قدم قدم پہ ہمیں  اسی اٹل تقدیر کا تجربہ ہوتا ہے  جب ہم پوری پلاننگ پوری کوشش کے  بعد بھی ناکامی کا منہ دیکھتے  ہیں  جب وہ نہیں  ہوتا جو ہم چاہتے  ہیں ، یا ہم آئینہ دیکھ کر کہتے  ہیں  کہ مجھے  ایسا نہیں  ایسا ہونا چاہیے  تھا ہمیں  تقدیر کے  اس اٹل تحریری پروگرام کا سامنا اکثر کرنا پڑتا ہے اور یہ تقدیر کے  اٹل قوانین کائنات کے  بیلنس سسٹم کا حصہ ہیں  اگر سب کچھ انسان کی مرضی اس کے  اختیار میں  ہوتا تو شائد کائنات اتنے  عرصے  نہ چل سکتی جتنا کہ چل چکی ہے۔ دراصل ہمارا اور کائنات کا سسٹم کسی اور کے  ہاتھ میں  ہے اور یہ اٹل قوانین کائنات کے  توازن کے  لئے  ضروری ہیں۔

 خلاصۂ تقدیر
خلاصہ یہ ہے  کہ انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے  اپنے  اندر اس کے  ہر جینز ہر یونٹ میں  لکھا ہوا ہے۔ جیسے  کمپیوٹر میں  پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے  مطابق کام کرتا ہے  انسان کے  پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے  اسی پروگرام کی وجہ سے  انسان کے  اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن انسان عمل کے  لئے  اس پروگرام کا پابند نہیں  بلکہ عمل کے  لئے  انسان آزاد ہے اور عمل انسان ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے۔ لیکن انسان اپنی تقدیر میں  تحریر کچھ قوانین کا پابند بھی ہے  ان لازمی قوانین میں  اس کے  ذاتی ارادے  کا عمل دخل نہیں  ہے۔ یعنی انسان محض چند ضروری قوانین کا پابند ہے
لیکن انسان عمل ذاتی ارادے  سے  کرتا ہے  انسان عمل کے  لئے  آزاد ہے۔
یہاں  ہم مادی جسم کی پیدائش کے  فارمولے  کی وضاحت کر رہے  ہیں لہذا اس فارمولے  کے  تین نکات تخلیق، تناسب، اور تقدیر کی تو یہاں  وضاحت مکمل ہوئی اب اس فارمولے  کا اگلا چوتھا مرحلہ ہے  ہدایت۔


          (۴)۔ ہدایت
                بے  شک ان کے  پاس ان کے  رب کی طرف سے  ہدایت آئی(۲۳)۵۳
مادی جسم کی پیدائش کا چوتھا مرحلہ ہے  ہدایت

۱۔ ہدایت کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿108﴾۔  ﴿اندر سے  ایک آواز اٹھ رہی ہے  جو ہر عمل کے  لئے  ہماری مثبت راہنمائی کرتی ہے۔ یہ"  ہدایت"  ہے۔ اور یہ ہدایت روح کی آواز ہے۔ ﴾
عموماً ہم اس اندر کی آواز کو  "ضمیر کی آواز"  کہتے  ہیں  لیکن اس اندر کی آواز کا اصل نام " ہدایت ہے 
اچھے  کام کی ترغیب، برے  کام کی ممانعت اور برے  عمل پر ملامت اسی آواز کی طرف سے  ہے اور اسی کو کہتے  ہیں  ہدایت۔ اور انسان کو صحیح سمت کی طرف ہدایت دے  رہی ہے  روح۔ یعنی یہ آواز جسے  ضمیر کی آواز کہہ دیا جاتا ہے  دراصل روح کی مسلسل اور مثبت ہدایات ہیں۔ یہ روح کی ہدایات دراصل ہر عمل کے  لیے  مثبت ترغیبی پروگرام ہے۔
لہذا انسان اچھا یا برا عمل تو اپنی مرضی سے  کر رہا ہے  لیکن اس سے  پہلے  کہ انسان اپنی مرضی کا عمل کرے  اندر کی یہ ہدایت انسان کی راہنمائی کر دیتی ہے  کہ جو عمل وہ کرنے  جا رہا ہے  یہ اچھا عمل ہے  یا برا۔ روح کی یہ ہدایت اچھے  عمل کی ترغیب دیتی ہے  تو برے  عمل کے  مضمرات بھی بیان کر دیتی ہے۔ لہذا اس ہدایت کی وجہ سے  انسان یہ جانتا ہے  کہ وہ جو عمل اپنی مرضی سے  کرنے  جا رہا ہے  وہ اچھا ہے  یا برا۔ لہذا انسان انجانے  میں  نہیں  بلکہ اپنی مرضی سے  جانتے  بوجھتے  اچھا یا برا عمل کرتا ہے۔ لہذا روح کی ہدایت نہ صرف اچھے  برے  عمل کی وضاحت کر رہی ہے  بلکہ برائی کی مذمت اور غلط عمل پر ملامت بھی کرتی ہے  لہذا یہ انسان کی ذاتی مرضی ہے۔
چاہے  تو اس  "ہدایت "  پر عمل کر کے  اچھا عمل کر لے
چاہے  تو اس  "ہدایت"  کو رد کر کے  برا عمل کر لے۔ لہذا انسان اپنے  اچھے  برے  عمل کا خود سو فیصد ذمہ دار ہے

