Translate

23--Reasons for failure in Human definition- انسانی تعریف میں ناکامی کے اسباب





باب نمبر۔ 12: تاریخی جواب


 حصہ اول میں  ہم نے  انسان سے  متعلق پرانے  نظریات کا  تنقیدی جائزہ لیا ہے  جبکہ
 حصہ دوئم میں  ہم نئے  نظریات کے  ذریعے  برسوں  کے  حل طلب تشنہ سوالات کے  جوابات
دیے  ہیں اور انسان کی تعریف اور تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔
اب اپنے  نئے  نظریات کی روشنی میں  ہم کچھ مزید تاریخی سوالات کے  جوابات دیں  گے۔

146۔ انسانی تعریف میں  ناکامی کے  اسباب

سوال نمبر۱۷۔ انسانی تعریف میں  ناکامی کے  کیا اسباب ہیں؟
جواب۔ ہزاروں  برس سے  انسان پر مختلف پہلوؤں  سے  کام ہو رہا ہے  لیکن ان ہزاروں  برسوں  میں  آج تک انسان کی تعریف سامنے  نہیں  آ سکی کہ آیا  انسان ہے  کیا۔ کیا وجہ ہے  کہ ہزاروں  برس کی تحقیقات، تجربات، تجزیات کے  باوجود آج تک انسان کی تعریف سامنے  نہیں  آ سکی؟ہزاروں  برس سے  انسان پہ کام ہو رہا ہے اور بے  نتیجہ ہے اور انسان کا علم ابھی تک اپنی ابتدائی حالت میں  ہے  یہ آگے  کیوں  نہیں  بڑھا؟  یہ بے  نتیجہ کیوں  ہے ؟ ہزاروں  برس سے  انسانی کام میں  ہر دور کے  لوگوں  نے  کچھ یکساں  غلطیاں  کی ہیں اور  انہیں  مسلسل غلطیوں  کی  وجہ سے  آج تک انسان کی تعریف ممکن نہیں  ہوئی۔ وہ غلطیاں  کیا ہیں جو ہر دور کے  لوگ کرتے  آئے  ہیں۔ یہاں  ہم ان غلطیوں  کی نشاندہی کریں  گے۔ چھوٹی چھوٹی بے  شمار غلطیوں  کے  علاوہ دو بڑی بنیادی غلطیاں ہر دور میں  کی گئی ہیں۔
(1)   انسانی مجموعے  کو سمجھنے  کی کوشش نہیں  کی گئی۔ جب کہ انسان روح، نفس، جسم کی ایک خاص ترکیب اور تخلیق ہے۔
(2)   لہذا اس خاص ترکیب سے  لاعلمی کے  سبب انسان آج تک خاص انسانی تخلیق کو سمجھنے  سے  قاصر رہا۔
(3)انسان کہیں  سے  آیا ہے  تو کہیں  جا بھی رہا ہے  ا ور یہ واپسی کی خاص ترتیب فنائی ترتیب ہے۔ اور انسان سے  لا علمی کی وجہ سے  اس فنائی ترتیب کو بھی نہیں  سمجھا گیا۔
اور یہی وجوہات ہیں  کہ آج تک انسان کی تعریف ممکن نہیں  ہو سکی۔
درحقیقت انسان محض مادی جسم نہیں  بلکہ ایک خاص الخاص مجموعہ ہے  اسکا وسیع و عریض باطن بھی ہے  جو روح اور رنگ برنگے  لطیف اجسام کا مجموعہ ہے۔ لیکن آج تک انسان کو اس مجموعی حیثیت میں  سمجھنے  کی کوشش کبھی نہیں  کی گئی اور ظاہر ہے  ادھوری کوششوں  کے  پورے  نتائج برآمد نہیں  ہو سکتے اور انسانی کام میں  یہی دو غلطیاں  کی گئی ہیں جبھی آج تک انسانی تعریف ممکن نہیں  ہو سکی۔ انسان مادی جسم کے  علاوہ ایک وسیع و عریض باطن بھی رکھتا ہے  اس کے  اندر روح و نفس بھی ہے  اس کے  اندر باہر طرح طرح کے  برقی و مادی سسٹم کام کر رہے  ہیں۔ یہ آفاقی اطلاعات مذاہب نے  انسان کو دیں  تھیں لیکن انسان کبھی پورے  طور پر ان آفاقی اطلاعات کو سمجھ نہیں  پایا اس لئے  کہ کبھی اس نے  خود کو مجموعی حیثیت میں  سمجھنے  کی کوشش ہی نہیں  کی۔ کچھ لوگ محض روح پہ کام کرتے  رہے  تو کچھ محض جسم پہ کچھ ارتقاء کو ثابت کرنے  پر تلے  رہے  تو کچھ نفس کے  جال میں  پھنس گئے  لیکن کسی نے  انسان کو مجموعی حیثیت میں  جاننے  کی کبھی کوشش نہیں  کی۔
