Translate

13-- مادی جسم- Physical body



 باب نمبر۲: مادی جسم


16۔ مادی جسم


عام روز مرہ اور سائنس کی زبان میں  جسم گوشت پوست کے  وجود کا نام ہے  جو چند گرام کے  نطفہ سے  وجود میں  آتا ہے۔ سائنس کے  مطابق انسانی جسم 156  عناصر سے  مرکب ہے  انسانی مادی وجود میں  وہ تمام عناصر پائے  جاتے  ہیں  جو زمین میں  پائے  جاتے  ہیں۔ دل جگر گردے ، رگ پٹھوں  کے  علاوہ انسان کے  اندر بے  شمار مادی و برقی نظام کام کر رہے  ہیں  انسان کائنات کی پیچیدہ ترین مشینری ہے۔ اور آج ہم اس تمام نظام سے  واقف ہیں۔ لیکن اس کے  باوجود کہ ہم انسانی اعضاء، عناصر، عوامل سب سے  واقف ہیں  پھر بھی ہم ان سب کو صحیح مقداروں اور تناسب سے  اکٹھا کر کے  انسانی شکل دینے  سے  قاصر ہیں۔ نہ ہی ہم خلیوں  کو مربوط کر کے  جسم تخلیق کر سکتے  ہیں۔ مٹی سے  بت تو بنا لیا جاتا ہے  کینوس پر تصویر تو بنالی جاتی ہے۔ لیکن یہ انسان نہیں  بے  جان و بے  حرکت ہیں  ان میں  انسانوں  کی سی حرکت اور انسانی خصوصیات پیدا کرنا انسان کے  بس کی بات نہیں۔ روبوٹ بھی انسان کے  ہم پلہ نہیں  وہ محض مشین ہے۔ جب کہ سائنسدان کلون انسان تیار کر کے  اس خوش فہمی میں  مبتلا ہو گیا کہ اس نے  از خود انسان تیار کر لئے۔ جب کہ یہ کلوننگ سے  تیار شدہ انسان کسی بھی اعتبار سے  اصل انسان کے  ہم پلہ نہیں اور نہ ہی ہو سکتے  ہیں۔ بحر حال یہ ہر لحاظ سے  منفرد خون و گوشت، عضلات، رگ پٹھوں  خلیوں  و عناصر کا مجموعہ جسم مادی جب موت کا شکار ہوتا ہے  تو یہ انتہائی پیچیدہ متحرک مشینری یکلخت غیر متحرک ہو جاتی ہے۔ اور پھر موت کے  بعد کچھ ہی دنوں  میں  یہ متحرک وجود مٹی میں  مل کر مٹی ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب شناخت مشکل ہے  کہ مٹی کونسی ہے اور جسمانی ذرات کونسے  ہیں۔ پورا وجود جو جسمانی صورت میں  موجود تھا چند ہی دنوں  میں  اس کا وجود بھی نہ رہا کیوں ؟  یہی انسانی مادی جسم کی حقیقت ہے ، ہڈیاں   خون، گوشت، دماغ پورے  وجود کی حقیقت یہ ہے  کہ پورے  وجود کا نشان مٹ جاتا ہے  فقط موت کی صورت میں  پورا انسان مٹی ہو جاتا ہے۔ بظاہر نظر آنے  والا وجود درحقیقت اسی مٹی (مادہ ) ہی کی ایک شکل تھا یعنی پہنچی وہیں  پہ خاک جہاں  کا خمیر تھا۔ اسی مٹی کے  وجود اسی حضرتِ  انسان کے  دم قدم سے  ہیں  دنیا کے  تمام تر کاروبار۔
مادی جسم کے  بارے  میں  سائنسدانوں  کا یہ خیال ہے  کہ جسم ایک نطفے  سے  خود بخود صحیح و سالم انسان بن جاتا ہے  مزید یہ کہ جسمانی نظام کی اندرونی و بیرونی انتہائی پیچیدہ حرکت و عمل بھی خود کار ہے۔ اگر میں  یہ کہہ دوں  کہ سوئی کا بنانے  والا کوئی نہیں  ہے  بلکہ یہ خود بخود بن گئی ہے  تو یہ بات ہر عقلمند کے  لیے  ناقابل قبول ہو گی جب ہر جاننے  والا یہ جان سکتا ہے  کہ ایک سوئی تک خود نہیں  بن سکتی تو آپ کی سمجھ میں  یہ بات کیوں  سما گئی ہے  کہ دنیا کی سب سے  پیچیدہ مشینری مادی جسم خود بخود بن جاتا ہے  ا اور کوئی اس کا بنانے  والا اور ڈیزائن کرنے  والا نہیں  ہے۔ اور یہ کیسے  آج تسلیم کر لیا جاتا ہے  کہ دنیا کی سب سے  پیچیدہ مشینری کی اندرونی و بیرونی انتہائی پیچیدہ حرکت و عمل محض خود کار ہے۔ سائنسدان مادی جسم کے  اندرونی و بیرونی نظاموں  کی تو بڑی وضاحت کرتے  ہیں، یہ نہیں  بتایا جاتا کہ وہ کیا شے  ہے  جس سے  یہ مشینری خود کار متحرک ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں  کہ یہ انتہائی متحرک پیچیدہ مشینری محض موت کی صورت کیسے  یکلخت پتھر سے  بھی زیادہ بے  جان اور بے  حرکت ہو جاتی ہے۔ تمام تر دماغی، جسمانی صلاحیتوں  کے  باوجود ایک تندرست و توانا متحرک وجود کیسے  یکلخت ہی موت کے  سبب بے  جان بے  حرکت ہو جاتا ہے  کیسے  ایک عظیم الشان انسان چند دنوں  میں  ہی مٹی میں  مل کر بے  نشان ہو جاتا ہے ؟کہ پورے  وجود کا کوئی وجود ہی نہیں  رہتا۔ سوال یہ ہے  کہ