۲۔ ہدایت کی دو صورتیں
نظریہ نمبر:۔ ﴿109﴾۔ ﴿ ہدایت کی دو صورتیں  ہیں۔ ﴾
         (1)   باطنی ہدایات
         (2)   ظاہری ہدایات
(1)   باطنی ہدایات
نظریہ نمبر:۔ ﴿110﴾۔  ﴿باطنی ہدایات انسان کو اپنے  اندر روح کی آواز کے  ذریعے  مل رہی ہیں۔ ﴾
یہ مثبت ہدایات ہر عمل کی اطلاع کے  ساتھ ہی موصول ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ انہیں  مثبت ہدایات یعنی روح کی آواز کو ضمیر کی آواز کہا جاتا ہے۔ یہ روح کی ہدایات مثبت ہدایات ہیں  انہی مثبت ہدایات پہ مبنی ہونا چاہیے  ہمارا طرز زندگی تبھی ہمارا طرز عمل اور طرز زندگی درست طرز زندگی قرار پائے  گا۔
لہذا اندر کی اس آواز کے  ہوتے  ہوئے  انسان یہ نہیں  کہہ سکتا کہ مجھے  تو غلط یا صحیح کا علم ہی نہیں  تھا۔ اور میں  نے  بد عمل انجانے  میں  کئیے۔ کوئی مجھے  بتانے  والا نہیں  تھا لہذا انسان کے  اچھے  برے  عمل کی راہنمائی کے  لئے  روح کی ہدایات کے  علاوہ ایک اور صورت بھی ہمارے  پاس موجود ہے۔ اور وہ صورت ہے  ظاہری ہدایات۔

(2)   ظاہری ہدایات
نظریہ نمبر:۔ ﴿111﴾۔ ﴿ ہر عمل کے  لئے  ہدایت کی ظاہری صورت ہے  آسمانی کتابیں۔ ﴾
لہذا کونسا عمل اچھا ہے  کونسا برا، کیا کام کرنا چاہیے اور کیا نہیں  کرنا چاہیے  اس کی مکمل ہدایات ہمارے  پاس باقاعدہ تحریری طور پر آسمانی کتابوں  میں  بھی موجود ہیں۔ وہی خالق جو انسان کے  اندر سے  اس کی ہر عمل کے  لئے  رہنمائی کر رہا  ہے  اسی نے  ظاہری صورت یعنی آسمانی کتابوں  کے  ذریعے  بھی انسان کی رہنمائی کی ہے۔ یعنی آج ہر عمل کے  لئے  ہدایات (ہر قسم کی اچھائی برائی کی تفصیلات)ہمارے  باطن میں  ہدایات کی صورت  میں  بھی موجود ہیں اور ہمارے  پاس آسمانی کتابوں  کی صورت میں  بھی یہ تحریر موجود ہے۔
ظاہری ہدایات دراصل باطنی ہدایات کی ظاہری شکل ہیں  یعنی باطنی ہدایات روح (تقدیری ریکارڈ حرکت و عمل کا) ہیں  تو ظاہری ہدایات جسم (آسمانی کتابیں ) ہیں۔
یعنی ہر عمل کی تقدیری اطلاع موصول ہونے  کے  ساتھ ہی اس اطلاع پر عمل درآمد کے  لیے  ہدایات موصول ہونے  لگتی ہیں  وہ ہدایات دو طرزوں  میں  ہمارے  پاس موجود ہیں۔
(1)   روح کی آواز (باطنی ہدایات)
(2)   آسمانی کتابیں  (ظاہری ہدایات)
انسان کے  ذاتی ارادے  سے  کوئی بھی عمل کرنے  سے  پہلے  ہر عمل کی پوری تفصیلات (کہ یہ عمل اچھا ہے  یا بُرا برا ہے  تو اس کے  کیا کیا مضمرات ہیں  اچھا ہے  تو اس کے  کیا کیا فائدے  ہیں   )روح کی اس آواز یعنی ہدایات کے  زریے   انسان کو مل جاتی ہیں  لہذا ان ہدایات کے  آ جانے  کے  بعد انسان یہ بہانہ نہیں  تراش سکتا کہ مجھے  تو خبر ہی نہیں  تھی اور یہ بُرا عمل مجھ سے  انجانے  میں  ہو گیا اگر مجھے  کوئی سمجھانے  بتانے  والا ہوتا تو میں  یہ بُرا عمل نہ کرتاجب کہ سمجھانے اور بتانے  والا خود اس کے  اندر (جسے  انسان نے  ضمیر کا نام بھی دے  رکھا ہے  )سے  اسے  خبردار کر رہا ہے۔ لہذاہمارا طرز زندگی اور ہر عمل انہیں دو مثبت ہدایات میں  سے  کسی ایک ہدایت پہ مبنی ہونا چاہیے  تبھی ہمارا طرز زندگی صحیح طرز زندگی ہو گا۔ اور اسی طرز زندگی میں  توازن اور ترتیب ہو گی۔


