Translate

21--Life after life(DEATH)--موت کے بعد کی زندگی




: زندگی کے  بعد زندگی


۱۔ کیا انسان کا اختتام ہو گیا
۲۔ زندگی کے  بعد زندگی
۳۔ زندگی اور موت کے  تجربات
۴۔ موت کے  بعد


113۔ کیا موت کی صورت انسان کا اختتام ہو گیا

نظریہ نمبر:۔ ﴿151﴾۔ ﴿انسان کبھی نہیں  مرتا اجسام مر جاتے  ہیں۔ ﴾
جی ہاں  ابھی فقط جسم کی موت ہوئی ہے  انسان کی نہیں۔ اس لیے  کہ انسان محض جسم نہیں۔     موت جسم کے  بے  روح بے  حرکت اور پھر بے  نشان یعنی فنا ہو جانے  کا نام ہے  اس موت کا شکار فقط مادی جسم ہوتا ہے۔
 کیا مادی جسم کے  ساتھ انسان کا خاتمہ ہو جاتا ہے ؟اس کا جواب ہے  نہیں  انسان کبھی نہیں  مرتا یا اصل انسان یعنی اس کی روح کبھی نہیں  مرتی۔
 اس کا ثبوت وہ خواب یا روحانی واقعات  ہیں جن میں  ہم اپنے  مردہ عزیز و اقارب کا مشاہدہ زندوں  کی طرح کرتے  ہیں۔ اگر ہم یہ کہہ دیں  کہ یہ خواب یا مشاہدات و، واقعات فریب نظر ہیں  یا وہم ہیں  تو یہ بے  انتہا بے  عقلی کی بات ہے۔
۱۔ اول تو جو شے  ہے  جس کا تصور ہے  خیال ہے  یا وہم ہے  وہ موجود ہے۔
 ۲۔ دوم یہ کیسا وہم اور فریب ہے  جس میں  پوری دنیا کے  لوگ ہمیشہ سے  مبتلا ہیں  یہ وہم اور فریب تو ہر شخص کو ہمیشہ سے  ہے۔
جس طرح ہم ٹی وی پر متحرک تصویروں  کے  بارے  میں  یہ نہیں  کہہ سکتے  کہ یہ محض وہم ہے  نظر کا دھوکہ یا خود فریبی ہے  کہ جس سے  یہ تصویریں  ہمیں  متحرک نظر آ رہی ہیں۔ ہم اس لئے  اس عمل کو جھٹلا نہیں  سکتے  کے  ہم سب ان متحرک تصویروں  کے  وجود اور وجوہات سے  آگاہ ہیں  کہ کس طریقے  سے  یہ فلم ہمیں  متحرک نظر آ رہی ہے۔ اگر کوئی اسے  وہم قرار دے  یا فریب نظر تو ہم بلا شبہ اسے  قبل مسیح کا کوئی فرد سمجھیں  گے  جو علم اور عقل سے  عاری کسی غار سے  اٹھ آیا ہے۔ اس غار سے  اٹھ آنے  والے  آدمی جیسی ہی کیفیت آج ہماری ہے  اس لئے  کہ ایسی ہی فلم سے  مشابہ خواب یا ماورائی واقعات کے  مسلسل تاریخی تسلسل کو ہم محض اس لئے  جھٹلا دیتے  ہیں  کہ یہ ہمارے  علم کی ذد میں  نہیں  آتے  ہم تجربے  و مشاہدے  میں  آنے  والے  ان بے  شمار واقعات کو محض اس لئے  فریبِ نظر قرار دیتے  ہیں  کیونکہ ہم اس عمل کی حقیقت سے  نا واقف ہیں۔ جب کہ یہ انکار محض لاعلمی پر مبنی غیر حقیقی رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے  کہ ہم مردہ اجسام کے  علاوہ اصل انسان اور اس کی حقیقت اور خصوصیات تک سے  نا آشنا ہیں۔ یعنی ہم اپنے  آپ ہی سے  بے  خبر ہیں۔ ہم روح و نفس سے  ناواقف ہیں  یعنی اپنے  آپ سے  نا واقف ہیں۔ جب کہ ہمارے  نفس یا روح کی آنکھیں  جو دراصل ہماری آنکھیں  ہیں  خواب کی حالت میں  کسی ا ور ہی دنیا(روح و نفس کی دنیا) میں  جھانک رہی ہیں  ہم کہیں اور کسی اور ہی حالت میں  موجود ہیں کسی اور ہی دنیا میں موجود ہیں  وہاں  ہم گھوم پھر رہے  ہیں اپنے  مردہ عزیزو اقارب کو دیکھ رہے  ہیں ان سے  ملتے  ہیں  گفت و شنید کرتے  ہیں اور بہت سے  مشاہدے  کرتے  ہیں۔ اور حالتِ بیداری میں  غافل شعور جو ان حرکات و اعمال کے  محرک سے  ناواقف ہے  اسے  حقیقت تسلیم کرنے  میں  تعامل کرتا ہے اور اسے  خواب کا نام دے  دیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے  کہ انسان کا محض جسم موت کا شکار ہو کر فنا ہوتا ہے  ورنہ انسان تو ہمیشہ زندہ رہتا ہے  اپنی تمام تر خصوصیات کے  ساتھ بلکہ جسمانی موت کے  بعد روح و نفس کے  انتقال کے  بعد انسانی خصوصیات میں  مزید اضافہ ہوتا ہے۔ فقط وہ جسم مردہ ہوتا ہے  جس میں  رہتے  ہوئے  انسان اپنا مظاہرہ کر رہا تھا۔ جسم مردہ ہوا
ہے  انسان جوں  کا توں  موجود ہے  ہاں  وہ جسم کی موت کی صورت میں  کہیں اور منتقل ہو گیا ہے۔ یہ جسم تو فقط لباس تھا جو انسان نے  اتار پھینکا۔ اور خود تو انسان اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ انسان کہیں  سے  آیا ہے اور کہیں  جا رہا ہے۔