انسان یہ کوشش کرتا بھی تو کیسے  آج تک یہی فیصلہ نہیں  ہو پایا کہ آخر انسان ہے  کیسا مجموعہ؟ آج تک اس کی مجموعی حیثیت کا ہی تعین نہیں  ہو سکا۔ اور آخر انسان کی مجموعی حیثیت کا تعین ہوتا بھی کیسے۔
 ۲۔ کیونکہ آج تک اس کے  انفرادی اجزاء روح و نفس کی شناخت تک ممکن نہیں  ہوئی۔ انسان اگرچہ روح، نفس (AURA)  چکراز کا جدید تحقیقات کے  بل بوتے  پر تجربہ و مشاہدہ تو کر رہا ہے  لیکن سمجھ نہیں  پا رہا کہ آخر یہ سب کیا ہے ، وہ انسان کے  وسیع و عریض باطن کو دیکھ کر حیران ضرور ہو رہا ہے  لیکن اسے  شناخت نہیں  کر پا رہا اسے  کوئی نام نہیں  دے  پا رہا ابھی تک ان تمام کا باہم ربط قائم نہیں  کر پا رہا۔ ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے  کہ تمام تر تحقیقات کے  باوجود انسان آج تک اسی ضد پر اڑا ہوا ہے  کی مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے  جس میں  روح کی کہیں  کوئی ضرورت نہیں جب کہ روح پر کام کرنے  والے  روح کو اصل اور جسم کو بے  معنی کہہ رہے  ہیں۔ جب تک انسان کو مجموعی حیثیت میں  شناخت نہیں  کیا جائے  گا انسان کی تعریف ممکن نہیں۔ انسان کی تعریف میں  ناکامی کا اہم سبب یہ بھی ہے  کہ خالق کائنات نے  انسان کو ایک خاص ترتیب سے  تخلیق کیا ہے اور اسی طرح ایک خاص ترتیب سے  انسان فنا کے  گھاٹ اتر جائے  گا یعنی انسان کہیں  سے  آیا ہے اور کہیں  جانا ہے۔ یعنی انسان زمینی نہیں  بلکہ کسی اور سیارے  کی مخلوق ہے  جو اپنے  سیارے  (جنت) سے  بچھڑ کر زمین پر اپنی خطاؤں  کے  سبب آ پہنچا اور اب اسے  واپس لوٹنا ہے۔ ہر دور کے  انسان نے  انسان کی زمین پر آمد اور واپسی کی سفری روداد کو سمجھنے  میں  غلطی کی اور اسے  بری طرح خلط ملط کر کے  رکھ دیا جس سے  ارتقاء اور آواگون جیسے  غلط نظریوں  نے  جنم لیا۔ جس طرح کائنات  ابتداء میں تخلیق کے  مختلف مراحل سے  گزری ہے۔
 ۱۔ اسی طرح انسان ابتداً  خاص تخلیقی مراحل سے  گزرا ہے۔
 ۲۔ اسی طرح وہ خاص فنائی مراحل بھی طے  کرے  گا۔
یہ خاص تخلیقی و فنائی مراحل جب زیر بحث آئے   تو فلسفیوں  نے۔
۳۔ ان تخلیقی و فنائی مراحل کو سمجھنے  میں  غلطی کی۔
۴۔ دوسرے  ان تخلیقی و فنائی مراحل کو خلط ملط کر دیا۔
۵۔ لہذا تخلیقی ترتیب کو سمجھنے  کی غلطی نے  ارتقاء جیسے  بودے  نظریے  کو جنم دیا۔
۶۔ اور فنائی ترتیب کو سمجھنے  کی غلطی نے  آواگون جیسے  نظریات کو جنم دیا۔
یہ تمام اطلاعات صحیح مذہبی اطلاعات تھیں  جنہیں  بری طرح بے  ترتیب کر دیا گیا۔ لہذا تخلیقی و فنائی ترتیب کو سمجھنے  کی غلطی نے  جہاں  ارتقاء، آواگون، جبر قدر جیسے  مسائل کو جنم دیا وہیں  روح، نفس، جسم کی گتھیاں  سلجھنے  کے  بجائے  مزید الجھ گئیں۔ جن مفکروں اور فلسفیوں  نے  آواگون اور ارتقاء جیسے  بودے  فلسفوں  کو جنم دیا وہ اپنے  ان غلط فلسفوں  کو مذہبی آفاقی عقیدے  تصور کر کے  آج تک ان پر اڑے  بھی ہوئے  ہیں۔ جب کہ ان بودے  فلسفوں  کو جنم دینے  والے  نہ صرف خود گمراہ ہوئے  بلکہ ہزاروں  برسوں  تک قوموں  کو گمراہ کرتے  آئے  ہیں اور برسوں  ایک بڑا علمی بحران پیدا کئے  رکھا ہے۔

No comments:

Post a Comment