۳۔ ہدایت اور تقدیر میں  فرق
تقدیر۔ تقدیر انسانی زندگی کا مرتب پروگرام ہے  جس میں  انسان کی پوری زندگی کے  ہر لمحے  کی پوری تفصیلات مرتب ہیں اسی مرتب پروگرام سے  ہر عمل کی اطلاع آتی ہے  تو انسان اسی اطلاع  میں  اپنی مرضی سے  ردو بدل کر کے  عمل کرتا ہے
 ہدایت۔ عمل کے  لئے  مرتب پروگرام (تقدیر)سے  اطلاع آ جانے  کے  بعد اس اطلاع پر عمل درآمد کے  لئے  مثبت ترغیبی پروگرام بھی ملنے  لگتا ہے  یہ ہدایت ہے  مثلاً
بھوک کی اطلاع تقدیری اطلاع ہے  اور
کھانے  کا عمل مثبت ہونا چاہیے  یہ اطلاعات ہدایات ہیں۔ تقدیر انسان کی پوری زندگی کا مرتب پروگرام ہے   جس پر انسان اپنی مرضی سے  عمل کرتا ہے  تو ہدایات ہر عمل کے  لئے  مثبت ترغیب ہے۔ اس کی مزید تفصیلی وضاحت عمل کے  باب میں  آگے  آ رہی ہے۔
خلاصۂ پیدائش:
پچھلے  صفحات میں  میں  نے  مادی جسم کی پیدائش کا فارمولہ پیش کیا تھا لہذا پیدائشی فارمولے  سے  آغاز کر کے  مسلسل وضاحت کے  بعد اب جا کر اس مادی جسم کے  پیدائشی فارمولے  (تخلیق، تناسب، تقدیر، ہدایات) کی وضاحت مکمل ہوئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے  کہ:
رحمِ مادر میں  نطفے  سے  لے  کر پیدائش تک جسم روح کے  پروگرام کے  عین مطابق تیار ہو رہا ہے۔
جسم کی تیاری کے  بعد تیار جسم کے  پاس اب پوری زندگی کی حرکت و عمل کا ا اپنا روح کا پروگرام موجود ہے۔ اور اب یہ نیا تیار انسان اسی روح کے  پروگرام کے  ذریعے  پوری زندگی اپنی مرضی کی حرکت و عمل کرے  گا۔

5 comments:

  1. Best approach,Allahhumaain Haq bat ka parcar karney ki taufique day. Aameen
    Dr Tariq

    ReplyDelete
  2. Best approach,Allah humaain Haq bat ka parcar karney ki
    taufique day. Aameen
    Dr Tariq

    ReplyDelete
  3. ماشاء اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں آمین

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ بہت خوب 💞💞💞❣️

    ReplyDelete
  5. ۔زبردست۔رب سےآشنائی کے لیئے ایک بہترین اورانمول تحریر۔جس نے رب کو پہچانا اس نے سب پا لیا۔ ماشااللہ بہت ۔خوب۔روح اللہ کی امر

    ReplyDelete