114۔ زندگی کے  بعد زندگی(Life After Life)

ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے  اپنی کتاب لائف آفٹر لائف میں  ایک سو پچاس کے  قریب مر کر زندہ ہوئے  لوگوں  کا تذکرہ کرتے  ہوئے  موت کے  بعد کے  مشاہدات میں  پندرہ مشترک باتوں  کا ذکر کیا ہے  جن کا خلاصہ کچھ یوں  ہے۔ موت کی صورت میں  انسان انتہائی کرب سے  دوچار ہوتا ہے اور پھر وہ موت کے  بعد اپنے  آپ کو اپنے  جسم کے  پاس کھڑا پاتا ہے  یعنی موت کے  بعد اب وہ جسم سے  باہر ہے اور اپنے  جسم کو دیکھ رہا ہے۔ کمرے  میں  اپنے  دیگر مردہ رشتے  داروں  کو اپنے  استقبال کے  لئے  موجود پاتا ہے  ایک اجنبی اس کو انجان منزل کی طرف لیکر چل پڑتا ہے۔
وہ ہوا میں  اڑرہا ہے  تاریک غار سے  گزرتا ہے  غار کے  دوسری طرف روشنی ہے  وہاں  اس کی ملاقات نوری ہستی سے  ہوتی ہے  جو اس سے  اس کی زندگی کے  متعلق سوال کرتی ہے اور پھر اس کی پوری زندگی اس کی آنکھوں  کے  سامنے  کسی فلم کی طرح آ جاتی ہے۔
ڈبلیوایچ مائرز (Fredric W. H. Myers)   نے  اپنی کتاب  Human Personality and its survival of Bodily Death میں  سینکڑوں  واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے  کے  بعد یہ نتیجہ اخذکیا کہ جسمانی موت کے  بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے  جسے  سپرٹ (Spirit)کہتے  ہیں۔
افلاطون کی تحریروں  میں  موت کے  تجربات کثرت سے  بیان ہوئے  ہیں  مثال کے  طور پر افلاطون کہتا ہے  کہ زندہ آدمی کا مادی جسم جب روحانی وجود سے  الگ ہو جاتا ہے  تو یہ مردہ حالت میں  چلا جاتا ہے اور انسان کا روحانی وجود اپنے  مادی جسم کی پابندیوں  سے  مبراء ہو جاتا ہے  جو اس مادی بدن کی وجہ سے  ہیں۔ یعنی یہ مادی بدن اپنے  بوجھ کی وجہ سے  حرکت اور رفتار وغیرہ کے  سلسلہ میں  محدود ہے  لیکن روحانی وجود ان بندھنوں  سے  آزاد ہے  افلاطون کا وقت کے  بارے  میں  یہ نظریہ تھا کہ یہ اس طبعی زندگی ہی کا ایک عنصر ہے۔ اور موت کے  بعد والی زندگی میں  وقت کوئی حیثیت نہیں  رکھتا۔ وہاں  پہ دوسرے  ابدی عناصر ہیں۔ جو وقت پہ بھی غالب ہیں۔ یعنی موت کے  بعد ہم ابدیت میں  داخل ہو کر وقت کو پیچھے  چھوڑ جاتے  ہیں۔
نیز انسانی نفس جب مادی جسم سے  الگ کیا جاتا ہے  تو اس کی ملاقات ان نفوس سے  ہوتی ہے  جو اس سے  پہلے  دنیا سے  جا چکے  ہوتے  ہیں۔ وہ ان سے  بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ بھی اس سے  دنیا کے  حالات معلوم کرتے  ہیں۔ وہ نو وارد کی تسلی تشفی بھی کرتے  ہیں اور درپیش آئندہ سفر میں  اس کی رہنمائی بھی کرتے  ہیں۔ نیز مرنے  والے  نفوس کے  ذہن میں  ہوتا ہے  کہ موت کے  وقت ایک کشتی آئے  گی جو ان کو اس دنیا کے  پار دوسرے  کنارے  تک لے  جائے  گی جہاں  انہیں  موت کے  بعد رہنا ہو گا۔ افلاطون اپنی تحقیق سے  یہ نتیجہ نکالتا ہے  کہ یہ ارضی جسم انسان کے  لئے  ایک قید خانہ ہے۔ موت ان قیود سے  آزادی کا نام ہے۔ اور پھر انسان ایک وسیع تر جہان میں  پہنچ کر سکھ کا سانس لیتا ہے۔ افلاطون کے  مطابق یہ دنیاوی زندگی نہ سمجھی کی زندگی ہے  اپنی پیدائش سے  پہلے  انسانی نفس شعور کی اونچی منازل پہ قائم ہوتا ہے۔ وہاں  سے  اتر کر وہ اس مادی جسم میں  داخل ہو جاتا ہے اور یہ ہستی (مادی جسم ) اس کے  لئے  سو جانے  والی بات کی مانند ہے  دنیاوی جسم میں  داخل ہونے  سے  پہلے  انسانی نفس کے  پاس جو اونچا ادراک تھا وہ مادی جسم کی کثافت کی وجہ سے  دھندلا جاتا ہے اور وہ سب حقائق اور سچائیاں  جو اس سے  پہلے  معلوم تھیں  انہیں  بھول جاتا ہے۔ اس لئے  موت درحقیقت جاگنے  پرانی یادیں  واپس لانے  کا نام ہے۔ جس کے  بعد انسان کا شعور بہت تیز ہو جاتا ہے۔
موت تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے 
خواب کے  پردے  میں  بیداری کا اک پیغام ہے
  (اقبال)
افلاطون کے  مطابق انسانی نفس جب مادی جسم سے  علیحدہ ہوتا ہے  تو وہ چیزوں  کی فطری حقیقت کو سمجھنے  کا بہت شعور رکھتا ہے۔
پادری لیڈبیٹر اپنی کتاب (Invisible Helpers)   میں  لکھتا ہے  موت کے  بعد آسٹرل باڈی آسٹرل ورلڈ میں  چلی جاتی ہے  اگر مرنے  والا بدکار ہو تو وہ زمین کے  پاس بھٹکتا رہتا ہے۔ وہ اپنی وراثت دوسروں  کے  پاس دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے۔ وہ اپنے  ساتھیوں  کی ترقی اور دشمنوں  کی زندگی پر دانت پیستا ہے۔ ذہنی اضطراب کی اس آگ میں  صدیوں  جلنے  کے  بعد اسے  طبقۂ بالا میں  جانے  کی اجازت ملتی ہے۔
ان نظریات کے  علاوہ آجکل اور ا چکراز کا مشاہدہ بھی کیا جا رہا ہے۔ O.B.E  (Out Of Body Experience) بھی کیے  جا رہے  ہیں  جن میں  مشاہدہ کیا جاتا ہے  کہ ایک زندہ آدمی اپنے  مادی جسم کے  بغیر جسم سے  الگ ہو کر ہوا میں  اڑ رہا ہے۔ دیوار کے  آر پار گزر جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے  جسم سے  باہر ہو تو اس
کے  جسم پر چوٹ کا اثر نہیں  ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
کیا واقعی زندگی کے  بعد بھی کوئی زندگی ہے  یا مر کر انسان دوبارہ جی اٹھتا ہے۔
یا اس کا دوسرا جنم ہو جاتا ہے ؟
ایسا کچھ نہیں  ہے  نہ تو انسان مر کر دوبارہ جی اٹھا ہے  نہ یہ دوبارہ زندگی ہے  نہ ہی یہ کوئی دوسرا یا تیسرا جنم ہے۔
تجربات و مشاہدات کے  باوجود اس قسم کے  تصورات محض لاعلمی پر مبنی ہیں  جن کی کوئی علمی حیثیت نہیں۔ ایسا کہنے  والے  انسان کی روح اس کے  نفس سے  ناواقفیت کی بنا پر ایسا کہہ رہے  ہیں  اب جب کہ ہم نے  روح و نفس کی وضاحت کر دی ہے  تو درحقیقت اب ہم اس بات کو سمجھنے  کے  قابل ہوئے  ہیں  کہ انسان موت کے  بعد کن حالات سے  دوچار ہوتا ہے۔ اور اب ہم موت کے  بعد کے  ان حالات کو صحیح طور پر ترتیب دینے  کے  قابل ہوئے  ہیں۔