کیسے  جسمانی مشینری کی اندرونی و بیرونی حرکات خود کار ہیں۔؟
وہ کیا شے  ہے  جس کی موجودگی سے  مادی جسم زندہ و متحرک ہے۔؟
وہ کیا شے  ہے  جس کی غیر موجودگی سے  جسم جسم ہی نہ رہا بے  نشان ہو گیا؟
کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے۔؟
اب اگرچہ ان سوالوں  کے  جواب میں کچھ لوگ انسانی جسم کی زندگی اور حرکت و عمل کا سبب روح کو سمجھنے  لگے  ہیں  لیکن وہ اس کا نہ تو اعتراف کرتے  ہیں  نہ ہی انہیں  روح پر یقین ہے  اس لیے  کہ روح ان کے  لیے  ایک معمہ ہے  اس لیے  کہ بے  تحاشا تحقیق کے  باوجود بھی وہ روح کو شناخت نہیں  کر پائے  لہذا آج بھی مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے  والے  بلا تعامل یہ کہتے  ہیں  کہ جسمانی نظام میں  روح جیسی کسی شے  کی گنجائش نہیں  ہے۔ اگر جسمانی نظام میں  روح کا کوئی عمل دخل نہیں  تو پھر ان تمام سوالوں  کے  کیا جواب ہیں۔؟ ظاہر ہے  روح کا انکار کرنے  والے  مادی جسم سے  متعلق ان سوالوں  کے  جواب نہیں  دے  سکتے۔ اب میں  اس کتاب میں  انہیں  برسوں  کے  تشنہ سوالوں  کے  جوابات دوں  گی۔
اگرچہ مادی جسم پر بے  تحاشا سائنسی کام ہو چکا ہے اور مزید جاری ہے  لیکن یہ سمجھ لیجیے  کہ روح کے  تذکرے  کے  بغیر مادی جسم کا علم نا مکمل ہے۔ اس لیے  کہ روح ہے  تو جسم ہے  روح نہیں  تو جسم بھی نہیں  ہے۔ اور اس بات کے  تو سائنسی شواہد میسر آ گئے  ہیں  کہ انسان محض جسم نہیں  ہے اور انسان کے  باطنی لطیف وجود کی نہ صرف تصویر کشی کر لی گئی ہے  بلکہ اس پر کافی تحقیق اور تجربات بھی ہو رہے  ہیں۔ اگرچہ انسان کا باطن ابھی اسرار میں  ہی لپٹا ہوا ہے اور غیر واضح ہے   پھر بھی آج انسان کو صرف جسم نہیں  بلکہ روح و جسم یعنی دو نظاموں  ظاہری و باطنی کا مجموعہ تصور کیا جا رہا ہے۔
جب کہ یہاں  میں  نے  انسان کو دو نہیں  بلکہ تین نظاموں  یعنی روح، نفس، جسم کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ تین نظاموں  کا ذکر بھی ماضی میں  ایک آدھ بار ہو چکا ہے  لیکن محض اتنا کہہ دینا کافی نہیں  ہے  اب میں  نے  جو یہاں  انسان کو روح، نفس، جسم کا مجموعہ کہا ہے  تو اب میں  اس نظریے  کی مسلسل وضاحت کروں  گی اور مادی جسم کی روح و نفس سے  تعلق کی مسلسل وضاحت کروں  گی۔ لہذا کچھ لوگ یہ کہ رہے  ہیں  کہ مادی جسم میں  روح کی کوئی گنجائش نہیں  جب کہ میں  اب یہاں مادی جسم کا تذکرہ نہ صرف روح کے  حوالے  سے  کروں  گی بلکہ میں  تو یہ کہہ رہی ہوں  کہ انسان محض مادی جسم یا روح ہی نہیں  بلکہ انسان کے  اندر ایک نفس بھی ہے۔ یہ نام تو اگر چہ سب نے  سن رکھا ہے اور سب بڑھ چڑھ کر اس کا تذکرہ بھی کرتے  ہیں لیکن در حقیقت نفس ہے  کیا یہ کوئی نہیں  جانتا۔
لہذا روح سے  پہلے  یہ وضاحت ضروری ہے  کہ نفس کیا ہے اور انسانی جسم میں  نفس کا کیا عمل دخل ہے۔

No comments:

Post a Comment