115۔ زندگی اور موت کے  تجربات

نظریہ نمبر۔ ﴿152﴾۔ ﴿مر کر زندہ ہوئے  لوگوں  کے  مشاہدات اور OBE یا ESP کے  ذریعے  کئے  جانے  والے  مشاہدات میں  فرق ہے۔ ﴾
۱۔ مر کر زندہ ہوئے  لوگوں  کے  مشاہدات مر چکے  لوگوں  کے  بارے  میں  مشاہدات ہیں۔ اور یہ مادی جسم کی موت کے  بعد کے  مشاہدات ہیں۔
۲۔ جب کہ ESP  یا   OBE میں  جو مشاہدات و تجربات کئے  جاتے  ہیں  وہ زندہ لوگ، زندہ لوگوں  کے  ذریعے  کرتے  ہیں اور یہ زندگی کے  مشاہدات ہیں۔
زندگی، موت، انتقال میں  امتیازی فرق موجود ہے  لہذا
زندگی کے  حالات و واقعات، مشاہدات، تقاضے ، طرزیں مختلف ہیں اور موت اور موت کے  بعد یعنی انتقال کے  حالات و واقعات، تجربات و مشاہدات، تقاضے  طرزیں  مختلف ہیں۔
جب کہ آج تک تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے  جو مر کر زندہ ہوئے  لوگوں  کا مشاہدہ کر رہے  ہیں  یا ESP   یا  OBE  کر رہے  ہیں  انہوں  نے  زندگی، موت، انتقال سب کے  مشاہدات، تجربات حالات و واقعات کو گڈمڈ کر کے  رکھ دیا ہے (ایسا وہ روح و نفس، زندگی، موت اور انتقال سے  لاعلمی کی وجہ سے  کرتے  ہیں  ) اور اسی ملے  جلے  ملغوبے  سے  وہ نتائج اخذ کرتے  ہیں اور ظاہر ہے  اس بے  بنیاد کھچڑی سے  صحیح نتائج نکلنا محال ہے۔
ہم نے  چونکہ پچھلے  صفحات میں  روح و نفس کی شناخت قائم کر لی ہے اور زندگی اور موت کی بھی علیحدہ سے  وضاحت کر دی ہے  لہذا اب ہم اس ملغوبے  سے  موت کے  بعد کے  حالات کو بھی نکال کر انتقال کے  عنوان سے  بالترتب بیان کرتے  ہیں۔


  116۔ موت کے  بعد

 انسان روح+نفس(لطیف اجسام) کا مجموعہ ہے۔ لہذا موت کی صورت جسم تو مر گیا لیکن سوال یہ ہے  کہ جسم کی موت کے  بعد اس جسم میں  موجود روح و نفس کا کیا ہوا۔ کیا جسم کے  ساتھ وہ بھی مر گئے۔ کیا جسم کی موت کے  ساتھ ہی انسان کا اختتام ہو گیا۔        
 مادہ پرست تو ہمیشہ مادی جسم کی موت کو ہی انسان کا اختتام کہتے  رہے  ہیں۔ اور آج بھی یہی کہنا چاہتے  ہیں۔ لیکن آج اس ہٹ دھرمی کا کوئی جواز باقی نہیں  بچا جدید تحقیقات سے  یہ ثابت ہو چکا ہے  کہ محض مادی جسم کی موت سے  انسان کا اختتام نہیں  ہوتا۔
آج جدید تحقیقات، مراقبہ، اور مشاہدات کے  ذریعے  زندگی میں  بھی زندہ انسانوں  کے  انسانی باطن (روح و نفس )کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور موت کے  بعد بھی۔ لہذا آج یہ کہہ دینا کافی نہیں  کہ مادی جسم کی موت سے  انسان کا اختتام ہو گیا بلکہ آج اس سوال کا جواب دینا ہو گا، اس حقیقت کا سراغ لگانا ہو گا کہ اس جسم میں  موجود روح ونفس کا کیا ہوا۔  اگرچہ مراقبہ، مشاہدہ اور جدید تحقیقات کے  ذریعے  زندہ اور مردہ لوگوں  کے  باطن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے  لیکن یہ تجربات و مشاہدات کرنے  والے  ابھی تک اس جہان باطن کو سمجھ نہیں  پائے۔ جب وہ مشاہدہ کرتے  ہیں  کہ فقط جسم مرا ہے  انسان تو جوں  کا توں  موجود ہے  اورا(AURA) کی صورت متحرک یادداشت کی صورت  تو وہ سمجھ نہیں  پاتے   کے  آخر مادی جسم کی موت کے  بعد،
 ۱۔ انسان مختلف اجسام کی صورت میں  کیسے  موجود ہے۔
۲۔ کیا وہ ابھی زندہ ہے۔
۳۔ اور جسم کی موت کے  بعد بھی ایک انسان کے  اتنے   مختلف طرح کے  اجسام  کی موجودگی کاکیا مطلب ہے،
۴۔ کیا یہ روح اور اس کے  حصے  ہیں۔
۵۔ یا انسان کو دوسرا جسم دے  دیا گیا۔ کیا یہ اس کا دوسرا جنم ہے۔
ہم پچھلے  صفحات میں  ان تمام سوالات کے  جوابات دے  آئے  ہیں۔ (یعنی روح و نفس و اجسام کی الجھی گتھی سلجھا کر تمام کی انفرادی و اجتماعی شناخت قائم کر دی ہے۔  اور جسم کے  علاوہ  انسانی باطن (روح +نفس(لطیف اجسام) کی شناخت قائم کی ہے۔)
 جب کہ سائنسدانوں  کے  پاس ابھی تک ان سب سوالوں  کے  جوابات نہیں  ہیں۔ ۔ جب وہ اس مسئلے  کا حل تلاش کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں  تو انہیں  ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ ہے۔ آواگون، لہذا وہ اسکا حل آواگون میں  ڈھونڈنے  کی کوشش کرتے  ہیں۔ اس کے  علاوہ  ان کے  پاس اس مسئلے  کے  حل کا کوئی اور ذریعۂ علم ہے  بھی نہیں۔
لہذا باطن کا تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے  موت کے  بعد انسان  کی دیگر اجسام میں  موجودگی کو دوسرا جنم تصور کر لیتے  ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل خلاف عقل بات ہے۔ 
 مراقبہ و مشاہدہ کے  ذریعے  دو قسم کے  تجربات کیے  جاتے  ہیں
۱۔ زندہ لوگ اپنا یا اپنے  جیسے  زندہ لوگوں  کے  باطن کا مشاہدہ کرتے  ہیں۔
۲۔ زندہ لوگ مردہ لوگوں  کے  باطنی اجسام کا مشاہدہ کرتے  ہیں۔
 مردہ شخص کے  باطنی مشاہدے  کے  بعد اس  مردے  کی دیگر اجسام میں  موجودگی کو دوسرا جنم قرار دینا کسی حد تک تو قابل قبول ہے۔ لیکن زندہ شخص جو اپنے اور دیگر زندہ لوگوں  کے  باطنی اجسام کا مشاہدہ کر رہا ہے  اس کا کیا مطلب ہوا۔
ذرا غور کیجئے  مراقبہ و مشاہدہ کرنے  والا شخص زندہ ہے۔ اور یہ زندہ شخص اپنے  آپ کو یا دیگر زندہ و مردہ لوگوں  کو دیگر اجسام کی صورت متحرک دیکھتا ہے۔ لہذا صاف ظاہر ہے  کہ یہ مشاہدہ کرنے  والے  زندہ شخص کا دوسرا جنم نہیں  ہے۔ کیونکہ ابھی تو وہ زندہ ہے اور اپنے  باطن کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ لہذا زندہ شخص کا زندگی میں ہے دوسرا جنم نہیں  ہو سکتا۔ لہذا انتہائی بے  ڈھنگے  پن سے  موت کے  بعد انتقال کے  عمل کو دوسرا جنم قرار دینے  کے  بجائے  آئیے                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     سنجیدگی سے  تحقیق کر تے  ہیں  کہ جسم کی موت کے  بعد کیا ہوا۔  ابھی فقط مادی جسم کی موت ہوئی ہے۔ ا ب ہم یہ جاننا چاہتے  ہیں  کہ انسان کے  باقی ا جزاء یعنی روح و نفس کا کیا ہوا۔
مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کے  حالات جاننے  کے  اب ہمارے  پاس د و طریقے  ہیں۔
  ۱۔ موت کے  بعد کے  حالات جاننے  کے  لئے  سب سے  اہم معلومات  مذہبی معلومات ہیں۔                                                  
ان مذہبی معلومات کو انتہائی محنت سے  ترتیب دینے  کی ضرورت ہے  کیونکہ                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         
           ۱۔ ہمیشہ ان مذہبی معلومات سے  غلط نتائج ا خذ کیئے  گئے۔                                                        
           ۲۔ اور انہی غلطیوں  سے  آواگون جیسے  نظریات نے  جنم لیا۔ 
۲۔ موت کے  بعد کے  حالات جاننے  کا دوسرا طریقہ ہے  جدید تحقیقات۔
لہذا مراقبہ مشاہدہ اور جدید تحقیقات کے  ذریعے  اب ہم مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کے  حالات بہت اچھی طرح جان سکتے  ہیں۔
لہذا مادی جسم کی موت کے  بعد کوئی زندگی یا دوسرا یا تیسرا جنم نہیں  ہے  بلکہ مادی جسم کی موت کے  بعد انتقال ہے۔
ابھی یہ جاننا باقی ہے  کہ یہ انتقال کیا ہے۔؟
لہذا اب یہاں  ہم مادی جسم کی موت کے  بعد انسان کے  انتقال کی بالترتیب وضاحت کریں  گے۔


باب نمبر ۱۱:    انتقال

  
               ترجمہ:ضرور تم منزل بہ منزل چڑھو گے۔ (۱۹) ۸۴

             ترجمہ: اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے
                  اور سب کے  سفر کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔ (۴۲) ۲۴

۱۱۷۔ انتقال۔                                                                                    
۱۱۸۔ انتقالی فارمولہ                                             
۱۱۹۔ انسان کی سفری روداد۔
۱۲۰۔ انتقال کیا ہے۔                                                                                        
۱۲۱۔ موت اور انتقال میں  فرق۔                              
۱۲۲۔ انسان کہاں  جا رہا ہے۔       
۱۲۳۔ دو احکامات
۱۲۴۔ علیین
۱۲۵۔ سجیین                           
۱۲۶۔ انسان کہاں  منتقل ہو گیا۔                                         
۱۲۷۔ عالم برزخ۔  
۱۲۸۔ عالم برزخ کہاں  ہے۔                                                                    
۱۲۹۔ برزخ میں  انسانی صورت۔                                 
۱۳۰۔ برزخی رہائش گاہ۔                                
۱۳۱۔ برزخ کیسی ہے۔                           
۱۳۲۔ نفسی زندگی۔
۱۳۳۔ مقید نفس۔
۱۱۳۴۔ آزاد نفس۔
۱۳۵۔ اجسام کی تعداد۔
۱۳۶۔ روشنی کا جسم۔
۱۳۷۔ نور کا جسم۔
۱۳۸۔ تمام باطنی اجسام فانی ہیں۔
۱۳۹۔ برزخ انتظار گاہ۔
۱۴۰۔ قیامت۔
۱۴۱۔ دوبارہ زند گی۔
۱۴۲۔ انسان کائناتی مسافر ہے۔
 ۱۴۳۔ انسانی کہانی۔
۱۴۴۔ انسانی سفر کے  پانچ ادوار۔
۱۴۵۔ انسانی زندگی کا سفر آغاز تا اختتام۔


No comments:

Post a Comment